فیس بک اور ٹوئٹر پر ہزاروں جعلی، ایران نواز اکاؤنٹس کا خاتمہ
29 مئی 2019
فیس بک اور ٹوئٹر پر بہت سے جعلی اکاؤنٹس ختم کر دیے گئے ہیں، جہاں سے ایران کے حق میں پیغامات شائع کیے جاتے تھے۔ ایران ہی سے چلائے جانے والے ان ’فیک اکاؤنٹس‘ کا پتہ انٹرنیٹ سکیورٹی کمپنی ’فائر آئی‘ کی تحقیقات سے چلا تھا۔
اشتہار
دنیا کی سب سے بڑی سوشل میڈیا ویب سائٹ فیس بک اور مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم ٹوئٹر کی طرف سے منگل اٹھائیس مئی کو رات گئے بتایا گیا کہ یہ جعلی آن لائن اکاؤنٹس مختلف سیاسی امیدواروں اور صحافیوں کے نام پر بنائے گئے تھے، جو سوشل میڈیا پر ایک باقاعدہ ایران نواز مہم کا حصہ تھے۔
ان اکاؤنٹس کے اصلی کے بجائے جعلی حیثیت میں امریکا کی مختلف معروف سیاسی شخصیات کے اکاؤنٹس کے طور پر فعال ہونے کی تصدیق انٹرنیٹ سکیورٹی کمپنی ’فائر آئی‘ نے اپنے بڑی پیچیدہ چھان بین کے بعد کی تھی اور اب یہ ’فیک اکاؤنٹس‘ ڈیلیٹ کر دیے گئے ہیں۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق فیس بک نے بتایا کہ اس کی انتظامیہ نے ایسے کل 51 اکاؤنٹس، 36 پیجز اور سات گروپس کو ڈیلیٹ کر دیا ہے جبکہ اسی کمپنی کی ملکیت ایک ذیلی ادارے اور فوٹو شیئرنگ پلیٹ فارم انسٹاگرام سے بھی تین جعلی ایران نواز اکاؤنٹ ختم کر دیے گئے ہیں۔
فیس بک کے سائبر سکیورٹی کے شعبے کے سربراہ ناتھانیئل گلائشر کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ’’یہ جعلی اکاؤنٹ ایسے افراد کی طرف سے چلائے جاتے تھے، جنہوں نے عام صارفین کو اس بارے میں گمراہ کر رکھا تھا کہ وہ کون تھے اور کیا کر رہے تھے۔‘‘ ساتھ ہی فیس بک کے بیان میں مزید کہا گیا کہ سائبر سکیورٹی تحقیقات سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ یہ اکاؤنٹ ایران سے چلائے جا رہے تھے۔
دوسری طرف مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم ٹوئٹر نے بھی اپنے ایک بیان میں تصدیق کر دی کہ اس نے اپنی ویب سائٹ سے 2,800 ایسے اکاؤنٹ مئی کے اوائل میں ڈیلیٹ کر دیے، جو اصلی نہیں تھے۔ ایران سے بنائے گئے ان اکاؤنٹس کے بارے میں ٹوئٹر کی طرف سے کی جانے والی داخلی تفتیش ابھی تک جاری ہے۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے اس بارے میں لکھا ہے کہ یہ سب جعلی فیس بک اور ٹوئٹر اکاؤنٹس نہ صرف ایران نواز تھے بلکہ انہیں تہران حکومت کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مخالفت اور ان پر تنقید کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا تھا۔
’فائر آئی‘ نے اس بارے میں اپنے ایک بلاگ میں لکھا ہے کہ جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے اس نیٹ ورک میں جن سیاسی امیدواروں اور صحافیوں کے ناموں کا استعمال کیا گیا، تقریباﹰ ان سب کا تعلق امریکا سے تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ 2018ء میں امریکی کانگریس کے انتخابات کے موقع پر ان نقلی اکاؤنٹس کو فیس بک اور ٹوئٹر پر ایران نواز اور ٹرمپ مخالف پیغامات کی اشاعت اور تشہیر کے لیے بھی استعمال کیا گیا تھا۔
امریکی ریاست کیلی فورنیا میں قائم کمپنی ’فائر آئی‘ کے ایک سائبر سکیورٹی ریسرچر لی فوسٹر کے بقول، ’’ہم کافی یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اس نیٹ ورک کو ایران کے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔‘‘
م م / ع ح / روئٹرز، اے ایف پی
ایران پر امریکی پابندیوں کا نفاذ، کیا کچھ ممکن ہے!
ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر پابندیوں کے پہلے حصے کا نفاذ کر دیا ہے۔ بظاہر ان پابندیوں سے واشنگٹن اور تہران بقیہ دنیا سے علیحدہ ہو سکتے ہیں۔پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ نومبر میں کیا جائے۔
تصویر: Reuters/TIMA/N. T. Yazdi
ٹرمپ نے پابندیوں کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے
پابندیوں کے صدارتی حکم نامے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پانچ اگست کو دستخط کیے۔ ٹرمپ کے مطابق ایران پر اقتصادی دباؤ انجام کار اُس کی دھمکیوں کے خاتمے اور میزائل سازی کے علاوہ خطے میں تخریبی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے ایک جامع حل کی راہ ہموار کرے گا۔ ٹرمپ کے مطابق جو ملک ایران کے ساتھ اقتصادی رابطوں کو ختم نہیں کرے گا، اُسے شدید نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تصویر: Shealah Craighead
رقوم کہاں جائیں گی؟
پانچ اگست کو جاری کردہ پابندیوں کے حکم نامے پر عمل درآمد سات اگست سے شروع ہو گیا ہے۔ اس پابندی کے تحت ایران کی امریکی کرنسی ڈالر تک رسائی کو محدود کرنا ہے تاکہ تہران حکومت اپنی بین الاقوامی ادائیگیوں سے محروم ہو کر رہ جائے اور اُس کی معاشی مشکلات بڑھ جائیں۔ اسی طرح ایران قیمتی دھاتوں یعنی سونا، چاندی وغیرہ کی خریداری بھی نہیں کر سکے گا اور اس سے بھی اُس کی عالمی منڈیوں میں رسائی مشکل ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
ہوائی جہاز، کاریں اور قالین
سات اگست سے نافذ ہونے والی پابندیوں کے بعد ایران ہوائی جہازوں کے علاوہ کاریں بھی خریدنے سے محروم ہو گیا ہے۔ ایران کی امپورٹس، جن میں گریفائٹ، ایلومینیم، فولاد، کوئلہ، سونا اور بعض سوفٹ ویئر شامل ہیں، کی فراہمی بھی شدید متاثر ہو گی۔ جرمن کار ساز ادارے ڈائملر نے ایران میں مرسیڈیز بینز ٹرکوں کی پروڈکشن غیر معینہ مدت کے لیے معطّل کر دی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
جلتی آگ پر تیل ڈالنا
ایران پر پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ رواں برس پانچ نومبر کو ہو جائے گا۔ اس پابندی سے ایران کی تیل کی فروخت کو کُلی طور پر روک دیا جائے گا۔ تیل کی فروخت پر پابندی سے یقینی طور پر ایرانی معیشت کو شدید ترین دھچکا پہنچے گا۔ دوسری جانب کئی ممالک بشمول چین، بھارت اور ترکی نے عندیہ دے رکھا ہے کہ وہ توانائی کی اپنی ضروریات کے مدِنظر اس پابندی پر پوری طرح عمل نہیں کر سکیں گے۔
تصویر: Reuters/R. Homavandi
نفسیاتی جنگ
ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکی پابندیوں کے حوالے سے کہا ہے کہ واشنگٹن نے اُن کے ملک کے خلاف نفسیاتی جنگ شروع کر دی ہے تا کہ اُس کی عوام میں تقسیم کی فضا پیدا ہو سکے۔ روحانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں چین اور روس پر تکیہ کرتے ہوئے اپنے تیل کی فروخت اور بینکاری کے شعبے کو متحرک رکھ سکتا ہے۔ انہوں نے ایران میں امریکی مداخلت سے پہنچنے والے نقصان کا تاوان بھی طلب کیا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف فیڈیریکا موگیرینی کا کہنا ہے کہ اُن کا بلاک ایران کے ساتھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تہران سن 2015 کی جوہری ڈیل کے تحت دی گئی کمٹمنٹ کو پورا نہ کرنے پر بھی شاکی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ یورپی یونین یورپی تاجروں کے تحفظ کا خصوصی قانون متعارف کرا رکھا رکھا ہے۔