فیس بک پر ڈس انفارمیشن: الیکشن میں مداخلت کے خلاف نئے فیچرز
29 جنوری 2019
دنیا کی سب سے بڑی سوشل میڈیا ویب سائٹ فیس بک نے اپنے پلیٹ فارم کو ممکنہ طور پر کسی بھی طرح کے انتخابات میں ممکنہ مداخلت کے لیے غلط استعمال کیے جانے کے خلاف متعدد نئے فیچرز متعارف کرا دیے ہیں۔
اشتہار
ان فیچرز کے ذریعے یورپ میں اسی سال مئی میں ہونے والے یورپی پارلیمانی انتخابات میں بھی کسی بھی طرح کی سوشل میڈیا مداخلت کو روکا جا سکے گا۔ فیس بک کو اس بارے میں شدید دباؤ کا سامنا تھا کہ وہ ایسے فیچرز متعارف کرائے، جن کے ذریعے اس پلیٹ فارم کی مدد سے ڈس انفارمیشن کی کسی بھی مہم کا تدارک کیا جا سکے۔
بیلجیم کے دارالحکومت برسلز سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق یہ نئے فیچرز فیس بک کی اس حکمت عملی کا حصہ ہیں، جس کی بنیاد اس بات کو بنایا گیا ہے کہ ایسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے عوام کو سیاسی اور سماجی طور پر زیادہ مضبوط اور بااختیار بنایا جانا چاہیے، نہ کہ مخصوص مفادات کے حامل عناصر کو یہ موقع ملے کہ وہ فیس بک کو ڈس انفارمیشن یا غلط معلومات کے ذریعے اپنے سیاسی اہداف کے ناجائز طریقے سے حصول کے لیے استعمال کریں۔
اس بارے میں برطانیہ کے سابق نائب وزیر اعظم اور فیس بک کے موجودہ نائب صدر نِک کلیگ نے پیر اٹھائیس جنوری کی رات برسلز میں اپنے ایک خطاب میں ان اقدامات کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا، ’’یہ اقدامات فیس بک صارفین کے لیے اس سوشل میڈیا ویب سائٹ کے سافٹ ویئر میں اس سال مارچ کے اواخر سے متعارف کرا دیے جائیں گے۔‘‘
ڈونلڈ ٹرمپ: عوامیت پسند، ٹائیکون اور اب صدر
جائیداد کی خرید و فروخت کا کاروبار، بیسٹ سیلر ادیب، ٹی وی اسٹار اور اب امریکا کے 45 ویں صدر کے طور پر حلف اٹھانے والے ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت کے کئی مختلف پہلو ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ان کا خاندان، ان کی ’سلطنت‘
اس تصویر میں ڈونلڈ ٹرمپ اپنے پیاروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان کی اہلیہ میلانیا، ان کی بیٹیاں ایوانکا اور ٹفینی، ان کے بیٹے ایرک اور ڈونلڈ جونیئر کے علاوہ ان کا نواسا کائے اور پوتا ڈونلڈ جونیئر سوئم ان کے ہمراہ ہیں۔ ان کے تینوں بچے ٹرمپ آرگنائزیشن میں سینئر نائب صدر کے عہدوں پر فائز ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1984ء
یہ تصویر 1984ء کی ہے۔ اس وقت ٹرمپ نے اٹلانٹک سٹی میں قائم ٹرمپ پلازہ میں ایک جوا خانہ کھولا تھا۔ یہ اُن کے ایسے سرمایہ کاری منصوبوں میں سے ایک تھا، جن کی وجہ سے ٹرمپ ارب پتی بنے۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/M. Lederhandler
ٹرمپ کے سینئر
اپنے کاروبار کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کو ضروری سرمایہ ان کے والد فریڈرک کی جانب سے ملا تھا۔ انہوں نے ٹرمپ کو دس لاکھ امریکی ڈالر دیے تھے۔ 1999ء میں انتقال کے بعد ان کے والد کی چار سو ملین کی جائیداد ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ ان کے تین دیگر بچوں میں تقسیم ہوئی۔
تصویر: imago/ZUMA Press
کامیابی کی سیڑھیاں
ڈونلڈ ٹرمپ نے بہت ہی جارحانہ انداز میں سرمایہ کاری کی۔ اس دوران انہیں نقصان بھی ہوا تاہم کامیابی نے آخر کار ان کے قدم چومے۔ کہتے ہیں کہ ٹرمپ کے اثاثوں کی مالیت دس ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔
تصویر: Getty Images/D. Angerer
بہت اچھا، انتہائی خوبرو
یہ الفاظ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے فلاڈیلفیا کی وارہٹن یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی ہے۔ اس یونیورسٹی میں صرف اشرافیہ کے بچے ہی پڑھتے ہیں۔ یہاں سے انہوں نے 1968ء میں گریجویشن کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B.J. Harpaz
کیپٹن ٹرمپ
ڈونلڈ ٹرمپ کے والد نے انہیں تیرہ برس کی عمر میں ایک فوجی اسکول میں داخل کرا دیا تھا۔ اس کا مقصد اپنے بچے کو نظم و ضبط سکھانا تھا۔ ٹرمپ اس فوجی اسکول میں گزارے جانے والے وقت کو بہت یاد کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/
ویتنام جنگ
ڈونلڈ ٹرمپ ویتنام کی جنگ میں شرکت کرنے سے بچ گئے تھے۔ ان کی ایڑھی زخمی تھی، جس کے وجہ سے انہیں جنگ میں نہیں بھیجا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
پہلی ایوانا
1977ء میں ٹرمپ نے چیک جمہوریہ کی ماڈل ایوانا زیلنشکووا سے شادی کی، جن سے ان کے تین بچے ہوئے۔ تاہم اس دوران ٹرمپ کے معاشقوں کے افواہوں نے ان کی ازدواجی زندگی پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Swerzey
دوسری شادی
1990ء میں ٹرمپ اور ایوانا نے علیحدگی کا فیصلہ کرتے ہوئے طلاق لے لی۔ اس کے بعد انہوں نے خود سے سترہ سال چھوٹی مارلا نامی خاتون سے شادی کر لی۔ ان کی مشترکہ بیٹی کا نام ٹفینی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/J. Minchillo
خواتین کا جھرمٹ
ٹرمپ اپنی اہلیہ کے علاوہ بھی دیگر خواتین کے ساتھ عوامی مقامات پر دکھائی دیتے ہیں اور ایسا کرنا انہیں پسند بھی ہے۔ وہ اکثر بیوٹی مقابلوں میں جا کر نئی ماڈلز کے ساتھ تصاویر بنواتے ہیں۔ 1996ء سے 2015ء کے دوران امریکا میں ہونے والا مس یونیورس مقابلہ بھی وہی منقعد کروایا کرتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Lemm
کاروبار کا طریقہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی کتاب The Art of the Deal میں مشورے و تجاویز دی ہیں کہ کیسے کروڑ پتی بنا جاتا ہے۔ اس کتاب میں ان کی آب بیتی بھی شامل ہے۔ یہ کتاب بیسٹ سیلر تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Schwalm
سیاست میں قدم
ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سے قبل سیاست میں کم ہی دلچسپی ظاہر کی تھی۔ سولہ جون 2015ء کو انہوں نے اچانک اعلان کیا کہ وہ ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار بننا چاہتے ہیں۔ ان کا نعرہ تھا: ’امریکا کو ایک مرتبہ پھر عظیم بنائیں۔‘ انتخابی مہم میں ان کے اہل خانہ ان کے ساتھ رہے۔ تاہم اس دوران مہاجرین، مسلمانوں، خواتین اور اپنے مخالفین کے خلاف انہوں نے سخت بیانات دیے اور نازیبا الفاظ بھی ادا کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Lane
وقار والا منصب
اگلے برس جنوری میں ٹرمپ وائٹ ہاؤس کے نئے مکین ہوں گے۔ کیا وہ دنیا کو پرامن بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ بہت سے لوگ تو یہ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کی کہانی دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ شخص گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ngan
13 تصاویر1 | 13
انہوں نے کہا کہ ان اقدامات کے ذریعے فیس بک پر سیاسی نوعیت کے تجارتی اشتہارات کو مزید شفاف بنا دیا جائے گا۔‘‘ نِک کلیگ نے کہا کہ آئندہ یورپی پارلیمانی انتخابات کے سلسلے میں فیس بک پر کسی کی طرف سے بھی جو بھی سیاسی اشتہارات دیے جائیں گے، ان پر عام صارفین کی درست رہنمائی کے لیے واضح طور پر لکھا ہو گا کہ ان کے لیے مالی ادائیگیاں کس نے کیں۔
اس کے علاوہ فیس بک انتظامیہ نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ آئندہ ایسے سیاسی اشتہارات کسی خاص انتخابی امیدوار یا پارٹی کی حمایت تو نہیں کریں گے لیکن ان میں ایسے سیاسی موضوعات کو واضح ترجیح دی جائے گی، جو عام رائے دہندگان کے لیے بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہوں گے، جیسے بے روزگاری یا تارکین وطن کی آمد سے متعلق انتخابی اور سیاسی موضوعات۔
اس بارے میں یورپی یونین کی انصاف اور صارفین کے مفادات سے متعلقہ امور کی نگران خاتون کمشنر ویرا ژُورووا نے کہا ہے کہ فیس بک کی طرف سے یہ نئے اقدامات خوش آئند تو ہیں، جو بہت ضروری بھی تھے، لیکن اس بہت بڑی امریکی ٹیکنالوجی کمپنی کو آئندہ ابھی ایسے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت بھی ہو گی۔
فیس بک نے اب جس طرح کے نئے فیچرز متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے، یہ ان کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہی ہوا تھا کہ امریکا میں گزشتہ صدارتی انتخابات میں، جن میں ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو کامیابی ملی تھی، روس پر یہ الزامات لگائے گئے تھے کہ وہ ان امریکی انتخابات میں مداخلت کا مرتکب ہوا تھا۔
م م / ع ا / اے ایف پی
بنگلہ دیش کا ’ڈیتھ اسکواڈ‘ سوشل میڈیا کی جانچ پڑتال کرے گا
بنگلہ دیشی حکومت سوشل میڈیا کی جانچ پڑتال کی ذمہ داری پیراملٹری فورس کو تفویض کرنے کا سوچ رہی ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ حکومتی فیصلہ آزادئ رائے کے منافی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
داغ دار شہرت
ریپڈ ایکشن بٹالین (RAB) سن 2004 میں قائم کی گئی تھی تاکہ بنگلہ دیش میں فروغ پاتی اسلام پسندی کو قابو میں لایا جا سکے۔ اس فورس نے ابتداء میں چند جہادی عقائد کے دہشت گردوں کو ہلاک کیا یا پھر گرفتار کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس فورس کی شہرت بتدریج داغ دار ہوتی چلی گئی اور یہ خوف کی علامت بن کر رہ گئی۔ اسے موت کا دستہ یا ’ڈیتھ اسکواڈ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
فیس بک، یوٹیوب اور سکیورٹی
بنگلہ دیش کی حکومت فیس بک، یوٹیوب اور دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی نگرانی پر بارہ ملین یورو یا تقریباً چودہ ملین امریکی ڈالر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس منصوبے کے تحت ریپڈ ایکشن بٹالین ریاست مخالف پراپیگنڈے، افواہوں اور اشتعال انگیز مضامین یا بیانات کیا اشاعت کی نگرانی کرے گی۔ نگرانی کا یہ عمل انٹرنیٹ پر دستیاب کمیونیکشن کے تمام ذرائع پر کیا جائے گا۔
تصویر: imago/Future Image
ڈھاکا حکومت پر بین الاقوامی دباؤ کا مطالبہ
سویڈن میں مقیم بنگلہ دیشی صحافی تسنیم خلیل کا کہنا ہے کہ ریپڈ ایکشن بٹالین کو استعمل کرتے ہوئے ڈھاکا حکومت اپنے مخالفین کو گرفتار یا نظربند کرنے کا پہلے ہی سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ خلیل نے یورپی یونین اور ایسے دوسرے اداروں سے کہا ہے کہ وہ بنگلہ دیشی حکومت کو ایسا اقدام کرنے سے روکے جو عام شہریوں کی آزادی کو سلب کرنے کے مساوی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
آزادئ صحافت کو محدود کرنے کا نیا قانون
بنگلہ دیشی حکومت نے حال ہی میں ایک نیا قانون ’ دی ڈیجیٹل ایکٹ‘ متعارف کرایا ہے۔ اس قانون کے تحت انٹرنیٹ پر ریاست مخالف یا قانونی اختیار کو درہم برہم کرنے یا مذہبی جذبات کو مجروح کرنے یا نسلی ہم آہنگی کے منافی کوئی بھی بیان شائع کرنے کے جرم پر سات برس تک کی قید سزا سنائی جا سکتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ حکومتی ناقدین کو خاموش کرنے طور پر اس قانون کا استعمال کر سکتی ہے۔
تصویر: government's press department
ذرائع ابلاغ کا احتجاج
پیر پندرہ اکتوبر کو مسلم اکثریتی ملک بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں اہم اخبارات کے مدیران نے نیشنل پریس کلب کے باہر انسانی زنجیر بنائی۔ اس موقع پر مطالبہ کیا گیا کہ ’دی ڈیجیٹل ایکٹ‘ کی مختلف نو شقوں میں ترامیم کی جائیں کیونکہ یہ آزاد صحافت اور آزادئ رائے کے راستے کی رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ اس مظاہرے کے جواب میں کوئی حکومتی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
تصویر: bdnews24.com
صحافت بھی جاسوسی کا ذریعہ ہو سکتی ہے!
ایک سینیئر ایڈیٹر محفوظ الرحمان کا کہنا ہے کہ نئے قانون کے تحت اگر کوئی صحافی کسی حکومتی دفتر میں داخل ہو کر معلومات اکھٹی کرتا پایا گیا تو اُسے جاسوسی کے شبے میں چودہ سال تک کی سزائے قید سنائی جا سکتی ہے۔ محفوظ الرحمان کا مزید کہنا ہے کہ یہ نیا قانون سائبر کرائمز کے چیلنج کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ آزاد میڈیا کے گلے میں ہڈی کی طرح اٹک جائے گا۔
تصویر: bdnews24.com
ناروا سلوک
بنگلہ دیش آزاد صحافت کی عالمی درجہ بندی میں 180 ممالک میں 146 ویں پوزیشن پر ہے۔ ڈھاکا حکومت نے عالمی دباؤ کے باوجود انسانی حقوق کے سرگرم کارکن شاہد العالم کو پسِ زندان رکھا ہوا ہے۔ العالم نے رواں برس اگست میں طلبہ کے پرامن مظاہرے پر طاقت کے استعمال کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور وہ اسی باعث گرفتار کیے گئے۔ اس گرفتاری پر حکومتی ناقدین کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔