فیس بک پوسٹ نے جسم فروشی کے لیے اسمگل کی گئی لڑکی کو بچا لیا
3 دسمبر 2020
کمبوڈیا سے جسم فروشی کے لیے چین اسمگل کی گئی ایک نوجوان خاتون کو ایک فیس بک پوسٹ کی وجہ سے بچا لیا گیا۔ اس لڑکی کی عمر اس وقت بیس سال ہے اور اسے دو سال قبل ’اچھی ملازمت‘ کے وعدہ کر کے چین پہنچایا گیا تھا۔
اشتہار
کمبوڈیا میں نوم پین سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اسی شہر سے شائع ہونے والے اخبار 'نوم پین پوسٹ‘ نے لکھا ہے کہ اس کمبوڈین لڑکی کو اب چینی پولیس نے اپنی حفاظت میں لے لیا ہے۔ چینی حکام اب اس کے لیے ضروری سفری دستاویزات حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں تاکہ اسے جلد از جلد واپس اس کے وطن بھیجا جا سکے۔
کمبوڈین وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق 2018ء میں چین پہنچائی گئی یہ لڑکی اس وقت چینی صوبے ہےنان میں حکام کی حفاظتی تحویل میں ہے اور 'وہ جلد از جلد واپس گھر پہنچ جائے گی‘۔ اس لڑکی کو، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، اس وقت سے ہی اذیت ناک حالات کا سامنا تھا، جب سے وہ چین پہنچی تھی۔
چینی مردوں سے 'شادیاں‘
اس لڑکی اور اس کے والدین کو کمبوڈیا سے بیرون ملک اسمگل کرنے والے افراد نے یقین دہانی تو ایک 'اچھی ملازمت‘ کی کرائی تھی لیکن ہےنان پہنچائے جانے پر اسے چینی مردوں سے 'شادیوں‘ پر مجبور کیا گیا تھا۔ یوں یہ لڑکی دو سال تک ذہنی اور جسمانی کرب اور جنسی استحصال کا شکار رہی، جو اب اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے۔
اس لڑکی نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا تھا کہ جن مردوں کو اس کے 'شوہر‘ قرار دیا جاتا ہے، وہ تو انہیں جانتی تک نہیں اور اسے شدید خطرہ ہے کہ اسے غیر قانونی جسم فروشی کے کسی اڈے کے مالک یا مالکہ کو بیچ دیا جائے گا۔ اس سوشل میڈیا پوسٹ میں اس لڑکی نے کمبوڈیا کے وزیر اعظم ہُن سَین سے بھی درخواست کی تھی کہ وہ اسے بچائیں اور وطن واپسی میں اس کی مدد کریں۔
اس لڑکی کی والدہ نے کمبوڈیا کی ایک سماجی تنظیم وائس آف ڈیموکریسی کو بتایا کہ اس کی بیٹی کو سترہ سے بیس سال تک کی عمر کی پانچ دیگر لڑکیوں کے ہمراہ انسانوں کی ٹریفکنگ کرنے والے افراد نے 2018ء میں چین پہنچایا تھا۔
اس خاتون نے وائس آف ڈیموکریسی کو بتایا، ''میں نے گزشتہ برس اسی وقت مقامی پولیس سے رابطہ کر کے شکایت کر دی تھی، جب مجھے یہ علم ہوا تھا چین میں میری بیٹی کو اچھے اقتصادی مستقبل کے بجائے جنسی استحصال کا سامنا ہے۔‘‘
عورت کس کس روپ ميں استحصال کا شکار
اس وقت دنيا بھر ميں انتيس ملين خواتين غلامی پر مجبور ہيں اور کئی صورتوں ميں خواتين کا استحصال جاری ہے۔ جبری مشقت، کم عمری ميں شادی، جنسی ہراسگی اور ديگر کئی جرائم سے سب سے زيادہ متاثرہ عورتيں ہی ہيں۔
تصویر: dapd
جدید غلامی کيا ہے؟
غير سرکاری تنظيم 'واک فری‘ کی ايک تازہ رپورٹ کے مطابق موجودہ دور ميں غلامی ايسی صورت حال کو کہا جاتا ہے، جس ميں کسی کی ذاتی آزادی کو ختم کيا جائے اور جہاں کسی کے مالی فائدے کے ليے کسی دوسرے شخص کا استعمال کيا جائے۔
تصویر: Louisa Gouliamaki/AFP/Getty Images
تشدد، جبر، جنسی ہراسگی: جدید غلامی کے انداز
اس وقت دنيا بھر ميں انتيس ملين خواتين مختلف صورتوں ميں غلامی کر رہی ہيں۔ 'واک فری‘ نامی غير سرکاری تنظيم کی رپورٹ کے مطابق دنيا بھر ميں جبری مشقت، قرض کے بدلے کام، جبری شاديوں اور ديگر صورتوں ميں وسيع پيمانے پر عورتوں کا استحصال جاری ہے۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
جنسی استحصال آج بھی ايک بڑا مسئلہ
غير سرکاری تنظيم 'واک فری‘ کے مطابق موجودہ دور میں جنسی استحصال کے متاثرين ميں خواتين کا تناسب ننانوے فيصد ہے۔
تصویر: Sazzad Hossain/DW
جبری مشقت: مردوں کے مقابلے ميں عورتيں زيادہ متاثر
انٹرنيشنل ليبر آرگنائزيشن اور بين الاقوامی ادارہ برائے ہجرت (IOM) کے تعاون سے اکھٹے کيے جانے والے 'واک فری‘ نامی غير سرکاری تنظيم کے اعداد کے مطابق دنيا بھر ميں جبری مشقت کے متاثرين ميں عورتوں کا تناسب چون فيصد ہے۔
تصویر: DW/S. Tanha
جبری شادیاں، لڑکيوں کے ليے بڑا مسئلہ
رپورٹ کے مطابق قرض کے بدلے یا جبری شاديوں کے متاثرين ميں خواتین کا تناسب چوراسی فيصد ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Bouys
نئے دور ميں غلامی کے خاتمے کے ليے مہم
'واک فری‘ اور اقوام متحدہ کا 'ايوری وومين، ايوری چائلڈ‘ نامی پروگرام نئے دور ميں غلامی کے خاتمے کے ليے ہے۔ اس مہم کے ذريعے جبری يا کم عمری ميں شادی کے رواج کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی، جو اب بھی 136 ممالک ميں قانوناً جائز ہے۔ يہ مہم کفالہ جيسے نظام کے خاتمے کی کوشش کرے گی، جس ميں ايک ملازم کو مالک سے جوڑ ديتا ہے۔
تصویر: dapd
6 تصاویر1 | 6
کمبوڈیا میں اس لڑکی کا خاندان کراتائی نامی صوبے میں رہتا ہے لیکن اس کی والدہ کی طرف سے پولیس کو کی گئی شکایت کا اس وقت کوئی نتیجہ اس لیے نہیں نکلا تھا کہ یہ پتا چلانا تقریباﹰ ناممکن تھا کہ چین میں یہ کمبوڈین لڑکی کہاں تھی۔ یہ کام اس لڑکی کی اس حالیہ فیس بک پوسٹ کی وجہ سے ممکن ہو سکا، جس میں اس نے اپنے لیے ریسکیو کی درخواست کی تھی۔
کمبوڈیا سے بہت سی خواتین کو انسانوں کے اسمگلر اچھی ملازمتوں یا پھر چینی مردوں سے شادیوں کے وعدے کر کے چین پہنچا دیتے ہیں لیکن بعد میں ایسی خواتین کا اکثر بدترین سماجی اور جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔
بیجنگ اور نوم پین میں حکومتوں نے یہ اتفاق رائے کر لیا ہے کہ وہ انسانوں کی ایسی ٹریفکنگ کی روک تھام کے لیے مل کر نتیجہ خیز اقدامات کریں گی۔ انسانوں کی اسمگلنگ کے خلاف سرگرم تنظیموں کا تاہم کہنا ہے کہ اس مقصد کے بہت زیادہ وسائل درکار ہوں گے اور دونوں ممالک کو ان وسائل کی فراہمی کو بھی یقینی بنانا ہو گا۔
م م / ا ا (ڈی پی اے)
بنگلہ دیش میں جسم فروشی
بنگلہ دیش میں 2000ء سے جسم فروشی کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ تاہم اس مسلم اکثریتی ملک میں جبری جسم فروشی انتہائی تشویشناک مسئلہ بن چکی ہے۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
جبری جسم فروشی
بنگلہ دیش میں لڑکیوں کو کم عمری میں جسم فروشی پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ دیہی علاقوں میں آباد بہت سے غریب خاندان 20 ہزار ٹکوں کے عوض اپنی لڑکیوں کو انسانوں کے اسمگلروں کے ہاتھوں بیچ دیتے ہیں۔ بعض اوقات نوجوان لڑکے شادی کا لالچ دے کر لڑکیوں کو اس دھندے میں دھکیل دیتے ہیں۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
پرکشش بنانے والی ’ادویات‘ کا استعمال
جسم فروش لڑکیاں اکثر پرکشش دکھائی دینے کے لیے مخصوص دوائیں (اوراڈیکسن) استعمال کرتی ہیں تاکہ وہ صحت مند دکھائی دیں اور گاہکوں کو اپنی جانب متوجہ کر سکیں۔ ایسی ہی دوائیں کسان اپنے مویشیوں کو موٹا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق طویل عرصے تک اوراڈیکسن کا استعمال خطرناک ہو سکتا ہے۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
دوا کے بجائے ٹیکے
اوراڈیکسن کم عمر بالخصوص بارہ سے چودہ برس کی عمر کی لڑکیوں پر کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ ایک قحبہ خانے کی مالکن رقیہ کا کہنا ہے کہ جواں سال جسم فروشوں کے لیے ٹیکے زیادہ مؤثر ہوتے ہیں۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
ادویات کا وسیع تر استعمال
غیرسرکاری تنظیم ایکشن ایڈ کے مطابق بنگلہ دیش کے قحبہ خانوں میں کام کرنے والی تقریباﹰ نوّے فیصد لڑکیاں اوراڈیکسن استعمال کرتی ہیں۔ تنظیم کے مطابق یہ پندرہ سے پینتیس سال تک کی عمر والی جسم فروش خواتین میں بہت مقبول ہے۔ اس تنظیم کے مطابق بنگلہ دیش میں تقریباﹰ دو لاکھ لڑکیاں جسم فروشی کے دھندے سے وابستہ ہیں۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
قحبہ خانوں میں مہم
ایکشن ایڈ نے جسم فروشوں کو اوراڈیکسن کے مضر اثرات سے آگاہ کرنے کے لیے قحبہ خانوں میں ایک مہم کا آغاز کر رکھا ہے۔ اس دوائی کی عادی خواتیں کو مدد بھی فراہم کی جا رہی ہے۔ اس تنظیم کے ایک کارکن کے مطابق یہ دوا استعمال کرنے والی عورتوں کا وزن تو تیزی سے بڑھ ہی جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی انہیں ذیابیطس، بلند فشارِ خون اور سر میں درد کی شکایت بھی رہنے لگتی ہے۔
تصویر: GMB Akash
ایچ آئی وی انفیکشن
بنگلہ دیش کے مقامی اخبار جسم فروشوں کے ایچ آئی وی انفیکشن میں مبتلا ہونے کی خبریں اکثر شائع کرتے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے درست اعداد و شمار کا پتہ لگانے کے لیے کوئی باقاعدہ تحقیق نہیں کی گئی۔ جسم فروش عورتوں کے مطابق ان کے اکثر گاہک کنڈوم استعمال کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔
تصویر: AP
جسم فروشی کے لیے بچوں کا استعمال
بنگلہ دیش میں یہ انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے۔ یونیسیف کے 2004ء کے ایک اندازے کے مطابق وہاں دس ہزار کم عمر لڑکیوں کو جسم فروشی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ دیگر اندازوں کے مطابق یہ تعداد 29 ہزار ہے۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
اسلام پسندوں کے حملے
گزشتہ برس اسلام پسندوں کے ایک گروپ نے بنگلہ دیش کے ایک جنوبی علاقے میں ایک قحبہ خانے پر حملہ کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں 30 افراد زخمی ہو گئے تھے جبکہ تقریبا پانچ سو افراد بے گھر ہوئے تھے۔ بنگلہ دیش میں جسم فروشی کے مراکز پر ایسے حملے معمول کی بات ہیں۔