1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فیشن ٹرینڈز کے فالور سے امرتدھاری سردار تک کا کٹھن سفر

من میت کور
6 اگست 2020

پاکستان میں بسنے والے سکھ کئی طرح کی مشکلات کا شکار ہیں، وہ مشکلات جن کا حل مشکل بھی نہیں۔

Pakistan Feierlichkeiten 550. Geburtstag Religionsstifter Nanak Dev
تصویر: Tanvir Shehzad

''بچپن سے جو چاہا تو ملتا گیا۔ میں نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جس میں میں اپنے والدین کی توجہ کا واحد مرکز تھا۔ میرے علاوہ کوئی بہن تھی نہ بھائی۔ والدین کی اکلوتی اولاد ہونے کے باعث ہر خواہش کو پورا کیا گیا۔ بچپن سے ہی میرے گھر میں وائے گرو کی آواز گونجتی، نگر کیرتن اور گروبانی گائی جاتی، بابا گرو نانک کے جنم دن پر خصوصی اہتمام ہوتا۔ والدین نے کسی چیز کی کمی نہ رہنے دی۔

بابا گرو نانک کا چیلا ہونے کے باوجود بھی جوانی کے ابتدائی ایام میں امرتدھاری سردار کا روپ اختیار نہ کیا۔‘‘ یہ کہتے ہیں کراچی کے علاقے رنچھوڑ لائن کے رہائشی دیپک سنگھ جو ایک شیپنگ کمپنی میں ملازمت کرتے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ جس ادارے میں کام کرتے تھے اس کمپنی کا مالک ان کا بہت خیال رکھتا تھا۔ دیپک نے بارہ برس تک اس کمپنی میں ملازمت کی۔ جب دیپک کی پہلی بیٹی کی پیدائش ہوئی تو اس کے بعد وہ اپنے مذہب کی جانب مائل ہوتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ گرو کا پیارا بنے اور دسویں گرو گوبند سنگھ کی مذہبی تعلیمات پر سختی سے عمل پیرا ہو۔

سکھ مذہب کے عقائد کے مطابق پانچ کک یا پانچ کے پر عمل پیرا ہو کر ہی گرو کا پیارا بنا جا سکتا ہے اور امرت دھاری سردار کے روپ کو اختیار کیا جا سکتا ہے ۔ پانچ' کک‘ یہ ہیں۔

1 کڑا

2 کیس (بال)

3 کچھا (زیر جامہ)

4 کنگھی

5 کرپان  (چاقو/تلوار)

دیپک نے بھی امرت دھاری سکھ کے روپ کو اختیار کیا لیکن مذہبی روپ کو اپناتے ہوئے انہیں آزمائش سے گزرنا پڑا۔ اور اپنی ملازمت کو خیر باد کہنا پڑا وہ مالک جو خود انکا خیال رکھتا، دیپک کا کہنا ہے کہ اسی نے اس کی تذلیل شروع کر دی ، معاشی حالات مشکل ترین تھے۔ میں نے گرو کے پیارے کا روپ اختیار کیا اور اس روپ کے خلاف باتیں اور ہتک آمیز رویہ ناقابل برداشت تھا ۔ اسی لیے بارہ برس پرانی ملازمت کو چھوڑنا پڑا ۔

پاکستان کے پہلے سکھ پارلیمینٹرین رامیش سنگھ اوروڑا جو اقلیتی نشست پر پنجاب کے رکن صوبائی اسمبلی بھی ہیں،کہتے ہیں کہ پاکستان میں سکھوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔ تاہم اب بھی سکھوں سے متعلق کچھ قوانین کو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسے گرو ہے پیارے اور امرت دھاری سردار کے لیے کرپان مذہب کا لازمی جز ہے۔ مگر سکھوں کو اس حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی طرح دیگر صوبوں کےایوانوں میں سکھ اقلیتی نمائندوں کی شمولیت ضروری ہے تاکہ وہ بہترین انداز میں پاکستان میں رہنے والے سکھ کمیونٹی ہے مسائل پر قانون سازی کر سکیں ۔ رامیش سنگھ کا کہنا تھا کہ وہ جلد کرپان کے مخصوص سائز کے حوالے سے قانون سازی کریں گے کہ اس سلسلے میں امرت دھاری سرداروں کو پیش آنے والے مسائل کا ادراک ہو سکے۔

من میت کوورتصویر: privat

دیپک سنگھ جو اب رنچھوڑ لائن گردوارے کے گرنتی بھی ہیں۔ اپنے بچوں کے خرچے کو پورا کرنے کے لیے رکشہ چلاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے مذہبی روپ کی وجہ سے انہیں اب بھی بہت سے مقامات پر دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسے شاپنگ مالز میں داخلے کے وقت کرپان کے حوالے سے سوالات کیے جاتے ہیں ،ایسا ہی اسپتال میں داخلے کے وقت بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتے ہیں۔ مخصوص مذہبی روپ کو اختیار کرنے کے بعد موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ہیلمٹ پہنا نہیں جاسکتا لیکن دیپک کا ماننا ہے کہ وہ قانون کی پاسداری ہو یقینی بنانے کے لیے ہیلمٹ ساتھ رکھتے ہیں۔

سال دو ہزار بارہ کے نادرا ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں سکھ مذہب کے ماننے والے شہریوں کی رجسٹرڈ تعداد چھ ہزار ایک سو سے زائد تھی اور آٹھ سال گزرنے کے بعد اس تعداد میں بیس ہزار کے لگ بھگ افراد کا اضافہ ہوا۔

سرجیت سنگھ کا تعلق بھی سکھ کمیونٹی سے ہے۔ جو اس وقت خیبر پختونخواہ کی پیپل منڈی میں مصالحہ جات کی دوکان چلاتے ہیں۔ سرجیت بھی امرت دھاری سرداری کو پریکٹس کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کچھ مسائل جیسے ہیلمٹ کا استعمال، یا اسکول میں بھیجے جانے والے بچوں کو کڑا پہننے پر دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر اب آہستہ آہستہ بین المذاھب ہم آہنگی بڑھنے سے دشواریاں کم بھی ہو رہی ہیں ۔ مگر ان کا بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں اگر ان کی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والا نمائندہ افراد کی تعداد میں سکھ کمیونٹی کے اعدادو شمار کے مطابق اضافہ کیا جائے تو بہت سے سکھ سرداروں کی نوکری کے مسائل سے لے کر کئی دیگر مسائل اوران پر قانون سازی کی جا سکتی ہے۔

*امرت دھاری ایسے سکھوں کو کہتے ہیں جو گرو کا امرت پی کر  سختی سے روایت پر کاربند ہوں۔ امرت دھاری سکھوں کو رحت مریادا کے ضوابط پر عمل پیرا ہونا ہوتا ہے، جن میں پانچ 'ک‘ کے علاوہ دسوند دینا، کُٹھا گوشت نہ کھانا، الکوحل اور جوے سے دور رہنا اور مالی فائدے کے لیے اپنے بچوں کی شادی سے گریز شامل ہیں۔ انہی ضوابط کا پاس کرنے والوں کو خالصا سکھ کہا جاتا ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں