کراؤن پرنس محمد بن سلمان نے بھی خلیج عمان میں آئل ٹینکرز پر ہوئے حملوں کا الزام ایران پر عائد کر دیا ہے۔ سعودی وزیر توانائی کے مطابق تیل کی برآمد کے اس اہم آبی راستے کو ’دہشت گردانہ حملوں‘ سے محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔
اشتہار
سعودی شہزادے محمد بن سلمان نے خلیج عمان میں دو آئل ٹینکرز پر حملوں کا الزام ایران پر عائد کر دیا ہے۔ اتوار کے دن الشرق الوسط نامی اخبار نے سعودی ولی عہد کے حوالے سے لکھا کہ ان حملوں کے پیچھے ایرانی حکومت کا ہاتھ ہے۔
جن دو ٹینکرز کو نشانہ بنایا گیا تھا، ان میں ایک جاپان کا تھا۔ جمعرات کے دن یہ کارروائی ایک ایسے وقت میں کی گئی تھی، جب جاپانی وزیر اعظم شینزو آبے ایران کے دورے پر تھے۔
اسی تناظر میں محمد بن سلمان نے کہا، ''ایرانی حکومت نے جاپانی وزیر اعظم کے دورہ ایران کا احترام نہ کیا اور جب وہ ایران میں ہی تھے تو ان کی (امن) کوششوں کا جواب دو آئل ٹینکرز پر حملے سے دیا گیا، جن میں سے ایک جاپان کا تھا۔‘‘
مشرق وسطی میں اس نئی کشیدگی کے حوالے سے محمد بن سلمان نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ اس حوالے سے 'فیصلہ کن موقف‘ اختیار کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کا ملک جنگ نہیں چاہتا۔
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا، ''لیکن ہم اپنے عوام، خود مختاری، علاقائی سالمیت اور اپنے اہم مفادات کو لاحق خطرات سے نمٹنے میں کسی ہچکچاہٹ کا اظہار بھی نہیں کریں گے۔‘‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی کہہ چکے ہیں کہ خلیج عمان میں آئل ٹینکرز پر حملوں میں ایران ملوث تھا۔ تاہم انہوں نے اس حوالے سے شواہد نہیں دیے تھے۔ ادھر برطانیہ نے بھی امریکی موقف کی حمایت کر دی ہے۔
سعودی کراؤن پرنس محمد بن سلمان کے بیان سے قبل ہفتے کی شب سعودی وزیر توانائی خالد الفالح نے ان آئل ٹینکرز پر حملوں کو 'دہشت گردی‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ عالمی برادری کو اس اہم آبی راستے کو محفوظ بنانے کی خاطر 'فیصلہ کن اور فوری‘ ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔
اپنے ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ تجارتی راستوں اور انرجی سپلائی چین کو مستحکم بنانا ضروری ہے تاکہ صارفین کا اعتماد بحال رہے۔ یہ امر اہم ہے کہ خلیج عمان میں ان حالیہ واقعات کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔
ع ب / اب ا / خبر رساں ادارے
امریکی پابندیوں کا نشانہ بننے والے ممالک
امریکا عالمی تجارت کا اہم ترین ملک تصور کیا جاتا ہے۔ اس پوزیشن کو وہ بسا اوقات اپنے مخالف ملکوں کو پابندیوں کی صورت میں سزا دینے کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔ یہ پابندیاں ایران، روس، کیوبا، شمالی کوریا اور شام پر عائد ہیں۔
تصویر: Imago
ایران
امریکا کی ایران عائد پابندیوں کا فی الحال مقصد یہ ہے کہ تہران حکومت سونا اور دوسری قیمتی دھاتیں انٹرنیشنل مارکیٹ سے خرید نہ سکے۔ اسی طرح ایران کو محدود کر دیا گیا ہے کہ وہ عالمی منڈی سے امریکی ڈالر کی خرید سے بھی دور رہے۔ امریکی حکومت ایرانی تیل کی فروخت پر پابندی رواں برس نومبر کے اوائل میں عائد کرے گی۔
کمیونسٹ ملک شمالی کوریا بظاہراقوام متحدہ کی پابندیوں تلے ہے لیکن امریکا نے خود بھی اس پر بہت سی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ امریکی پابندیوں میں ایک شمالی کوریا کو ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق ہے۔ ان پابندیوں کے تحت امریکا ایسے غیر امریکی بینکوں پر جرمانے بھی عائد کرتا چلا آ رہا ہے، جو شمالی کوریائی حکومت کے ساتھ لین دین کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Marai
شام
واشنگٹن نے شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت پر تیل کی فروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ امریکا میں شامی حکومت کے اہلکاروں کی جائیدادیں اور اثاثے منجمد کیے جا چکے ہیں۔ امریکی وزارت خزانہ نے ساری دنیا میں امریکی شہریوں کو شامی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے کاروبار یا شام میں سرمایہ کاری نہ کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Esiri
روس
سن 2014 کے کریمیا بحران کے بعد سے روسی حکومت کے کئی اہلکاروں کو بلیک لسٹ کیے جانے کے بعد ان کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کریمیا کی کئی مصنوعات بھی امریکی پابندی کی لپیٹ میں ہیں۔ اس میں خاص طور پر کریمیا کی وائن اہم ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکا نے ڈبل ایجنٹ سکریپل کو زہر دینے کے تناظر میں روس پرنئی پابندیاں بھی لگا دی ہیں۔
تصویر: Imago
کیوبا
سن 2016 میں سابق امریکی صدرباراک اوباما نے کیوبا پر پابندیوں کو نرم کیا تو امریکی سیاحوں نے کیوبا کا رُخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکی شہریوں پر کیوبا کی سیاحت کرنے پر پھر سے پابندی لگا دی گئی ہے۔ اوباما کی دی گئی رعایت کے تحت کیوبا کے سگار اور شراب رَم کی امریکا میں فروخت جاری ہے۔