فیض حمید کو سزا، کس کو کیا پیغام دیا گیا؟
11 دسمبر 2025
ریٹائرڈ لفیٹیننٹ جنرل فیض حمید کو یہ سزا ایسے وقت میں سنائی گئی ہے جب اسٹیبلشمنٹ اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان کشیدگی اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ عمران خان کے دورِ حکومت میں فیض حمید ان کے انتہائی قریب سمجھے جاتے تھے۔
مسلم لیگ نون اس فیصلے کو قانون کی حکمرانی اور بے لاگ احتساب قرار دے رہی ہے، لیکن تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی کے مطابق یہ صرف ابتدا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ عمران خان کے خلاف مزید سخت کارروائی کے لیے فضا ہموار کی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق فیض حمید کو ممکنہ طور پر اس سے بھی زیادہ سزا دی جا سکتی تھی اور موجودہ سزا دراصل عمران خان کو ’’مفاہمت کا آخری پیغام‘‘ دینے کی ایک شکل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ فیض حمید جیسے اقدامات دوسرے لوگ بھی ماضی میں کرتے رہے ہیں اور اگر احتساب واقعی غیر جانبدار ہے تو پھر سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام سمیت دیگر شخصیات کو بھی قانون کے کٹہرے میں آنا چاہیے۔
دوسری طرف، فیض حمید کے وکیل میاں علی اشفاق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس فیصلے کے اعلان کے حوالے سے نہ ملزم کے وکلاء کو فیصلے کی پیشگی اطلاع دی گئی اور نہ ہی اہلِ خانہ کو۔ ''ہمیں فیصلے کی کاپی تک نہیں دی گئی، جس سے پتا چل سکے کہ سزا کس بنیاد پر دی گئی۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ آرمی ایکٹ کے تحت چالیس دن کے اندر آرمی چیف کے پاس اپیل کی جا سکتی ہے اور ماضی میں کئی سابق لیفٹیننٹ جنرلز کی اپیلیں منظور بھی ہو چکی ہیں، جن میں وہ افسران بھی شامل تھے جن کے خلاف الزامات زیادہ سنگین نوعیت کے تھے۔‘‘
ملٹری کورٹ کے فیصلے کے مطابق فیض حمید کے خلاف چار الزامات ثابت ہوئے، جن میں سیاسی سرگرمیوں میں مداخلت، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی، اختیارات کا غلط استعمال اور بعض افراد کو نقصان پہنچانا شامل ہے۔
سینیئر تجزیہ کار امتیاز عالم اس فیصلے کو نہ صرف درست بلکہ ’’تاخیر سے ملنے والا انصاف‘‘ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق فیض حمید کا سیاسی کردار انتہائی متنازعہ تھا اور ’’انہیں اس سے بھی سخت سزا ملنی چاہیے تھی۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ وہ خوش ہیں کہ پہلی بار سیاست میں مداخلت پر کسی طاقتور جرنیل کو سزا ملی ہے، ’’اب سلسلہ آگے بڑھے گا اور حلف شکنی کرنے والوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جوابدہ بنایا جا سکے گا۔‘‘
کئی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر اس کیس کے شواہد کو بنیاد بنا کر عمران خان کو سزا سنائی گئی تو پھر احتساب کا دائرہ فیض حمید کے پورے دور کے سینئر فوجی افسران سے لے کر عدالتی شخصیات اور سیاست دانوں تک پھیل سکتا ہے۔ دفاعی تجزیہ کار فارووق حمید کے مطابق یہ فیصلہ فوج کے اندر سخت نظم و ضبط کا اظہار ہے۔ ’’فوج میں کسی افسر کو، خواہ اس کا رتبہ کچھ بھی ہو، ڈسپلن کی خلاف ورزی پر رعایت نہیں ملتی۔‘‘
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ فوج کرپشن کے ایک روپے تک کو معاف نہیں کرتی اور جنرل فیض حمید کا نام سٹی ہاؤسنگ اسکینڈل میں بھی آ چکا ہے۔
قائداعظم یونیورسٹی میں سوشل سائنسز کے ڈین ڈاکٹر ظفر نواز جسپال کے مطابق یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ریٹائرڈ جرنیل کو سیاسی مداخلت کے الزام میں سزا سنائی گئی ہے۔ ان کے بقول یہ قدم پاکستان میں جمہوری استحکام کے لیے مثبت اور دیرپا اثرات کا حامل ہوگا۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ فیصلہ کس سمت کی نشاندہی کرتا ہے؟ کیا یہ سول ملٹری توازن بہتر بنانے کی کوشش ہے یا فوجی ادارے کی اندرونی صفائی کا عمل؟ کیا سیاسی انجینئرنگ کا بیانیہ کمزور ہوگا یا مزید مضبوط؟ کیا احتساب کا عمل دیگر افسران تک بھی پہنچے گا؟ اور کیا اس کا اثر آئندہ انتخابات میں سیاسی صف بندیوں پر پڑے گا؟
ان سب سوالات کے جواب وقت ہی دے گا لیکن اتنا واضح ہے کہ پاکستان کی طاقت کی حرکیات ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں۔