1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
جرائمپاکستان

کورٹ مارشل کا سامنا کرنے والے آئی ایس آئی کے پہلے سابق چیف

13 اگست 2024

دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) فاروق حمید کے مطابق پاکستان آرمی کی تاریخ میں سینئر افسران کے خلاف کارروائی کی کئی مثالیں موجود ہیں لیکن فیض حمید پاکستان کے پہلے ڈی جی آئی ایس آئی ہیں جنہیں کورٹ مارشل کا سامنا ہے۔

جنرل ریٹائرڈ فیض حمید
تصویر: Hussain Ali/Pacific Press/picture alliance

نجی ہاؤسنگ اسکیم 'ٹاپ سٹی‘ کے معاملے میں مداخلت سمیت پاکستان آرمی ایکٹ کی دیگر خلاف ورزیوں پر فیض حمید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کی سپریم کورٹ نے ٹاپ سٹی کیس کے تحریری فیصلے میں کہا تھا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کے خلاف انتہائی سنگین نوعیت کے الزامات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اگر یہ الزامات درست ثابت ہو گئے تو ملکی اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچائیں گے۔

جنرل (ر) فیص حمید کو تحویل میں لے لیا ہے، پاکستانی فوج

جنرل فیض حمید کی طلبی، کیا ادارے کا تحفظ باقی نہیں رہا؟

پاکستان کے ایک سینیئر صحافی حامد میر نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ٹاپ سٹی کیس سات سال پرانا ہے اور اس دوران فیض حمید اہم عہدوں پر رہے اور یہ کہ اس کیس کے ثبوت متعلقہ حلقوں کے پاس موجود تھے۔

انہوں نے جنرل باجوہ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اس سارے عرصے میں جنہوں نے فیض حمید کو کارروائی سے بچایا، نیب کی کارروائی رکوائی، ان سے بھی باز پرس ہونی چاہیے: ''فیض حمید اپنے بھائی نجف حمید (جو پہلے پٹواری تھے) کے فرنٹ مین تھے، انہوں نے آرمی چیف بننے کے لیے ڈبل گیم کی۔ وہ عدالت مینیج کرتے رہے۔ ایک مذہبی جماعت کے لوگوں کے ساتھ ان کے کاروباری روابط بھی تھے۔ ان کی مالی بدعنوانیوں کی تحقیقات چکوال اور ڈی ایچ اے پشاور میں بھی ہونی چاہییں۔‘‘

فیض حمید اپنے بھائی نجف حمید (جو پہلے پٹواری تھے) کے فرنٹ مین تھے، انہوں نے آرمی چیف بننے کے لیے ڈبل گیم کی۔ وہ عدالت مینیج کرتے رہے، سینیئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میرتصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

صحافی مظہر عباس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ فیض حمید کا کیریئر متنازعہ رہا ہے اور ان کے سیاسی رول کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ان کے الفاظ میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کارروائی بہت بڑی خبر ہے اور اس سے ادارے کی ساکھ بہتر ہوگی۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے کارروائی کے مکمل ہونے کا انتظار کیا جانا چاہییے۔

صحافتی حلقوں کا خیال ہے کہ فیض حمید کے خلاف کئی معاملات میں کارروائی ہو سکتی ہے، لیکن حامد میر کہتے ہیں کہ اصل معاملہ فیض حمید کی طرف سے ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے واقعات ہیں: ''وہ سیاسی رابطے کرتے رہے۔ اپنی ذاتی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے پی ٹی آئیلیڈروں کو نا مناسب مشورے دیتے رہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اثر انداز ہونے کی بھی کوشش کی۔‘‘

سینیئر صحافی خالد فاروقی کے بقول انہیں لگتا ہے کہ فیض حمید کا تعلق ضرور نو مئی کے واقعات سے نکلے گا: ''کیونکہ نو مئی کے واقعات میں صرف سویلین ہی شامل نہیں تھے اور اگر یہ بات ثابت ہو گئی تو پھر اس سے یہ میسیج جائے گا کہ آرمی اپنے موقف پر قائم ہے اور نو مئی میں ملوث افراد خواہ وہ سویلین ہوں یا کوئی اور، نہیں بچ سکیں گے۔‘‘

حامد میر کہتے ہیں، ''فیض حمید نے اپنے اثر رسوخ کو استعمال کر کے نیب کی کارروائی بھی رکوا دی۔ فیض آباد دھرنا کیس سے بھی بری ہوگئے، لیکن پی ٹی آئی کے لوگوں نے کچھ ہفتے پہلے جب ان سے رانطہ منقطع کر لیا تو پھر انہوں نے براہ راست عمران خان کو پیغام پہنچانے کی کوشش کی تو اس بات کا پتہ مانیٹرنگ کرنے والوں کو چل گیا اور ان کے خلاف کارروائی شروع ہو گئی۔ اس کارروائی کو رکوانا ان کے بس کی بات نہ تھی۔‘‘

حامد میر نے بتایا کہ پاکستان کے موجودہ آرمی چیف فلسطین اور کشمیر پر واضح پالیسی رکھتے ہیں اور وہ ان امور پر سودے بازی کے لیے تیار نہیں ہیں، لیکن فیض حمید نے جنرل باجوہ کے کہنے پر بیرون ملک جو سازشیں کیں ان کی تفصیلات جب سامنے آئیں گی تو لوگ حیران رہ جائیں گے۔ 

حامد میر کے مطابق فیض حمید نے براہ راست عمران خان کو پیغام پہنچانے کی کوشش کی تو اس بات کا پتہ مانیٹرنگ کرنے والوں کو چل گیا اور ان کے خلاف کارروائی شروع ہو گئی۔تصویر: Newscom World/IMAGO

ایک قومی اخبار کے کالم نگار سلمان عابد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ فیض حمید کے خلاف کارروائی بہت اچھا اقدام ہے اس سے فوج کی عزت میں اضافہ ہوگا: ''فوج کے احتسابی عمل پر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ اس سے ان لوگوں کو جواب مل گیا ہے جو کہتے تھے کہ آرمی اپنی صفوں میں احتساب کیوں نہیں کرتی۔ اس احتساب کا سلسلہ دراز ہونا چاہیے اور اگر یہ صرف فیض حمید تک محدود رہا تو یہ مناسب نہیں ہوگا۔‘‘

دفاعی تجزیہ کار بریگیڈئر (ر) فاروق حمید کے مطابق فیض حمید کے خلاف ہونے والی کارروائی آرمی کی روایت کے عین مطابق ہے: ''آرمی میں احتساب کا ایک شفاف نظام موجود ہے وہ کسی چھوٹے یا بڑے افسر میں تمیز نہیں کرتا۔ ان کے بقول فیض حمید کو وکیل کی سہولت میسر ہوگی، انہیں اپنی صفائی کا پورا موقع ملے گا اور یہ ٹرائل آرمی کی روایت کے مطابق اوپن نہیں ہوگا۔ اگر یہ الزامات ثابت ہو گئے تو پر فیض حمید کو جیل بھی ہو سکتی ہے یا پھر انہیں رینکس  یا سرکاری مراعات کی واپسی جیسی سزا بھی ہو سکتی ہے۔‘‘

یاد رہے ٹاپ سٹی ہاؤسنگ اسکیم کے مالک معیز احمد خان کی جانب سے دائر درخواست میں الزام لگایا گیا تھا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے اپنے عہدے کا غلط استعمال کیا اور ان کے حکم پر ان کے اور ان کے خاندان کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔ ان کے مطابق دہشت گردی کے ایک مبینہ کیس کے سلسلے میں ٹاپ سٹی کے دفتر اور اس کے مالک معیز خان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مار کر سونے اور ہیروں کے زیورات اور رقم سمیت قیمتی سامان لوٹا گیا تھا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں