1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فیک نیوز: گوگل، فیس بک اور ٹوئٹر کے خلاف بھارت کا سخت ردعمل

جاوید اختر، نئی دہلی
3 فروری 2022

وزیر اعظم مودی کی حکومت نے دنیا کی بڑی سوشل میڈیا کمپنیوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان اداروں کی جانب سے فیک نیوز کے خلاف مؤثر اقدامات نہ کیے جانے سے بھارت کی بدنامی ہو رہی ہے۔

Symbolbild I BigTech I Social Media
تصویر: Ozan Kose/AFP/Getty Images

بھارت نے تاہم اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کے لیے ان کمپنیوں کو کوئی الٹی میٹم نہیں دیا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بھارت کی وزارت اطلاعات و نشریات کے اعلیٰ عہدیداروں کی سوشل میڈیا کی بڑ ی کمپنیوں گوگل، فیس بک اور ٹوئٹر کے اعلیٰ نمائندوں سے ورچوئل میٹنگ ہوئی ہے۔ بھارتی حکام نے ان کمپنیوں کے رویے پر سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فیک نیوز کے خلاف ان کی جانب سے ٹھوس کارروائی نہ کیے جانے سے بھارتی حکومت ایسا مواد ہٹائے جانے کا حکم دینے پر مجبور ہے۔ لیکن اس وجہ سے بین الاقوامی سطح پر بھارت پر اظہار رائے کی آزادی کو کچلنے جیسے الزامات عائد کیے جاتے ہیں، جن سے ملک بدنام ہو رہا ہے۔

ذرائع کے مطابق اس ورچوئل میٹنگ میں بھارتی حکام کا رویہ کافی سخت تھا۔ دونوں جانب سے گرما گرم بحث ہوئی اور بات چیت کے دوران ماحول کشیدہ رہا۔ اسے امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں اور ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی نریندر مودی حکومت کے مابین تعلقات میں مسلسل وسیع ہوتی ہوئی خلیج کا اشارہ بھی قرار دیا جا رہا ہے۔

ذرائع کے مطابق اس میٹنگ میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی لیکن بھارتی حکام نے ان امریکی کمپنیوں کو فیک نیوز کے خلاف ٹھوس اقدامات کے لیے وقت کے حوالے سے کوئی الٹی میٹم بھی نہیں دیا۔

وزیر اعظم مودی کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ذریعے فیک نیوز کے خلاف مؤثر قدم نہ اٹھانے سے بھارت کی بدنامی ہو رہی ہےتصویر: Reuters/Amit Dave/Files

'فیک نیوز میں پاکستان کا ہاتھ‘

مودی حکومت نے حالیہ کچھ عرصے میں سوشل میڈیا کے حوالے سے ٹیکنالوجی سیکٹر پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے کئی سخت ضابطے بھی بنائے ہیں تاہم حکومت چاہتی ہے کہ یہ کمپنیاں اپنے پلیٹ فارمز پر شائع ہونے والے مواد پر خود نگاہ رکھیں۔

بھارتی وزارت اطلاعات و نشریات نے اپنے ہنگامی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے دسمبر اور جنوری میں گوگل کے یوٹیوب پلیٹ فارم پر 55 چینلوں کو بلاک کرنے اور ٹوئٹر اور فیس بک پر کئی اکاؤنٹ بند کرنے کا حکم بھی دے دیا تھا۔

حکومت کا کہنا تھا کہ یہ چینلز 'فیک نیوز‘ یا 'بھارت مخالف‘ مواد کو فروغ دے رہے تھے اور ان کے ذریعے حریف ہمسایہ ملک پاکستان سے بھارت کے خلاف گمراہ کن اطلاعات پھیلائی جا رہی تھیں۔

ٹیکنالوجی کمپنیوں کا فی الحال کوئی ردعمل نہیں

گوگل، فیس بک، ٹوئٹر اور اسنیپ چیٹ نے بھارتی حکام کے ساتھ ہونے والی میٹنگ کے حوالے سے فی الحال کوئی بیا ن نہیں دیا۔ گوگل کی مالک کمپنی الفابیٹ نے اس میٹنگ پر کوئی تبصرہ کیے بغیر ایک بیان میں کہا کہ وہ حکومتی درخواستوں پر غور کرتی ہے اور جہاں مناسب ہوتا ہے، مقامی قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے متنازعہ مواد کو محدود یا حذف کر دیا جاتا ہے۔

انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کے مطابق حکومت آن لائن مواد کو سینسر کرنے سے متعلق اپنے احکامات کی کبھی وضاحت نہیں کرتی تصویر: Jakub Porzycki/NurPhoto/picture alliance

ٹوئٹر نے اپنی ٹرانسپیرنسی رپورٹ میں کہا تھا کہ اس کے پلیٹ فارم سے مواد کو ہٹانے کے لیے سب سے زیادہ درخواستیں دینے والے ممالک میں بھارت بھی شامل ہے۔ بھارت نے سن 2020 میں ایسا مواد ہٹانے کے لیے 97631 درخواستیں دیں، جو روس کے بعد دوسری سب سے بڑی تعداد تھی۔

ذرائع کے مطابق میٹنگ کے دوران ٹیکنالوجی کمپنیوں کے عہدیداروں نے بھارتی حکام کو بتایا کہ وہ اپنے پلیٹ فارمز پر غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات کرتے ہیں۔ دوسری طرف بھارتی حکام نے ان سے کہا کہ وہ جھوٹے مواد کو خود بخود ہٹانے کے حوالے سے اپنی اپنی داخلی گائیڈ لائنز پر نظر ثانی کریں۔

ذرائع کے مطابق مودی حکومت فیس بک اور ٹوئٹر سمیت کئی بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے اس لیے بھی ناراض ہے کہ وہ متنازعہ مواد کا خود پتہ لگانے اور اسے ہٹانے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتیں اور اسی لیے حکومت کو خود یہ کارروائی کرنا پڑتی ہے، جس کے سبب اسے تنقید کا نشانہ بننا پڑتا ہے اور اس کا امیج بھی خراب ہوتا ہے۔

ڈیجیٹل حقوق کے علمبرداروں کا کہنا ہے کہ حکومت کے ایسے اقدامات اظہار رائے کی آزادی پر روک لگانے کے مترادف ہیں اور ان سے غلط نظیر قائم ہوتی ہے۔

انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اپار گپتا کے مطابق حکومت آن لائن مواد کو سینسر کرنے سے متعلق اپنے احکامات کی کبھی وضاحت نہیں کرتی اور نہ ہی یہ بتاتی ہے کہ اس نے ایسے فیصلے کن بنیادوں پر کیے۔

اپار گپتا کہتے ہیں کہ اس عمل کے دوران سرکاری عہدیدار اپنی مرضی کے مطابق ایسا مواد بھی سینسر کر دیتے ہیں، جس سے نہ تو کسی سرکاری حکم کی خلاف ورزی ہوتی ہو اور نہ ہی جو ریاستی سلامتی کو متاثر کر رہا ہو۔

جاوید اختر (روئٹرز کے ساتھ)

سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال ڈپریشن کا سبب بنتا ہے؟

02:27

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں