قاتل کتنے سنگ دل ہو سکتے ہیں: جرمن جوڑے کو طویل سزائے قید
5 اکتوبر 2018
جرمنی میں ایک ایسے جوڑے کو طویل مدت کی قید کی سزائیں سنا دی گئی ہیں، جو اجنبی خواتین کو دھوکے سے اپنے گھر بلا کر پہلے ان پر ذہنی اور جسمانی تشدد کرتا تھا اور پھر ان عورتوں کو انتہائی بے دردی سے قتل کر دیا جاتا تھا۔
اشتہار
اس جرمن مرد اور اس کی سابقہ بیوی کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران ان کے ہولناک جرائم کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد ملکی میڈیا کی طرف سے ان کے گھر کو ’خوف و دہشت کی آماجگاہ‘ اور ’عقوبت خانہ‘ قرار دیا جانے لگا تھا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کی جمعہ پانچ اکتوبر کو ڈسلڈورف سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اس جرمن جوڑے کا تعلق ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے ایک چھوٹے سے شہر ہوئکسٹر (Höxter) سے ہے۔ دونوں ملزمان کے خلاف مقدمے کی سماعت دو سال تک جاری رہی، جس کے اختتام پر عدالت نے ملزم کو گیارہ سال اور ملزمہ کو تیرہ برس قید کی سزائیں سنائیں۔
ان دونوں کے خلاف یہ الزامات ثابت ہو گئے تھے کہ اس وقت 48 سالہ مرد ولفریڈ اور اس کی 49 سالہ سابقہ بیوی انگیلیکا برس ہا برس تک مختلف بہانوں سے ذاتی نوعیت کے اشتہارات دے کر اجنبی خواتین کو اپنے گھر بلاتے تھے اور پھر ان خواتین کو قید میں رکھا جاتا تھا۔
اس دوران ان دونوں کی طرف سے یرغمالی خواتین پر شدید نوعیت کا ذہنی اور جسمانی تشدد اور ان کا استحصال بھی کیا جاتا تھا۔ استغاثہ کے مطابق اس ’قاتل جوڑے‘ نے کم از کم دو خواتین کو قتل کیا اور کئی دیگر عورتوں کو طویل عرصے تک تشدد کا نشانہ بنایا۔
ایسی یرغمالی خواتین میں سے ایک خاتون شدید زخمی حالت میں ایک مقامی ہسپتال میں اس وقت انتقال کر گئی تھی، جب ملزمہ انگیلیکا نے اس کی جان بچانے کے لیے ایمبولینس بلا لی تھی۔ اس خاتون کے جسم پر تب شدید تشدد کے نشان اور زخم تھے، باندھ کر رکھے جانے کی وجہ سے اس کے جسم پر نیل پڑے ہوئے تھے اور اس کے پاؤں کے ناخن بھی انگلیوں سے اکھاڑ دیے گئے تھے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جو دوسری خاتون ان ملزمان کے ہاتھوں قتل ہوئی تھی، اس کا آج تک کوئی سراغ نہیں ملا۔ ملزم ولفریڈ کے مطابق اس نے اور اس کی سابقہ بیوی نے اس خاتون کو قتل کر دیا تھا۔ ملزمہ انگیلیکا کے اعترافی بیان کے مطابق اس کے سابق شوہر اور شریک ملزم ولفریڈ نے اس خاتون کی لاش کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے انہیں جلا دیا تھا اور راکھ سردیوں کے موسم میں اپنے قصبے کی برف سے ڈھکی سڑکوں پر جگہ جگہ بکھیر دی تھی۔
گزشتہ برس جرمنی میں کس نوعیت کے کتنے جرائم ہوئے؟
جرمنی میں جرائم سے متعلق تازہ اعداد و شمار کے مطابق سن 2017 میں ملک میں رونما ہونے والے جرائم کی شرح اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں قریب دس فیصد کم رہی۔
تصویر: Colourbox/Andrey Armyagov
2017ء میں مجموعی طور پر 5.76 ملین جرائم ریکارڈ کیے گئے جو کہ سن 2016 کے مقابلے میں 9.6 فیصد کم ہیں۔
تصویر: Imago/photothek/T. Imo
ان میں سے ایک تہائی جرائم چوری چکاری کی واردتوں کے تھے، یہ تعداد بھی سن 2016 کے مقابلے میں بارہ فیصد کم ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H.-C. Dittrich
دوکانوں میں چوریوں کے ساڑھے تین لاکھ واقعات ریکارڈ کیے گئے جب کہ جیب کاٹے جانے کے ایک لاکھ ستائیس ہزار واقعات رپورٹ ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
گزشتہ برس ملک میں تینتیس ہزار سے زائد کاریں اور تین لاکھ سائیکلیں چوری ہوئیں۔
تصویر: Colourbox/Andrey Armyagov
گزشتہ برس قتل کے 785 واقعات رجسٹر کیے گئے جو کہ سن 2016 کے مقابلے میں 3.2 فیصد زیادہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Tnn
منشیات سے متعلقہ جرائم میں نو فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا، ایسے تین لاکھ تیس ہزار جرائم رجسٹر کیے گئے۔
تصویر: Reuters
چائلڈ پورن گرافی کے واقعات میں 14.5 فیصد اضافہ ہوا، ایسے ساڑھے چھ ہزار مقدمات درج ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Nissen
سات لاکھ چھتیس ہزار جرائم میں غیر ملکی ملوث پائے گئے جو کہ سن 2016 کے مقابلے میں تئیس فیصد کم ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Vogel
8 تصاویر1 | 8
عدالتی ریکارڈ کے مطابق یہ ملزمان جن اشتہارات کے ذریعے اپنا شکار بننے والی خواتین کو دھوکے سے اپنا ہاں بلاتے تھے، وہ ضرورت رشتہ کے نجی اشتہار ہوتے تھے۔ ان میں کہا جاتا تھا، ’’اکیلے زندگی گزارنے والے کسان کو بیوی کی ضرورت ہے۔‘‘ ممکنہ شادی اور اس سے قبل رابطے اور ملاقات کے ان اشتہارات میں ملزم ولفریڈ خود کو ’تنہا، نفیس انسان، شفیق اور بہت مہذب‘ بتایا کرتا تھا۔
نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق عدالتی فیصلہ سنائے جانے سے قبل ملزمہ انگیلیکا نے اپنے جرائم پر شرمندگی کا اظہار کیا اور ان تمام خواتین سے معافی مانگی، جو اس کے جرائم کے نتیجے میں ہلاک یا زخمی ہوئی تھیں۔
عدالت نے یہ حکم بھی دیا کہ ملزم ولفریڈ کو دماغی علاج کے لیے ذہنی مریضوں کے ہسپتال میں داخل کرا دیا جائے۔ استغاثہ کے مطابق، جس نے دونوں ملزمان کے لیے عمر قید کا مطالبہ کیا تھا، ملزم ولفریڈ اپنے جرائم میں اس حد تک جنونی تھا کہ وہ اچھے برے اور صحیح غلط کے درمیان تفریق کا اہل ہی نہیں رہا تھا۔
م م / ع ح / روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے
ہالينڈ ميں مجرم کم پڑ گئے، جیلیں مہاجرين کا ٹھکانہ
يورپی ملک ہالينڈ ميں جرائم اس قدر کم ہو گئے ہيں کہ متعدد قيد خانے اکثر خالی پڑے رہتے ہيں۔ اب حکومت نے معمولی رد و بدل کے ساتھ جيلوں کو مہاجر کيمپوں ميں تبديل کر ديا ہے جہاں کئی پناہ گزين گھرانے زندگی بسر کر رہے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
جيل ميں گزر بسر مگر قيدی نہيں
مہاجرين کے بحران کے عروج پر 2015ء ميں 59 ہزار پناہ گزينوں نے ہالينڈ کا رخ کيا تھا۔ پچھلے سال سياسی پناہ کے ليے ہالينڈ پہنچنے والوں کی تعداد البتہ قريب ساڑھے اکتيس ہزار رہی۔ اس تصوير ميں ايمسٹرڈيم کے نواحی علاقے Bijlmerbajes ميں قائم ايک سابقہ قيد خانہ ديکھا جا سکتا ہے، جسے اب ايک مہاجر کيمپ ميں تبديل کر ديا گيا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
عبادت گاہ بھی يہی، گھر بھی يہی
اريتريا سے تعلق رکھنے والی انتيس سالہ تارک وطن ميزا نگاڈٹو ايمسٹرڈيم کے نواح ميں واقع Bijlmerbajes کی ايک جيل ميں اپنے کمرے ميں عبادت کرتے ہوئے ديکھی جا سکتی ہيں۔ قيديوں کی کمی کے نتيجے ميں ڈچ حکام نے ملک کے کئی قيد خانوں کو مہاجرين کے ليے عارضی رہائش گاہوں ميں تبديل کر ديا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
ايک ہی چھت تلے نئے رشتے بنتے ہوئے
رواں سال تين جولائی کو لی گئی اس تصوير ميں افريقی رياست برونڈی سے تعلق رکھنے والا سينتيس سالہ ايمابلے نسبمانا اپنے ہم عمر ساتھی اور کانگو کے شہری پارسپر بسيکا کو سائيکل چلانا سکھا رہا ہے۔ يہ دونوں بھی ايمسٹرڈيم کے مضافاتی علاقے ميں قائم ايک سابقہ جيل ميں رہائش پذير ہيں اور بظاہر وہاں موجود سہوليات سے کافی مطمئن نظر آتے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
گھر کی ياد تو پھر بھی آتی ہی ہے
افريقی ملک ايتھوپيا سے تعلق رکھنے والی چاليس سالہ پناہ گزين ماکو ہوسیٰ مہاجر کيمپ کی ايک کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے۔ معروف ڈچ شہر ايمسٹرڈيم کے نواح ميں واقع اس سابقہ جيل کو ايشيا، مشرق وسطیٰ اور شمالی افريقہ سے آنے والے تارکين وطن کے ليے کيمپ ميں تبدیل کر ديا گيا ہے۔ در اصل وہاں موجود سہوليات اور عمارت کا ڈھانچہ مطلوبہ مقصد کے ليے کارآمد ثابت ہوا۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
ننے مہاجر بھی موجود
اس سال تيس جون کو لی گئی اس تصوير ميں پانچ سالہ ساندی يزجی اپنے ہاتھ ميں ايک موبائل ٹيلی فون ليے ہوئے ہے۔ شام ميں الحسکہ سے تعلق رکھنے والی يہ بچی شايد کسی سے رابطے کی کوشش ميں ہے۔ يزجی بھی ديگر مہاجرين کی طرح Bijlmerbajes کے مقام پر واقع اس سابقہ جيل ميں رہائش پذير ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
بچوں کے ليے تفريح کا انتظام
انتظاميہ نے صرف بالغوں کی ہی نہيں بلکہ بچوں کی ضروريات پوری کرنے کے ليے بھی انتظامات کر رکھے ہيں۔ اس تصوير ميں شام سے تعلق رکھنے والے دو بھائی عزالين مصطفیٰ اور عبدالرحمان بائيں طرف کھڑے ہوئے احمد اور عامر کے خلاف ٹیبل فٹ بال کھيل رہے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
’وہ جنہيں ہم پيچھے چھوڑ آئے‘
اريتريا کی تيئس سالہ سانٹ گوئيٹوم اپنے اہل خانہ اور ساتھيوں کی تصاوير دکھا رہی ہیں۔ وہ يہ تصويريں اپنے ساتھ لے کر آئی ہیں۔ کيمپ ميں زندگی اکثر خالی اور بے مقصد لگتی ہے اور ايسے ميں اپنے بہت ياد آتے ہيں۔