’قاتل کا حق‘: وہ چاہے تو اس کا نام بھلا دیا جائے، جرمن عدالت
27 نومبر 2019
جرمنی کی وفاقی آئینی عدالت نے ایک سزا یافتہ قاتل کی ذات سے متعلق ایک منفرد مقدمے میں اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ عدالت نے فیصلہ سنایا کہ اگر کوئی قاتل یہ خواہش کرے کہ اسے بھلا دیا جائے، تو یہ بھی اس کا جائز قانونی حق ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
اشتہار
وفاقی آئینی عدالت میں یہ مقدمہ ایک ایسے سزا یافتہ مجرم کی طرف سے دائر کیا گیا تھا، جسے 1982ء میں کیے جانے والے دوہرے قتل کے جرم میں طویل مدت کی قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس مجرم کا مطالبہ تھا کہ اس کا نام انٹرنیٹ سے ہٹا دیا جائے۔ اس مقدمے کی سماعت پہلے ایک دوسری عدالت نے کی تھی، جس نے اپنا فیصلہ مجرم کے خلاف سنایا تھا۔
پھر یہی مقدمہ اعلیٰ ترین عدالتی سطح پر جرمنی کی وفاقی آئینی عدالت میں پہنچ گیا اور اس عدالت نے اپنے فیصلے میں اب سزا یافتہ قاتل کے اس حق کی توثیق کر دی ہے کہ اس کا نام انٹرنیٹ سے ہٹا دیا جائے۔ اس مجرم کا پورا نام جرمنی کے ایک آن لائن نیوز میگزین کی آرکائیوز میں شامل تھا۔
عدالت کی طرف سے بدھ ستائیس نومبر کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ ججوں کی رائے میں انٹرنیٹ سرچ انجنوں کو یہ اجازت ہے کہ وہ صارفین کو ایسی نیوز رپورٹوں تک رسائی کا موقع دیں جو فی زمانہ یا کچھ عرصہ قبل رونما ہونے والے جرائم کے بارے میں ہوں۔ 'اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بات عوامی مفاد میں بھی ہے اور یوں ایسے جرائم کے مرتکب افراد کی شناخت بھی ممکن ہو سکتی ہے۔‘‘ تاہم عدالت نے یہ بھی کہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسی نیوز رپورٹوں سے جڑا ہوا مفاد عامہ بھی مسلسل کم ہوتا جاتا ہے۔
جمال خاشقجی: پراسرار انداز میں گمشدگی اور ہلاکت
سعودی حکومت نے جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے بیانات کئی مرتبہ تبدیل کیے۔ وہ دو اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں گئے اور لاپتہ ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Martin
کیا ہوا میں تحلیل ہو گئے؟
دو اکتوبر: سعودی عرب کے اہم صحافی جمال خاشقجی استنبول میں اپنے ملکی قونصل خانے گئے اور پھر واپس نہیں آئے۔ وہ اپنی شادی کے سلسلے میں چند ضروری کاغذات لینے قونصلیٹ گئے تھے۔ اُن کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیز قونصل خانے کے باہر اُن کا انتظار کرتی رہیں اور وہ لوٹ کے نہیں آئے۔
تصویر: Reuters TV
قونصل خانے میں موجودگی کے بارے میں معلومات نہیں
تین اکتوبر: ترک اور سعودی حکام نے جمال خاشقجی کے حوالے سے متضاد بیانات دیے۔ سعودی دارالحکومت ریاض سے کہا گیا کہ صحافی خاشقجی اپنے کام کی تکمیل کے بعد قونصل خانے سے رخصت ہو گئے تھے۔ ترک صدر کے ترجمان نے اصرار کیا کہ وہ قونصل خانے کی عمارت کے اندر ہی موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Mayo
قتل کے دعوے
چھ اکتوبر: ترک حکام نے کہا کہ اس کا قوی امکان ہے کہ جمال خاشقجی کو قونصل خانے میں ہلاک کر دیا گیا۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ ترک تفتیش کار ایک پندرہ رکنی سعودی ٹیم کی ترکی آمد کا کھوج لگانے میں مصروف ہے۔ یہی ٹیم قونصل خانے میں قتل کرنے کے لیے بھیجی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
ترک حکومت کو ثبوت درکار ہیں
آٹھ اکتوبر: ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا کہ وہ جمال خاشقجی کے قونصل خانے سے رخصت ہونے کے ثبوت مہیا کرے۔ اسی دوران ترکی نے سعودی قونصل خانے کی تلاشی لینے کا بھی ارادہ ظاہر کیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی مقتول صحافی کی حمایت میں بیان دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Kovacs
’صحرا میں ڈاووس‘
بارہ اکتوبر: برطانیہ کے ارب پتی رچرڈ برینسن نے خاشقجی کی ہلاکت کے بعد اپنے ورجن گروپ کے خلائی مشن میں سعودی عرب کی ایک بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کو روک دیا۔ اسی طرح انہوں نے سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شریک ہونے سے بھی انکار کر دیا۔ سعودی عرب نے اس کانفرنس کو ’صحرا میں ڈاووس‘ کا نام دیا تھا۔ رچرڈ برینسن کے بعد کئی دوسرے سرمایہ کاروں نے بھی شرکت سے معذرت کر لی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
سرچ آپریشن
پندرہ اکتوبر: ترک تفتیش کاروں نے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں خاشقجی کو تلاش کرنے کا ایک آپریشن بھی کیا۔ یہ تلاش آٹھ گھنٹے سے بھی زائد جاری رکھی گئی۔ عمارت میں سے فورینزک ماہرین نے مختلف نمونے جمع کیے۔ ان میں قونصل خانے کے باغ کی مٹی اور دھاتی دروازے کے اوپر سے اٹھائے گئے نشانات بھی شامل تھے۔
تصویر: Reuters/M. Sezer
دست بدست لڑائی کے بعد ہلاکت
انیس اکتوبر: انجام کار سعودی عرب نے تسلیم کر لیا کہ کہ قونصل خانے میں خاشقجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ سعودی مستغیث اعلیٰ کے مطابق ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوا کہ قونصل خانے میں دست بدست لڑائی کے دوران خاشقجی مارے گئے۔ اس تناظر میں سعودی عرب میں اٹھارہ افراد کو گرفتار کرنے کا بھی بتایا گیا۔ سعودی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ اس افسوس ناک اور دردناک واقعے کی تفتیش جاری ہے۔
تصویر: Getty Images/C. McGrath
’انتہائی سنگین غلطی‘
اکیس اکتوبر: جمال خاشقجی کی ہلاکت کے حوالے سے سعودی موقف میں ایک اور تبدیلی رونما ہوئی۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے قونصل خانے میں صحافی کی ہلاکت کو ’شیطانی آپریشن‘ کا شاخسانہ قرار دیا۔ انہوں نے اس سارے عمل کو ایک بڑی غلطی سے بھی تعبیر کیا۔ الجبیر نے مزید کہا کہ سعودی ولی عہد اس قتل سے پوری طرح بے خبر تھے۔ انہوں نے خاشقجی کی لاش کے حوالے سے بھی لاعلمی ظاہر کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Owen
جرمنی نے ہتھیاروں کی فراہمی روک دی
اکیس اکتوبر: جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے جمال خاشقجی کی ہلاکت کے تناظر میں سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فراہمی معطل کر دی۔ سعودی عرب کو ہتھیار اور اسلحے کی فروخت میں جرمنی کو چوتھی پوزیشن حاصل ہے۔ بقیہ ممالک میں امریکا، برطانیہ اور فرانس ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Sauer
گلا گھونٹا گیا اور پھر تیزاب میں تحلیل کر دیا
اکتیس اکتوبر: ترک پراسیکیوٹر نے اپنی تفتیش مکمل کرنے کے بعد بتایا کہ سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے کچھ ہی دیر بعد جمال خاشقجی کو پہلے گلا گھونٹ کر ہلاک کیا گیا اور پھر اُن کے جسم کو تیزاب میں تحلیل کر دیا گیا۔ ترک صدر نے اس حوالے سے یہ بھی کہا کہ خاشقجی کو ہلاک کرنے کا حکم سعودی حکومت کے انتہائی اعلیٰ حکام کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. E. Yildirim
اقوام متحدہ میں سعودی عرب پر تنقید
اقوام متحدہ میں جمال خاشقجی کے قتل کی گونج سنی گئی اور کئی رکن ریاستوں نے تشویش کا اظہار کیا۔ عالمی ادارے کو سعودی حکومت نے بتایا کہ خاشقجی کے قتل کی تفتیش جاری ہے اور ملوث افراد کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔ سعودی حکومت کا یہ موقف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں امریکا سمیت کئی ممالک کی جانب سے شفاف تفتیش کے مطالبے کے بعد سامنے آیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Coffrini
Fiancee in mourning
خاشقجی کی منگیتر کا غم
آٹھ نومبر: مقتول صحافی جمال خاشقجی کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیر نے ٹویٹ میں کہا کہ وہ اس غم کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ خاشقجی کی لاش کو تیزاب میں ڈال کر ختم کر دیا گیا۔ خدیجہ چنگیر نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ قاتل اور اس قتل کے پس پردہ لوگ کیا واقعی انسان ہیں؟
تصویر: Reuters/Haberturk
12 تصاویر1 | 12
یہ مقدمہ جس قتل سے متعلق تھا، وہ 1982ء میں جرمنی میں بہت زیادہ شہرت پا جانے والا مجرمانہ واقعہ ثابت ہوا تھا۔ جرم کا مرتکب جرمن شہری، جس کی عمر اس وقت 40 اور 45 سال کے درمیان تھی، اپالونیا نامی ایک بحری جہاز کے عملے کا رکن تھا۔ بحیرہ کیریبیین میں سفر کے دوران اس بحری جہاز پر ہونے والی ایک لڑائی میں مجرم نے فائرنگ کر کے دو افراد کو قتل اور ایک تیسرے کو شدید زخمی کر دیا تھا۔
بعد میں اس کا جرم ثابت ہو جانے پر اسے طویل مدت کی سزائے قید ہو گئی تھی، اور یہ سز اکاٹنے کے بعد مجرم کو 2002ء میں جیل سے رہا بھی کر دیا گیا تھا۔ یہ دوہرا قتل اتنا مشہور ہو گیا تھا کہ جرمنی میں اس پر ایک کتاب بھی لکھی گئی اور جرمن پبلک براڈکاسٹر اے آر ڈی نے اس بارے میں 2004ء میں ایک دستاویزی فلم بھی نشر کی تھی۔
اسی جرم کے بارے میں جرمن خبر رساں جریدے ڈئر اشپیگل نے 1982ء اور 1983ء میں اپنے 'ہارڈ ایڈیشنز‘ میں شائع کردہ تین تفصیلی رپورٹیں اپنی اس آن لائن آرکائیوز کا حصہ بنا دیں، جن تک کوئی بھی انٹرنیٹ صارف کسی بھی وقت بلاقیمت رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ ان رپورٹوں میں اس قاتل کا پورا نام لکھا گیا تھا۔
جرمنی کےعادی قاتل
دنیا میں بھیانک اور سلسلہ وار جرائم کی وارداتوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ ایسے مجرم بچوں اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کا ارتکاب کرتے ہیں اور بعض انسانی گوشت کھاتے ہے۔ گزشتہ صدی کے دوران جرمنی کے عادی قاتلوں پر ایک نظر۔
تصویر: picture alliance/dpa/C. Jaspersen
میونسٹر برگ کا آدم خور
کارلے ڈینکے نے کم از کم بیالیس افراد کا قتل کیا اور پھر اُن میں سے کئی کا گوشت بھی کھاتا رہا۔ زیادہ تر مقتولین کا تعلق دیہات سے تھا۔ یہ سن 1903 سے 1924 کے دوران سرگرم تھا۔ ایسا بھی خیال کیا گیا کہ اُس نے بعض مقتولین کا گوشت موجودہ پولینڈ کے شہر وراٹس وہاف میں سور کا گوشت قرار دے کر فروخت بھی کیا۔ ڈینکے نے جیل میں خود کو پھندا دے کر خودکشی کر لی تھی۔
تصویر: 171413picture-alliance/arkivi
ہینوور کا خوف
جرمن شہر ہینوور میں فرٹز ہارمان نے کم از کم چوبیس لڑکوں اور لڑکیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد ہلاک کیا اور پھر اُن کی نعشوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ یہ سن 1918 سے 1924 تک فعال رہا۔ اس کی وارداتوں سے ہینوور میں خوف و ہراس پیدا رہا۔ اس کا سر سن 1925 میں قلم کر دیا گیا تھا۔
کارل گراس مان نے جن افراد کو قتل کیا، اُن کے گوشت بھی وہ بلیک مارکیٹ میں اپنے ہاٹ ڈاگ اسٹینڈ پر فروخت کرتا رہا۔ اُس نے کتنے قتل کیے اُن کی تعداد کا علم نہیں لیکن اُس پر ایک سو سے زائد لاپتہ ہونے والے افراد کی ذمہ داری عائد کی گئی تھی۔ اُس کے مکان کے قریب سے تیئیس خواتین کی ٹکڑوں میں تقسیم نعشیں ملی تھیں۔ اس نے سن 1922 میں موت کی سزا سے قبل خود کو پھندا لگا لیا تھا۔
تصویر: Gemeinfrei
جھیل فالکن ہاگن میں پھیلی دہشت
جرمن علاقے براڈن برگ کی جھیل فالکن بیرگ کے قرب جوار میں سن 1918 سے 1920 تک ایک تالے بنانے والے شخص، فریڈرش شُومان کی لرزہ خیز وارداتوں سے شدید خوف پیدا ہوا۔ اس شخص کی گرفتاری ایک جنگل کے گارڈ کے ساتھ لڑائی اور پھر اُس کے قتل کے بعد ہوئی۔ شومان نے کُل پچیس افراد کو قتل کرنے کا اعتراف کیا۔ اُسے اٹھائیس برس کی عمر میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
برلن ٹرام کا قاتل
پال اوگورٹسو پر جنسی زیادتی کے اکتیس واقعات کے ارتکاب کی فرد جرم عائد کی گئی۔ یہ نازی دور میں برلن میں چلنے والی ٹرام سروس میں ملازمت کرتا تھا۔ اُس نے آٹھ خواتین اور چھ دوسرے افراد کو سن 1940 اور 1941 میں قتل کیا۔ وہ چلتی ٹرام میں یہ وارداتیں کرتا تھا اور بعض اوقات وہ اپنے شکار کو چلتی ٹرین سے باہر پھینک دیتا تھا۔ اُس کو گرفتاری کے بعد موت کی سزا دی گئی۔
تصویر: Gemeinfrei
موت کا ہر کارہ
روڈولف پلائل سرحدی محافظ تھا۔ مشرقی جرمنی کے پہاڑی علاقے ہارٹس میں سن 1946 ہونے والی دو سالہ تعیناتی کے دوران سابقہ مشرقی حصے سے مغربی جرمنی کی جانب خواتین روانہ کرنے کے ناجائز کاروبار میں ملوث رہا۔ اس سرحدی محافظ نے پچیس افراد کو ہلاک کرنے کا اعتراف کیا۔ عدالت نے سن 1950 میں اُسے عمر قید کی سزا سنائی۔ پلائل نے آٹھ برس بعد جیل میں خودکشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ڈوئیس بُرگ کا انسانی گوشت کھانے والا
ژوآخم گیرو کرول ایک عادی قاتل، بچوں اور لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کے علاوہ انسانی گوشت کا بھی رسیا تھا۔ سن 1955 سے لے کر سن 1976 کے دوران 14 افراد کو قتل کیا۔ ان میں زیادہ تر خواتین تھیں۔ جب وہ سن 1976 میں گرفتار ہوا تو اُس کا ریفریجریٹر انسانی گوشت سے بھرا تھا۔ گرفتاری کے وقت وہ ایک چار سالہ بچی کے ہاتھ اور پاؤں پکا رہا تھا۔ کرول کو عمر قید کی سزا ہوئی لیکن سن 1991 میں ہارٹ اٹیک سے مرا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Sieländer
دُھوئیں نے قاتل بے نقاب کر دیا
فرٹز ہونکا نے سن 1970 سے 1975 کے درمیان چار خواتین طوائفوں کو گلہ گھونٹ کر پہلے ہلاک کیا اور پھر اُن کی نعشوں کے ٹکڑے کر کے اپارٹمنٹ میں رکھ دیے۔ ایک دن اپارٹمنٹ والی بلڈنگ میں آگ لگ گئی اور پھر فائر فائٹرز کو وہ انسانی ٹکڑے دستیاب ہوئے۔ ہونکا اُس وقت کسی کام سے باہر گیا ہوا تھا۔ عدالت نے اُسے نفسیاتی مریض قرار دے کر پندرہ برس کی سزائے قید سنائی۔ وہ 1993 میں رہا ہوا اور پانچ برس بعد مرا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سینٹ پاؤلی کا قاتل
ہیمبرگ کے بازار حسن والے علاقے سینٹ پاؤلی میں ویرنر پِنسر ایک کرائے کے قاتل کے طور پر مشہور تھا۔ اُس نے سات سے دس ایسے افراد کا قتل کیا جو جسم فروش خواتین کی دلالی کرتے تھے۔ اُس نے تفتیش کے دوران اچانک پستول نکال کر پہلے تفتیش کار کو ہلاک کیا پھر اپنی بیوی کے بعد خود کو بھی گولی مار لی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
زہر سے موت دینے والی
جرمن شہر کولون کی نرس ماریانے نؤل اپنے مریضوں کو زہر کا ٹیکا لگا کر موت دیتی تھی۔ اُس نے سن 1984 سے لے کر سن 1992 کے دوران سترہ افراد کو زہر دے کر ہلاک کیا اور دیگر اٹھارہ کو مارنے کی کوشش کی لیکن وہ بچ گئے۔ اُس نے کبھی اعتراف جرم نہیں کیا۔ وہ اس وقت عمر قید کی سزا کاٹ رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/DB
شاہراؤں کا قاتل
فولکر ایکرٹ ٹرک چلایا کرتا تھا۔ اُس نے سن 2001 کے بعد پانچ برسوں میں نو خواتین کو قتل کیا۔ اُس نے پہلا قتل پندرہ برس کی عمر میں اپنی کلاس فیلو کا گلا گھونٹ کر کیا۔ ایکرٹ کے ہاتھوں قتل ہونے والی زیادہ تر خواتین طوائفیں تھیں۔ اُس نے دورانِ مقدمہ سن 2007 میں پھندا لگا کر خود کشی کر لی تھی۔
تصویر: Imago
موت کا فرشتہ
اسٹیفان لیٹر مرد نرسنگ اسٹاف سے منسلک تھا۔ اُس نے ہسپتال میں نوکری کرتے ہوئے باویریا میں انتیس افراد کو زہریلے انجکشن لگائے۔ یہ وارداتیں اُس نے سن 2003-04 میں کی تھیں۔ دوا کی چوری پر گرفتار ہوا اور پھر اُس نے اپنے جرائم کا اعتراف بھی کیا۔ اُس کا کہنا ہے کہ اُس نے لاعلاج مریضوں کو موت کے ٹیکے لگا کر راحت پہنچائی ہے۔ وہ اس وقت عمر قید بھگت رہا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP/U. Lein
قاتل مرد نرس
نیلز ہؤگل کا مقدمہ اس وقت جرمن عدالت میں زیرسماعت ہے۔ اُس نے ایک سو مریضوں کو خطرناک ٹیکے لگانے کا اعتراف کیا ہے۔ اس کو سن 2015 میں دو افراد کی ہلاکت کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔ وسیع تر تفتیش کے دوران اُس کو ایک سو سے زائد مریضوں کی ہلاکت کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ اُس کا مقدمہ اولڈن بیرگ کی عدالت میں سنا گیا اور ابھی سزا کا تعین ہونا باقی ہے۔ امکاناً اُسے عمر قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/C. Jaspersen
13 تصاویر1 | 13
یہ وہ پیش رفت تھی، جس کی وجہ سے پیدا ہونے والا اختلاف رائے قانونی جنگ بن گیا۔ قاتل کو 2009ء میں علم ہوا کہ اس کا نام ڈئر اشپیگل کی آرکائیوز میں موجود ہے تو اس نے وہاں سے اپنا نام ہٹوانے کے لیے ڈئر اشپیگل پر مقدمہ کر دیا۔
ایک وفاقی جرمن عدالت نے شروع میں یہ مقدمہ خارج کر دیا تھا اور فیصلہ یہ سنایا تھا کہ یہ بات مفاد عامہ کا حصہ ہے کہ عوام کو پتہ چلے کہ بحری جہاز اپالونیا پر دوہرے قتل کی تفصیلات کیا تھیں اور یہ کہ قاتل کا نام اس جرم سے ناقابل تنسیخ انداز میں جڑا ہوا تھا۔
اب لیکن وفاقی آئینی عدالت نے اس قاتل کی طرف سے پیش کردہ یہ قانونی دلیل مان لی ہے کہ ڈئر اشپیگل کی نیوز آرکائیوز میں اس کے نام کا ہونا اس کے 'پرائیویسی رائٹس‘ کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے اپنے بیان میں کہا، ''اس شخص کا نام انٹرنیٹ سے اس لیے بھی ہٹایا جانا چاہیے کہ اسے اپنی شخصیت کی مثبت انداز میں نشو ونما کا موقع مل سکے۔‘‘ عدالت کے مطابق اگر مجرم یہ چاہے کہ اسے بھلا دیا جائے، تو اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد اب یہ بھی اس کا ايسا حق ہے، جس کا احترام کیا جانا چاہیے۔
بین نائٹ (م م / ع س)
گروہ کے سرغنے سے جیل تک، لاطینی امریکا کے خطرناک’ڈان‘
’چھوٹا‘، ’سنہرے بال والا‘ یا ’چوپیتا‘: انہیں اس طرح کی عرفیت سے پکارا جاتا ہے لیکن اصل میں یہ منشیات فروش گروہوں کے سفاک سرغنہ افراد ہیں۔ ان میں سے کئی آج کل جیلوں میں۔ آئیے آپ کو ملواتے ہیں لہو کے پیاسے ان ڈانز سے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Guzman
یوآکن ’ ایل چاپو‘ گزمان
میکسیکو کے سینالوآ نامی گروہ کا سربراہ گزمان عرف ایل چاپو متعدد مرتبہ شہہ سرخیوں میں رہ چکا ہے۔ وہ دو مرتبہ تو جیل سے فرار ہونے میں بھی کامیاب ہو گیا تھا۔ ایف بی آئی اور انٹرپول کی مطلوب ترین افراد کی فہرست میں اسامہ بن لادن کے بعد دوسرا نام اس کا تھا۔ اسے منی لانڈرنگ، اغواء، منشیات فروشی اور قتل کی وارداتوں میں ملوث ہونے کے الزام میں 2017ء میں امریکا کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa/J. Mendez
ہیکٹور پالما سالازار ’ایل گوئیرو‘
سالازار’ایل چاپو‘ کا اہم ترین ساتھی ہوا کرتا تھا۔ 2007ء میں اسے کوکین کی اسمگلنگ کے جرم میں امریکا کے سپرد کر دیا گیا۔ ’ایل گوئیر‘ یعنی سنہرے بال والے‘ کی اس کے اچھے رویے کی وجہ سے سزا کم دی گئی تھی۔ سولہ کے بجائے نو سال جیل میں گزرانے کے بعد اسے 2016ء میں کولوراڈو کی جیل سے رہا کرتے ہوئے میکسیکو بدر کر دیا گیا تھا۔ وہ وہاں پر قتل کے جرم میں سخت حفاظتی انتظامات والی التیپلانو کی جیل میں قید ہے۔
تصویر: thewhistleblowers.info
گلبیرتو اور میگیل رودریگیز اوریخوئیلا
میگیل اور گلبیرتو رودریگیز 1995ء تک کولمبیا کے کالی نامی گروہ کے سرغنے تھے۔ ان کے تعاون کی وجہ سے پولیس پابلو ایسکوبار کو بھی گرفتار کر پائی تھی۔ ان دونوں بھائیوں کو امریکی حکام کے حوالے کر دیا گیا تھا اور 2006ء میں انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ میگیل جنوبی کیرولینا جبکہ گلبیرتو شمالی کیرولینا کی جیل میں قید ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/SIJIN
دیئیگومونتویا سانچیز’ڈون ڈیئیگو‘
امریکی وفاقی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کی مطلوب ترین افراد کی فہرست میں سانچیز عرف ڈون ڈیئیگو دسویں نمبر پر تھا۔ ڈون ڈیئیگو 1990ء کی دہائی میں کولمبیا کا نورتے دیل ویا نامی کینگ چلایا کرتا تھا۔2007ء میں اسے کولمبین فوج نے گرفتار کر کے اگلے ہی برس امریکا کے حوالے کر دیا تھا۔ 2009ء میں اس نے منیشات فروشی، قتل اور رقم کی جبراً وصولی جیسے جرائم قبول کر لیے تھے۔ اسے 45 سال کی سزا سنائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خوآن کارلوس رامیریز آبادیا عرف چوپیتا
ایسکوباراس کی ہلاکت اور رودریگیز بھائیوں کی گرفتاری کے بعد’چوپیتا‘ کا نام سنائی دیا جانے لگا۔ یہ کوکین امریکا اسمگل کرتا تھا۔ 2007ء میں اسے برازیل میں حراست میں لے کر امریکی حکام کو سپرد کر دیا گیا تھا۔ چوپیتا کو 55 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس نے اپنے چہرے کے خدو خال تبدیل کرنے کے لیے کئی آپریشنز کروائے تھے۔
تصویر: picture-alliance/ dpa
Édgar Valdez Villarreal, “La Barbie”
ایڈگر والدیز ولیاریئل ’ لا باربی‘ یہ سمجھنا تو مشکل ہے لیکن کہتے ہیں کہ اسے اس کی خوبصورتی کی وجہ سے یہ عرفیت ملی ہے۔ ولیاریئل کا ایل چاپو سے قریبی تعلق تھا۔ اسے میکسیکو کی تاریخ میں سب سے سفاک و ظالم منشیات فروش سرغنہ کہا جاتا ہے۔ 2010ء میں اسے میکسیکو میں گرفتار کیا گیا اور 2015ء میں اسی کی امریکا حوالگی ہوئی۔ یہ انچاس سال کی سزا بھگت رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Guzman
’پیسیفک کی ملکہ‘
ساندرا آویلا بیلتران عرف پیسیفک کی ملکہ کا تعلق میکسیکو سے ہے۔ اسے میکسیکو کے سینالوآ اور کولمبیا کے نورتے دیل ویا نامی کینگز کے مابین ایک اہم رابطہ سمجھا جاتا تھا۔ عدالت میں اس کے خلاف کچھ ثابت نہیں ہو سکا تھا۔ تاہم غیر قانونی ہتھیار رکھنے کے جرم میں اسے 2013ء میں میامی کی ایک عدالت نے تقریباً چھ سال کی سزا سنائی تھی۔ آج کل وہ ایک آزاد شہری کے طور پر زندگی گزار رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
الفریڈو بیلتران لیوا’ایل موچومو‘
یہ کبھی ایل چاپو گزمان کا بہت ہی قریبی ساتھی ہوا کرتا تھا اور بعد ازاں ایل موچومو کی اس کا شدید ترین دشمن بن گیا تھا۔ میکسیکو کے سینالوآ گروہ کے خلاف اس نے خونریز ترین جنگ لڑی تھی۔ 2008ء میں لیوا عرف ایل موچومو کو میکسیکو میں ہی حراست میں لیا گیا اور 2014ء میں وہ امریکی قید میں تھا۔ منشیات فروشی کے الزام میں وہ امریکی شہرکولمبیا کی ایک جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. Torres
داماسو لوپیز ’ایل لیسینسیادو‘
ایل لیسنسیادو میکسیکو کی پوئنتے گراندے نامی جیل کا نائب ڈائریکٹر ہوا کرتا تھا۔ ایل لیسنسیادو نے 2001ء میں ایل چاپو کو اسی جیل سے فرار ہونے میں مدد کی تھی۔ اس کے بعد سے یہ تعلیم یافتہ شخص گزمان عرف ایل چاپو کے قریب ترین قابل بھروسہ افراد کی فہرست میں شامل ہو گیا تھا۔ 2017ء میں اسے میکسیکو میں گرفتار کر کے اسی برس امریکا بھیج دیا گیا تھا۔ کوکین اسمگل کرنے کے جرم میں وہ عمر قید کی سزا بھگت رہا ہے۔
تصویر: Reuters/C. Jasson
ویسینتے زمبلادا نیئبلا ’ایل ویسینتیلو‘
آج کل سینالوآ گینگ اسمعیل زمبلادا چلاتا ہے اور ویسینتے اس کا بیٹا ہے۔ یہ 2009ء میں پکڑا گیا تھا اور تین سال بعد اسے امریکی حکام کے حوالے کر دیا گیا۔ ایل ویسینتیلو ایل چاپو کے خلاف مقدمے میں امریکی حکام کی مدد کر رہا ہے اور اسی وجہ سے پندرہ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ بعد ازاں اسے چار سال بعد ہی رہا کر دیا گیا۔