1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’قاتل کا حق‘: وہ چاہے تو اس کا نام بھلا دیا جائے، جرمن عدالت

27 نومبر 2019

جرمنی کی وفاقی آئینی عدالت نے ایک سزا یافتہ قاتل کی ذات سے متعلق ایک منفرد مقدمے میں اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ عدالت نے فیصلہ سنایا کہ اگر کوئی قاتل یہ خواہش کرے کہ اسے بھلا دیا جائے، تو یہ بھی اس کا جائز قانونی حق ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck

وفاقی آئینی عدالت میں یہ مقدمہ ایک ایسے سزا یافتہ مجرم کی طرف سے دائر کیا گیا تھا، جسے 1982ء میں کیے جانے والے دوہرے قتل کے جرم میں طویل مدت کی قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس مجرم کا مطالبہ تھا کہ اس کا نام انٹرنیٹ سے ہٹا دیا جائے۔ اس مقدمے کی سماعت پہلے ایک دوسری عدالت نے کی تھی، جس نے اپنا فیصلہ مجرم کے خلاف سنایا تھا۔

پھر یہی مقدمہ اعلیٰ ترین عدالتی سطح پر جرمنی کی وفاقی آئینی عدالت میں پہنچ گیا اور اس عدالت نے اپنے فیصلے میں اب سزا یافتہ قاتل کے اس حق کی توثیق کر دی ہے کہ اس کا نام انٹرنیٹ سے ہٹا دیا جائے۔ اس مجرم کا پورا نام جرمنی کے ایک آن لائن نیوز میگزین کی آرکائیوز میں شامل تھا۔

عدالت کی طرف سے بدھ ستائیس نومبر کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ ججوں کی رائے میں انٹرنیٹ سرچ انجنوں کو یہ اجازت ہے کہ وہ صارفین کو ایسی نیوز رپورٹوں تک رسائی کا موقع دیں جو فی زمانہ یا کچھ عرصہ قبل رونما ہونے والے جرائم کے بارے میں ہوں۔ 'اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بات عوامی مفاد میں بھی ہے اور یوں ایسے جرائم کے مرتکب افراد کی شناخت بھی ممکن ہو سکتی ہے۔‘‘ تاہم عدالت نے یہ بھی کہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسی نیوز رپورٹوں سے جڑا ہوا مفاد عامہ بھی مسلسل کم ہوتا جاتا ہے۔

یہ مقدمہ جس قتل سے متعلق تھا، وہ 1982ء میں جرمنی میں بہت زیادہ شہرت پا جانے والا مجرمانہ واقعہ ثابت ہوا تھا۔ جرم کا مرتکب جرمن شہری، جس کی عمر اس وقت 40 اور 45 سال کے درمیان تھی، اپالونیا نامی ایک بحری جہاز کے عملے کا رکن تھا۔ بحیرہ کیریبیین میں سفر کے دوران اس بحری جہاز پر ہونے والی ایک لڑائی میں مجرم نے فائرنگ کر کے دو افراد کو قتل اور ایک تیسرے کو شدید زخمی کر دیا تھا۔

بعد میں اس کا جرم ثابت ہو جانے پر اسے طویل مدت کی سزائے قید ہو گئی تھی، اور یہ سز اکاٹنے کے بعد مجرم کو 2002ء میں جیل سے رہا بھی کر دیا گیا تھا۔ یہ دوہرا قتل اتنا مشہور ہو گیا تھا کہ جرمنی میں اس پر ایک کتاب بھی لکھی گئی اور جرمن پبلک براڈکاسٹر اے آر ڈی نے اس بارے میں 2004ء میں ایک دستاویزی فلم بھی نشر کی تھی۔

اسی جرم کے بارے میں جرمن خبر رساں جریدے ڈئر اشپیگل نے 1982ء اور 1983ء میں اپنے 'ہارڈ ایڈیشنز‘ میں شائع کردہ تین تفصیلی رپورٹیں اپنی اس آن لائن آرکائیوز کا حصہ بنا دیں، جن تک کوئی بھی انٹرنیٹ صارف کسی بھی وقت بلاقیمت رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ ان رپورٹوں میں اس قاتل کا پورا نام لکھا گیا تھا۔

یہ وہ پیش رفت تھی، جس کی وجہ سے پیدا ہونے والا اختلاف رائے قانونی جنگ بن گیا۔ قاتل کو 2009ء میں علم ہوا کہ اس کا نام ڈئر اشپیگل کی آرکائیوز میں موجود ہے تو اس نے وہاں سے اپنا نام ہٹوانے کے لیے ڈئر اشپیگل پر مقدمہ کر دیا۔

ایک وفاقی جرمن عدالت نے شروع میں یہ مقدمہ خارج کر دیا تھا اور فیصلہ یہ سنایا تھا کہ یہ بات مفاد عامہ کا حصہ ہے کہ عوام کو پتہ چلے کہ بحری جہاز اپالونیا پر دوہرے قتل کی تفصیلات کیا تھیں اور یہ کہ قاتل کا نام اس جرم سے ناقابل تنسیخ انداز میں جڑا ہوا تھا۔

اب لیکن وفاقی آئینی عدالت نے اس قاتل کی طرف سے پیش کردہ یہ قانونی دلیل مان لی ہے کہ ڈئر اشپیگل کی نیوز آرکائیوز میں اس کے نام کا ہونا اس کے 'پرائیویسی رائٹس‘ کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے اپنے بیان میں کہا، ''اس شخص کا نام انٹرنیٹ سے اس لیے بھی ہٹایا جانا چاہیے کہ اسے اپنی شخصیت کی مثبت انداز میں نشو ونما کا موقع مل سکے۔‘‘ عدالت کے مطابق اگر مجرم یہ چاہے کہ اسے بھلا دیا جائے، تو اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد اب یہ بھی اس کا ايسا حق ہے، جس کا احترام کیا جانا چاہیے۔

بین نائٹ (م م / ع س)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں