1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’قانونی طور پر افیون کا شت کرنے کی اجازت دی جائے‘

عدنان اسحاق18 مارچ 2016

میکسیو کا شمار منشیات فروشی کے حوالے سے خطرناک ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ اب اس ملک کی پرتشدد ترین ریاست کے گورنر نے افیون کاشت پر قابو پانے کے لیے ایک منصوبہ تجویز کیا ہے۔

تصویر: dapd

میکسیکو بھر میں انسداد منشیات فروشی کے لیے مہم جاری ہے اور اس صورتحال میں ریاست گوریرو کے گورنر ہیکٹر آستودیلو نےایک تجویز پیش کی ہے، جس کے مطابق افیون کے کاشتکاروں کو طبی مقاصد کے لیے اسے کاشت کرنے کی اجازت دی جائے۔ گوریرو کا شمار میکسکیو کی خطرناک ترین اور غریب ترین ریاستوں میں ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے یہاں پہاڑوں میں رہنے والے چھوٹے چھوٹے قبائل افیون کاشت کرتے ہیں، جسے بعد میں منشیات فروش گروہ خرید لیتے ہیں۔ میکسیکو کی سب سے زیادہ افیون گوریرو میں ہی کاشت کی جاتی ہے۔ اسی طرح امریکا میں استعمال ہونے والی ہیروئن کا نصف حصہ یہیں سے اسمگل کیا جاتا ہے۔

گورنر ہیکٹر آستودیلو صدر اینریکے پینا نیتو کی سیاسی جماعت کے بھی رکن ہیں۔ میکسیکو کے اس علاقے کے خشک پہاڑوں میں کسان مکئی بھی کاشت کرتے ہیں لیکن اس کی فصل سے ہونے والی آمدنی سے اکثر ان کے اخراجات پورے نہیں ہو پاتے۔ اسی وجہ سے وہ اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے افیون کی کاشت کا سہارا لیتے ہیں۔

تصویر: AP

آستودیلو کی تجویز کے حامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر زیادہ سے زیادہ کاشتکاروں کو طبی مقاصد کے لیے افیون اگانے کی اجازت دی جائے تو اس طرح بڑے بڑے منشیات فروش گروہوں کی طاقت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب اس تجویز کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی کاشت کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے قواعد و ضوابط پر عمل کرنا بہت ہی مشکل ہے کیونکہ یہ دور دراز پہاڑی علاقے زیادہ تر جرائم پیشہ گروہوں کے زیر اثر ہیں۔ ساتھ ہی طبی مقاصد کے لیے دنیا بھر میں مناسب تعداد میں افیون دستیاب ہے۔

اسی تناظر میں اقوام متحدہ کے منشیات اور جرائم کے روک تھام کے دفتر میں میکسیکو کے نمائندے انتونیو مازیتیلی کے مطابق،’’ اس کی بجائے میکسیکو کی حکومت کو ان علاقوں میں بنیادی سہولیات مہیا کرنے اور انہیں بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر سڑکیں اچھی ہوں گی اور حکومت کی جانب سے رعایات دی جائیں گی تو کسانوں کے لیے افیون کی کاشت کو ترک کرنا قدرے آسان بھی ہو گا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں