’میرا دن میرے حقوق‘: بچوں کا عالمی دن
20 نومبر 2025
اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے اطفال یونیسیف کی ویب سائیٹ پر آج کے دن کا موٹو ہے ''میرا دن، میرے حقوق‘‘۔ اس کے ساتھ ہی اس ویب سائٹ پر تمام دنیا کے انسانوں کے لیے یہ پیغام بھی درج ہے:
''ہر بچے کی آواز سنیں، ہر بچے کے حق کے لیے کھڑے ہوں! یومِ اطفال صرف ایک دن نہیں، یہ ایک عہد ہے، بچوں کے لیے اور بچوں کی جانب سے۔ یہ دن یاد دلاتا ہے کہ دنیا کے ہر کونے میں ہربچہ حقوق کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ تحفظ کا حق، تعلیم کا حق اور اپنی آواز بلند کرنے کا حق لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیسے ہی سورج طلوع ہوتا ہے، لاکھوں بچے ایک ایسی دنیا میں جاگتے ہیں، جو اُن کے فیصلوں سے نہیں بنی۔ اُن کے خواب، اُن کی امیدیں اور اُن کے حقوق اکثر نظرانداز ہو جاتے ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سنیں۔ سنیں کہ بچے کیا چاہتے ہیں، اُن کی زندگی کیسی ہے اور اُن کے حقوق کہاں غائب ہیں؟ آئیے! ہم سب مل کر اُن کے لیے آواز کو بلند کریں۔ آئیے! ہر بچے کے حق کے لیے کھڑے ہوں۔ کیونکہ جب ہم بچوں کے حقوق کی حفاظت کرتے ہیں، ہم انسانیت کے مستقبل کو محفوظ کرتے ہیں۔ ہمارے ساتھ شامل ہوں۔ آج، کل اور ہر دن بچوں کے لیے!‘‘
پاکستان میں بچوں کے حقوق کی صورتحال
پاکستان کے بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم معروف کارکن اور خیبرپختونخوا کی چائلڈ رائٹس موومنٹ (سی آر ایم) کے بانی عمران ٹکر کے مطابق پاکستان بین الاقوامی معاہدہ برائے حقوق اطفال کا حصہ ہے، اسی تناظر میں پچھلے 15 سے 20 سالوں کے دوران صوبائی اور وفاقی سطح پر پالیسی لیول پر کافی پیشرفت ہوئی۔ ان کے مطابق بہت سارے قوانین صوبائی اور وفاقی سطح پر منظور ہوئے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کے اس سوال کے جواب میں کہ پالیسی لیول پر جو ڈویلپمنٹ ہوئی ان کا پاکستان کے بچوں کی صورتحال پر کچھ خاص اثر نہیں پڑا، ایسا کیوں ہے؟ عمران ٹکر کا کہنا تھا،''ملک میں غربت ہے، معاشی و سیاسی حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں، آبادی میں اضافہ، بیروزگاری کا بحران، تعلیم و شعور کا فقدان، سیاسی عزم اور ترجیح کی کمی اور ہر سال آنے والی قدرتی آفات، یہ سب پاکستان میں بچوں کو جائز حقوق میسر نہ ہونے کی وجوہات ہیں۔‘‘
لاکھوں بچے تعلیم سے محروم
یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں دو کروڑ 28 لاکھ بچے، جن کی عمریں پانچ تا 16 سال کے درمیان ہیں، اسکول سے باہر ہیں۔
عمران ٹکر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''لاکھوں بچے چائلڈ لیبر کر رہے ہیں۔ 20 سے 24 فیصد بچوں کی شادیاں کم عمری میں ہو رہی ہیں۔ 10 سے 12 بچے روزانہ جنسی زیادتی کا شکار ہو رہے ہیں۔‘‘
ان مسائل سے کیسے نمٹا جائے؟ عمران ٹکر کا جواب تھا،''ان میں حالات ایک مربوط اور مستحکم چائلڈ پروٹیکشن سسٹم کا نفاذ ضروری ہے، جبکہ قوانین، جو بنائے گئے ہیں، ان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وسائل درکار ہیں۔ نیز اداروں کو مربوط بنانے اور معاشرے میں شعور اور آگاہی پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔‘‘
بچوں کے حقوقِ کے لیے سرگرم ایک معروف وکیل سید مقداد مہدی ایڈووکیٹ لاہور ہائی کورٹ نے بتایا،''پاکستان میں بچوں کے حقوق قانون اور حقیقت کے درمیان ایک تکلیف دہ خلا کو ظاہر کرتے ہیں۔ بے شمار بچے آج بھی بنیادی تحفظ اور دیکھ بھال سے محروم ہیں۔ بچوں کے حقوق کا تحفظ کوئی خیرات نہیں بلکہ یہ ایک آئینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے، جسے مزید نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ پاکستان میں بچوں کے حقوق کے فروغ اور تحفظ کی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے، اس لیے حکومت اور دیگر تمام شراکت داروں کو مل کر ملک کے اندر بچوں کے حقوق کے فروغ اور تحفظ کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔‘‘
ادارت: امتیاز احمد