1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’میرا دن میرے حقوق‘: بچوں کا عالمی دن

20 نومبر 2025

آج بیس نومبر کو بچوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ دنیا کے درجنوں ممالک میں بچے اپنی زندگیوں، اُمیدوں اور حقوق کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ پاکستان میں بچوں کے حقوق کی صورت حال کیا ہے اور انہیں کن مسائل کا سامنا ہے؟

بے گھر بچہ کوئٹہ میں سڑک کنارے کچرے کے ڈھیروں میں ایسی چیزیں تلاش کر رہا ہے جنہیں بیچ کر وہ اپنے خاندان کی کفالت کے لیے روزی کما سکے۔
پاکستان بین الاقوامی معاہدہ برائے حقوق اطفال کا حصہ ہے۔تصویر: PPI/ZUMA Wire/picture alliance

 اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے اطفال یونیسیف کی ویب سائیٹ پر آج کے دن کا موٹو ہے ''میرا دن، میرے حقوق‘‘۔ اس کے ساتھ ہی اس ویب سائٹ پر تمام دنیا کے انسانوں کے لیے یہ پیغام بھی درج ہے:

 ''ہر بچے کی آواز سنیں، ہر بچے کے حق کے لیے کھڑے ہوں! یومِ اطفال صرف ایک دن نہیں، یہ ایک عہد ہے، بچوں کے لیے اور بچوں کی جانب سے۔ یہ دن یاد دلاتا ہے کہ دنیا کے ہر کونے میں ہربچہ حقوق کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ تحفظ کا حق، تعلیم کا حق اور اپنی آواز بلند کرنے کا حق لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیسے ہی سورج طلوع ہوتا ہے، لاکھوں بچے ایک ایسی دنیا میں جاگتے ہیں، جو اُن کے فیصلوں سے نہیں بنی۔ اُن کے خواب، اُن کی امیدیں اور اُن کے حقوق اکثر نظرانداز ہو جاتے ہیں۔

پاکستان میں لڑ کوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ

05:20

This browser does not support the video element.

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سنیں۔ سنیں کہ بچے کیا چاہتے ہیں، اُن کی زندگی کیسی ہے اور اُن کے حقوق کہاں غائب ہیں؟ آئیے! ہم سب مل کر اُن کے لیے آواز کو بلند کریں۔ آئیے! ہر بچے کے حق کے لیے کھڑے ہوں۔ کیونکہ جب ہم بچوں کے حقوق کی حفاظت کرتے ہیں، ہم انسانیت کے مستقبل کو محفوظ کرتے ہیں۔ ہمارے ساتھ شامل ہوں۔ آج، کل اور ہر دن بچوں کے لیے!‘‘

مظفر گڑھ میں آنے والے سیلاب کے بعد غذائی قلط کے شکار بچے ۔تصویر: Doaba Foundation

پاکستان میں بچوں کے حقوق کی صورتحال

پاکستان کے بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم معروف  کارکن اور خیبرپختونخوا کی چائلڈ رائٹس موومنٹ (سی آر ایم) کے بانی عمران ٹکر کے مطابق پاکستان بین الاقوامی معاہدہ برائے حقوق اطفال کا حصہ ہے، اسی تناظر میں پچھلے 15 سے 20 سالوں کے دوران صوبائی اور وفاقی سطح پر پالیسی لیول پر کافی پیشرفت ہوئی۔ ان کے مطابق بہت سارے قوانین صوبائی اور وفاقی سطح پر منظور ہوئے ہیں۔

بے سہارا بچوں کی کفالت کرتی باہمت نوجوان خاتون

04:15

This browser does not support the video element.

 ڈی ڈبلیو کے اس سوال کے جواب میں کہ پالیسی لیول پر جو ڈویلپمنٹ ہوئی ان کا پاکستان کے بچوں کی صورتحال پر کچھ خاص اثر نہیں پڑا، ایسا کیوں ہے؟ عمران ٹکر کا کہنا تھا،''ملک میں غربت ہے، معاشی و سیاسی حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں، آبادی میں اضافہ، بیروزگاری کا بحران، تعلیم و شعور کا فقدان، سیاسی عزم اور ترجیح کی کمی اور ہر سال آنے والی قدرتی آفات، یہ سب پاکستان میں بچوں کو جائز حقوق میسر نہ ہونے کی  وجوہات ہیں۔‘‘

ملک میں غربت ہے، معاشی و سیاسی حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔تصویر: Jan Ali Laghari/Pacific Press/picture alliance

لاکھوں بچے تعلیم سے محروم

یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان  میں دو کروڑ 28 لاکھ بچے، جن کی عمریں پانچ تا 16 سال کے درمیان ہیں، اسکول سے باہر ہیں۔

بلوچستان: بچوں کی زندگیوں پر غذائی قلت کا خوفناک اثر

04:03

This browser does not support the video element.

عمران ٹکر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''لاکھوں بچے چائلڈ لیبر کر رہے ہیں۔ 20 سے 24 فیصد بچوں کی شادیاں کم عمری میں ہو رہی ہیں۔ 10 سے 12 بچے روزانہ جنسی زیادتی کا شکار ہو رہے ہیں۔‘‘

ان مسائل سے کیسے نمٹا جائے؟ عمران ٹکر کا جواب تھا،''ان میں حالات ایک مربوط اور مستحکم چائلڈ پروٹیکشن سسٹم کا نفاذ ضروری ہے، جبکہ قوانین، جو بنائے گئے ہیں، ان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وسائل درکار ہیں۔ نیز اداروں کو مربوط بنانے اور معاشرے میں شعور اور آگاہی پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔‘‘

پاکستان میں بیروزگاری کا بحران، تعلیم و شعور کا فقدان اور آبادی میں اضافہ بچوں کی صورتحال پر گہرے منفی اثرات کا سبب ہے۔تصویر: Mohammad Sajjad/AP Photo/picture alliance

 بچوں کے حقوقِ کے لیے سرگرم ایک معروف وکیل سید مقداد مہدی ایڈووکیٹ لاہور ہائی کورٹ نے بتایا،''پاکستان میں بچوں کے حقوق قانون اور حقیقت کے درمیان ایک تکلیف دہ خلا کو ظاہر کرتے ہیں۔ بے شمار بچے آج بھی بنیادی تحفظ اور دیکھ بھال سے محروم ہیں۔ بچوں کے حقوق کا تحفظ کوئی خیرات نہیں بلکہ یہ ایک آئینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے، جسے مزید نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ پاکستان میں بچوں کے حقوق کے فروغ اور تحفظ کی صورت حال تسلی  بخش نہیں ہے، اس لیے حکومت اور دیگر تمام شراکت داروں کو مل کر ملک کے اندر بچوں کے حقوق کے فروغ اور تحفظ کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔‘‘

ادارت: امتیاز احمد

 

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں