1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قبائلی علاقوں میں خواتین امیدوار: بادام زری، گلان بی بی اور نصرت بیگم

12 اپریل 2013

گیارہ مئی کو ہونے والے پاکستانی عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ملک کے دیگر علاقوں کی طرح فاٹا اور قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی میدان میں آ چکی ہیں۔

تصویر: DW

باجوڑ، ٹانک اور دیر جیسے علاقوں سے بھی خواتین نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں اور ایسا ان علاقوں کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں مردوں کی اجارہ داری ہو، وہاں خواتین کا انتخابات میں حصہ لینا کافی حیران کن بات ہے۔

قومی اسمبلی کے حلقے NA-44 سے امیدوار بادام زری کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئےکہنا تھا کہ اگر وہ منتخب ہوئیں تو علاقے میں خواتین کے لیے تعلیمی اداروں کا قیام ان کی پہلی ترجیح ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں عام شہری حالت جنگ سے گزر رہے ہیں اور ساتھ ہی وہاں تعلیم کی بھی کمی ہے۔ بادام زری خود تو زیور تعلیم سے محروم ہیں لیکن وہ قبائلی علاقوں کی خواتین کی تعلیمی مشکلات سے اچھی طرح آگاہ ہیں، ’’تعلیم تو میری نہیں ہے اور اسی وجہ سے میں میدان میں آئی ہوں تاکہ آنے والے وقت میں ہمارے بھائی اور بہنیں تعلیم یافتہ ہو سکیں۔ اسی وجہ سے میں نے یہ قدم اٹھایا ہے‘‘۔

بادام زری کا مزید کہنا ہے کہ وہ نیک اور اچھے ارادے لے کر سیاست میں آئی ہیں اور انہیں اپنے اہل خانہ کے ساتھ ساتھ بہت سے دوسرے لوگوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ ان کے حلقے سے اور بھی امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس بارے میں بادام زری کا کہنا ہے،’’ہمارا اپنا کسی کے ساتھ کوئی ذاتی مقابلہ نہیں ہے۔ ہم صرف اپنی کوششیں اس علاقے کی ترقی اور اپنے لوگوں کے لیے کر رہے ہیں۔ ہمارا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ بس اب یہ لوگوں پر ہے کہ وہ کس کو ووٹ دیتے ہیں اور کس کی مدد کرتے ہیں‘‘۔

بادام زری کا مزید کہنا ہے کہ وہ نیک اور اچھے ارادے لے کر سیاست میں آئی ہیں اور انہیں اپنے اہل خانہ کے ساتھ ساتھ بہت سے دوسرے لوگوں کی حمایت بھی حاصل ہےتصویر: ADEK BERRY/AFP/Getty Images

بادام زری کی طرح گلان بی بی بھی تعلیم نہ ہونے کے باوجود ٹانک کے صوبائی پارلیمانی حلقے PK-69 سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہے اور اس حلقے سے کل30 امیدوار ان کے مد مقابل ہوں گے۔ گلان بی بی کا کہنا ہے کہ انہوں نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ خواتین کی حالت زار کو دیکھ کر کیا۔ ٹانک سمیت فاٹا میں خواتین میں شرح خواندگی نہ ہونے کے برابر ہے اور وہ ان کے حقوق کی لیے ہر فورم پر آواز اٹھائیں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں خواتین کو مکمل آزادی حاصل نہیں لیکن پھر بھی لوگوں کا خواتین کے ساتھ رویہ اچھا ہے اور ان کی عزت کی جاتی ہے۔گلان بی بی کہتی ہیں، ’’علاقے کی بیواؤں نے مجھے کہا کہ ہم آخر تک تمہارا ساتھ دیں گی اور تم الیکشن لڑو۔ یہ غریب لوگوں کی پارٹی ہے اگر پاس ہوگئی تو ٹھیک اور فیل ہونے پر بھی کوئی افسوس نہیں ہوگا‘‘۔

گلان بی بی مزید کہتی ہیں کہ انہوں نے علاقے کی دوسری خواتین کو بھی میدان میں آنے کی دعوت دی ہے،’’میں تمام بہنوں، ماوٴں اور خواتین سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ بھی میدان میں نکلیں، ہم نے تو زندگی گزار لی ہے لیکن ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کی زندگیاں بہتر بنانی ہیں‘‘۔

گلان بی بی کا کہنا ہے کہ ماضی کے منتخب نمائندوں نے ان کے علاقے کے لیے کوئی ترقیاتی کام نہیں کیے لیکن وہ کامیاب ہونے کے بعد اپنے حلقے کے لوگوں کے حقوق کے لیے آواز ضرور بلند کریں گی۔

قومی اسمبلی کی نشست NA-34 سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات لڑنے والی نصرت بیگم لوئر دیر سے پہلی اور واحد خاتون امیدوار ہے۔ نصرت بیگم لوئر دیر میں پاکستان تحریک انصاف کی ضلعی نائب صدر تھیں لیکن جب انہیں پارٹی ٹکٹ نہ ملی تو انہوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ انتخابات جیت کر علاقے کی بھلائی کے لیے کام کرنا چاہتی ہیں اور ان کی کوشش ہوگی کہ وہ خواتین ، بچوں اور اقلیتوں کے حقوق کے لیے کام کریں۔

نصرت بیگم کا کہنا ہے کہ ان کو پتہ ہے کہ ان کے علاقےکے لوگ کن حالات سے گزر رہے ہیں اور جنگ کے دوران ان پر کیا گزری ہے۔ وہ ہر موقع پر لوگوں کی بہتری کے لیےکام کریں گی۔

رپورٹ: دانش بابر، پشاور

ادارت: امتیاز احمد

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں