1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'مسئلہ قبرص دو علحیدہ ریاستوں سے حل ہو سکتا ہے' ایردوان

16 نومبر 2020

ترکی کے صدر طیب ایردوان کا کہنا ہے کہ متنازعہ جزیرہ قبرص پر بات چیت میں دو علحیدہ ریاستوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جس سے یہ قضیہ حل ہو سکتا ہے۔ شمالی قبرص کے دورے پر ایک تقریب کے دوران انہوں نے یہ تجویز پیش کی ہے۔

Zypern I Staatsbesuch von Präsident Recep Tayyip Erdoğan
تصویر: Turkish Presidency/AFP

ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے اتوار 15 نومبر کو شمالی قبرص کا دورہ کیا اور وہاں اس منقسم جزیرے کے تنازعے کے حل کے لیے دو علیحدہ ریاست بنانے کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے شمالی قبرص میں ترکی بولنے والے اور جنوب میں یونانی زبان بولنے والے قبرص کے علاقوں کو دو علیحدہ ریاستوں میں تقسیم کرنے کی متنازعہ تجویز پیش کی ہے۔

وہ شمالی قبرص کے متنازعہ ساحل سمندر وروشا پر ہونے والی ایک تقریب میں شرکت کے لیے گئے تھے، جو شمالی اور جنوبی قبرص کے درمیان اقوام متحدہ کا بفر زون ہے۔ جزیرہ قبرص دو حصوں میں منقسم ہے، جنوب میں اس کا دو تہائی حصہ ہے، جہاں کے لوگ یونانی زبان بولتے ہیں جبکہ اس سے الگ ہونے والے شمالی حصے کے لوگ ترکی بولتے ہیں جو ایک طرح سے سن 1974 سے ہی ترکی کے زیر اثر ہے۔

طیب ایردوان نے کہا، ''آج کے قبرص میں دو مختلف طرح کے لوگ رہتے ہیں، دو الگ الگ جمہوری نظام ہیں اور دو علیحدہ ریاستیں ہیں۔ اس کے لیے مساوی خود مختاری کی بنیاد پر دو ریاستی حل پر نہ صرف بات چیت  بلکہ مذاکرات لازمی ہیں۔''

 تین عشرے سے بھی زیادہ پہلے شمالی قبرص نے جنوبی قبرص سے اپنی آزادی کا اعلان کیا تھا اور اسی مناسبت سے 15 نومبر کے روز ہونے والی قبرص کے 37 ویں یوم آزادی کے اعلان کی ایک تقریب سے خطاب کے دوران ترک صدر نے یہ باتیں کہیں۔

تصویر: Celal Gunes/AA/picture alliance

یورپی یونین کا ترکی پر پابندی لگانے پر غور

دنیا میں ترکی واحد ملک ہے جو شمالی قبرص، 'ترکش ریپبلک آف ناردرن سائپرس' کو ایک علیحدہ ریاست تسلیم کرتا ہے۔ گزشتہ ہفتے ترک صدر نے کہا تھا کہ متنازعہ خطے میں ان کے دورے سے ترکی اور شمالی قبرص کے درمیان یکجہتی میں مزید اضافہ ہوگا۔ لیکن جنوبی قبرص کی حکومت نے اردوان کے اس دورے کو ''غیر مثال اشتعال انگیزی'' قرار دیا تھا۔   

 جنوبی قبرص کے صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں ترک صدر کے دورے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ''انقرہ بین الاقوامی قوانین، یورپی قدروں، اور یورپی یونین کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کا احترام نہیں کرتا ہے۔''

ترکی اور اس کے پڑوسی ممالک یونان اور قبرص کے ساتھ مشرقی بحیرہ روم میں توانائی کے ذخائر کے حوالے سے بھی شدید اختلافات ہیں اور حالیہ مہینوں میں اس حوالے سے بھی ان ممالک کے ترکی کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوئے ہیں۔ یورپی یونین کا کہنا ہے کہ متنازعہ بحیرہ ررم میں تیل کے ذخائر کی کھدائی کے حوالے سے وہ ترکی پر پابندیاں لگانے پر غور کر رہا ہے۔ 

دلکش ریزارٹ سے بھوتوں کے شہر تک

شمالی قبرص میں گزشتہ ماہ اکتوبر کی 18 تاریخ کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں ترکی کے ساتھ بہتر رشتوں کے حامی رہنما ایرسن تاتار کو کامیابی ملی تھی جبکہ جنوبی قبرص کے ساتھ اتحاد کے حامی صدر مصطفی اکنچی ہار گئے تھے۔ ان کی شکست سے جزیرہ قبرص کو متحدہ کرنے کی جو تجاویز ہیں انہیں زبردست دھچکا لگا ہے اور اب اتحاد کی کوششیں بعید لگتی ہیں۔

عمارتوں کا رنگین نخلستان

03:43

This browser does not support the video element.

اس جزیرے کے اتحاد کے لیے 2017 میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں جو بات چیت ہوئی تھی وہ بھی بری طرح سے ناکام ثابت ہوئی تھی۔ سنہ 1974 میں اس علاقے میں جنوبی قبرص کی فوجی حکومت نے بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے اس علاقے کو اپنے میں ضم کرنے کی یکطرفہ کارروائی کی تھی، جسے اقوام متحدہ نے غیر قانونی بتایا تھا، اور ترکی نے اسی کے جواب میں اس علاقے پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا تھا تب سے یہ نیم خود مختار علاقہ ہے۔

ترکی کے حملے کے کئی برس بعد 15 نومبر سن 1983 میں شمالی قبرص نے اپنے آپ کو ایک نئی اور آزاد ریاست کا اعلان کر دیا تاہم ترکی کے علاوہ کسی اور ملک نے اسے اب تک تسلیم نہیں کیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ وروشا کی خوبصورت ترین بیچ اہل ثروت کی عیش و عشرت کا مقام تھا۔ لیکن جزیرے کے نسلی بنیادوں پر تقسیم ہونے کے بعد آج تناور درختوں اور بلند عمارتوں والے ساحل سمندر کا یہ علاقہ بھوتوں کا شہر دکھائی دیتا ہے۔

سن 1974میں جب ترکی نے قبرص پر حملہ کیا تھا اسی وقت سے وروشا کا ساحلی شہر ویران پڑا تھا یہ جزیرہ اسی وقت نسلی بنیادوں پر تقسیم ہوگیا تھا۔ گزشہ ماہ کے اوائل میں انتخابات سے تھوڑا پہلے ساحلی علاقے وروشا کو برسوں بعد کھولا گیا تھا جس پر مقامی اور بین الاقوامی سطح پر تشویش

 کا اظہار کیا گیا تھا۔

ص ز / ج ا (ڈی پی اے، اے پی، روئٹرز، اے ایف پی) 

یورپی یونین کے رکن ممالک کا ’گولڈن پاسپورٹ‘

01:57

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں