ایک اسرائیلی فوجی کو تھپڑ مارنے پر فلسطینی لڑکی احد تمیمی کو آٹھ ماہ کی سزائے قید سنائی جائے گی۔ ان کے وکیل نے بتایا ہے کہ استغاثہ کے ساتھ ایک ڈیل کے تحت ان کی سزا میں کمی کی گئی ہے۔
اشتہار
سترہ سالہ احد تمیمی نے مغربی اردن کے مقبوضہ علاقے میں ایک اسرائیلی فوجی کو تھپڑ مارا تھا۔ یہ واقع گزشتہ برس پندرہ دسمبر کو چھوٹے سے گاؤں النبی صالح میں رونما ہوا تھا۔ تب احد کی والدہ نے اس واقعے کو فیس بک پر لائیو اسٹریم کر دیا تھا، جس کے بعد یہ ویڈیو وائرل ہو گئی تھی۔ اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک چھوٹی سی لڑکی اسرائیلی فوجی کو تھپٹر مار رہی ہے۔
اسرائیلی فوجیوں پر حملہ کرنے والی لڑکی سوشل میڈیا اسٹار
01:56
اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے نتیجے میں احد تمیمی فلسطینیوں کے لیے ایک ’ہیرو‘ بن چکی ہیں۔ جب احد نے النبی صالح میں اپنے گھر کے باہر اس اسرائیلی فوجی کو طمانچہ مارا تھا تو اس وقت وہ سولہ برس کی تھیں۔ تب ہفتہ وار مظاہروں کے پیش نظر اسرائیلی فورسز اس مقبوضہ علاقے میں تعینات تھیں۔
اس واقعے کے بعد احد کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ گزشتہ ماہ ہی ان کے خلاف عدالتی کارروائی شروع کی گئی تھی۔ ان پر مجموعی طور پر بارہ الزامات کے تحت فرد جرم عائد کی گئی تھی، جن میں اشتعال انگیزی اور حملہ کرنے جیسے سنگین الزامات بھی شامل تھے۔ اس لڑکی کے وکیل گابی لاسکی نے بتایا ہے کہ استغاثہ کے ساتھ ایک ڈیل کے تحت ان کی موکلہ نے کچھ الزامات کو تسلیم کر لیا ہے، جس کی وجہ سے انہیں طویل سزا نہیں سنائی جائے گی۔ احد تمیمی نے ملٹری کورٹ کے باہر صحافیوں کو بتایا کہ ’قبضے میں انصاف ممکن نہیں ہے، یہ ایک غیرقانونی کورٹ ہے‘۔
ایسے امکانات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ سنگین الزامات کی وجہ سے احد کو لمبی سزائے قید سنائی جا سکتی ہے۔ ساتھ ہی احد پانچ ہزار شیکلز (ساڑھے چودہ سو ڈالر) کا جرمانہ بھی ادا کریں گی۔ اسرائیلی فوج نے احد اور استغاثہ کے مابین طے پانے والی اس ڈیل کی تصدیق کر دی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ معاہدہ عدالت کی رضا مندی سے کیا گیا ہے۔ لاسکی نے بتایا ہے کہ ہے ان کی موکلہ کو سنائی جانے والی آٹھ ماہ کی سزا میں وہ عرصہ بھی شامل کیا جائے گا، جب سے وہ گرفتار ہیں۔
احد تمیمی کے اس کیس کو عالمی توجہ حاصل ہوئی تھی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ اس واقعے کے بعد اسرائیل میں یہ بحث بھی شروع ہوئی تھی کہ احد کی طرف سے حملے کے بعد فوجی کو جوابی کارروائی بھی کرنا چاہیے تھی۔ تاہم اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ اس فوجی نے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور جوابی کارروائی نہیں کی۔ دوسری طرف فلسطین اور دیگر مسلم ممالک میں احد تمیمی کو ’آزادی کی تحریک‘ کا ایک ہیرو بنا کر بھی پیش کیا جا رہا ہے۔
ع ب / ع ت / اے ایف پی
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔