1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قبضے کی زمین پر مساجد و مدارس کے خلاف سپریم کورٹ کا حکم

عبدالستار، اسلام آباد
21 دسمبر 2018

پاکستان میں سیاست دانوں سمیت معاشرے کے کئی حلقوں نے سپریم کورٹ کے اس بیان کا خیر مقدم کیا ہے، جس میں قبضے کی زمین پر مساجد اور مدارس بنانے کو اسلام کا مذاق اڑانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔

Pakistan Madrassas in Islamabad
تصویر: DW/I. Jabeen

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ایک شہری نے ایک درخواست دائر کی تھی، جس میں اس کا دعویٰ تھا کہ اس کی دو ایکٹر زمین پر کچھ افراد نے قبضہ کر کے پہلے وہاں مسجد، پھر مدرسہ اور اب قبرستان بنا دیا ہے۔ اس پر سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سندھ انڈسٹریل ٹریڈنگ اسٹیٹ سائٹ ایریا کراچی میں بنائی گئی اس مسجد اور مدرسے کا ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔ بینچ کے رکن جسٹس احمد علی شیخ نے اس موقع پر کہا، جس نے مسجد بنانی ہے، قانونی زمین پر بنائے۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئی ایک مثال پیش کریں کہ جب دورِ خلافت میں کوئی ایک مسجد غیر قانونی زمین پر بنائی گئی ہو۔
سپریم کورٹ کے ان مشاہدات کو اور بینچ کے اس حکم کو ملک کے کئی حلقوں نے سراہا ہے۔ لیکن ناقدین کا خیال ہے کہ اس سے پہلے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ اور دوسری عدالتوں نے غیر قانونی طور پر مساجد اور مدرسوں کے خلاف فیصلے دیے ہیں لیکن ان پر صحیح معنوں میں عمل درآمد نہیں ہوا۔ ان کے خیال میں اس فیصلے پر عمل مشکل ہو گا کیونکہ انتظامیہ، سیاست دان اور معاشرے مذہبی رہنماؤں کے اثر و رسوخ سے خائف ہیں۔

معروف سیاست دان سینیٹر طاہر بزنجو نے اس فیصلے کو سراہتے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’یہ فیصلہ تو اچھا ہے لیکن مولوی کے خلاف کون بولے گا۔ ریاست، انتظامیہ اور سیاست دان سب ان سے خائف ہیں۔ ملک کے طول و عرض پر غیر قانونی طور پر قبضہ کی ہوئی زمین پر مساجد و مدارس قائم ہیں لیکن نہ پارلیمنٹ اس مسئلے پر بول سکتی ہے اور نہ سیاست دان اور نہ ہی انتظامیہ۔ انہیں خدشہ ہے کہ اگر انہوں نے اس مسئلے پر بولا تو فتویٰ لگا دیا جائے گا۔ معاشرہ اور حکومت ان سے کس قدر خوفزدہ ہیں، اس کا اندازہ آپ خادم رضوی کے دھرنے کے دوران ریاست کے اِن ایکشن سے لگا لیں۔‘‘
لیکن کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اگر ریاست کو اپنی رٹ صحیح معنوں میں قائم کرنی ہے تو ایسے غیر قانونی مساجد و مدارس کے خلاف اقدامات ضروری ہیں۔ ماضی میں لال مسجد کے طلبہ نے ایک حکومتی لائبریری پر قبضہ کر لیا تھا اور اس کی وجہ سے اٹھنے والے مسائل نے ملک میں کشیدگی کی صورتِ حال پیدا کر دی تھی۔ کئی حلقوں کا خیال ہے کہ اگر ریاست کو قانون کی حکمرانی قائم کرنی ہے تو معیار سب کے لئے یکساں ہونے چاہیے۔

تصویر: DW/I. Jabeen

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ایوب ملک کا کہنا ہے کہ حکومت کو قبضہ کی ہوئی زمین پر مساجد اور مدارس کو ہٹا کر یہ ثابت کر دینا چاہیے کہ ریاست کسی کی طاقت سے مرعوب نہیں ہوگی، ’’ابھی غیر قانونی طور پر زمینوں پر قبضہ کیے جانے کے خلاف مہم چل رہی ہے، جس میں غریب لوگوں کی ہزاروں دکانیں، گھر، چھوٹے کاروبار اور ٹھیلے گرا دیے گئے ہیں لیکن ملک میں ہزاروں غیر قانونی طور پر قائم مساجد اور مدارس کو گرانے کی کسی نے ہمت نہیں کی۔ میں ذاتی طور پر پندرہ مساجد کو جانتا ہوں جو اسلام آباد میں قبضہ کی ہوئی زمین پر قائم کی گئی ہیں۔‘‘
کئی ماہرین کا خیال ہے کہ انتخابی سیاست میں مذہب کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ مذہبی شخصیات لوگوں کی رائے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے پاس اسٹریٹ پاور بھی ہے، جس کی وجہ سے سیاست دان اس مسئلے پر نہیں بولتے۔

کیا پاکستان کی تمام مساجد میں ایک جیسا خطبہ ہونا چاہیے؟

لیکن لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں صرف سیاست دان ہی ان سے خائف نہیں ہے، ریاست خود بھی ایسے افراد کے خلاف ایکشن لینے میں دلچسپی نہیں رکھتی، ’’ریاست اور دائیں بازو کی مذہبی قوتوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے، اس لیے سیاست دان اور انتظامیہ ان کے آگے بے بس ہیں۔‘‘
پی ٹی آئی کے رہنما اسحاق خاکوانی اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں کی بے بسی کا اعتراف کرتے ہیں، ’’سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بہت اچھا ہے لیکن پی ٹی آئی سمیت کوئی بھی سیاسی جماعت موجودہ مدارس اور مساجد کو ہٹا نہیں سکتیں باوجود اس کے کہ ان میں ہزاروں قبضہ کی ہوئی زمین پر بنائی گئیں ہیں۔ تاہم مستقبل میں اس فیصلے سے اس طرح کے قبضے کو روکا جا سکتا ہے۔‘‘
مذہبی حلقے قبضے کے ان دعوؤں کو غلط قرار دیتے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق رکن مولانا فضل علی نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میری سمجھ سے باہر ہے کہ کیوں کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مدارس اور مساجد قبضہ کی ہوئی زمین پر بنائی گئیں ہیں۔ وفاق المدارس کے فارم میں زمین کی ملکیت کے حوالے سے واضح نکات درج ہیں اور قبضہ کی ہوئی زمین پر قائم مدرسے کی رجسٹریشن نہیں ہو سکتی۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں