قحبہ خانے اور جسم فروش خواتین کی خدا سے دعائیں
8 نومبر 2025
سرخ روشنی مدھم ہے جبکہ کمرے میں صابن اور سستے پرفیوم کی میٹھی مہک پھیلی ہوئی ہے۔ نیلی زائیڈل نے سامنے بیٹھی ہوئی خاتون کے ہاتھ تھام رکھے ہیں اور وہ مشترکہ دعا کر رہی ہیں۔ دعا کے دوران جسم فروش خاتون کے آنسو بھی بہتے جا رہے ہیں۔
زائیڈل ایک فلاحی تنظیم ''مشن لو‘‘ کی سربراہ ہیں اور ان کے لیے ایسا تجربہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔
جرمنی میں جسم فروشی کی قانونی حیثیت
جرمن پارلیمان کی خاتون صدر یولیا کلؤکنر ملک میں جسم فروشی کا کاروبار بند کرانا چاہتی ہیں۔ وہ وفاقی وزیر صحت نینا وارکن کی طرح جرمنی کے لیے 'نارڈک ماڈل‘ کا مطالبہ کرتی ہیں۔
2002ء سے جرمنی میں جسم فروشی کا کاروبار قانونی ہے۔ اس کے مقابلے میں سویڈن میں تقریباً 20 سال سے 'نارڈک ماڈل‘ نافذ ہے اور یہی ماڈل اب فرانس، اسرائیل، آئس لینڈ، کینیڈا اور آئرلینڈ میں بھی نافذ ہو چکا ہے۔ اس میں جسم فروشی ممنوع ہے جبکہ خواتین کو مجرم نہیں ٹھہرایا جاتا بلکہ گاہکوں کو سزا ہوتی ہے۔
ساتھ ہی خواتین کو پیشہ وارانہ اور ذاتی مستقبل کے لیے جامع امداد کی پیش کشیں بھی کی جاتی ہیں۔ جسم فروشی ترک کرنے کے لیے کئی پروگرام بنتے ہیں اور طالب علموں کو بھی اس موضوع سے متعلق آگاہی دی جاتی ہے۔
تنظیم ''مشن لو‘‘ بھی اسی ماڈل کے لیے کوشاں ہے۔ نیلی زائیڈل گزشتہ آٹھ برسوں سے بون شہر اور اس کے مضافات میں واقع جسم فروشی کے اڈوں کے دورے کرتی آ رہی ہیں۔ بون کی جسم فروش خواتین انہیں بخوبی جانتی ہیں۔
شروع شروع میں عورتیں مسکراتیں اور کہتی تھیں کہ سب ٹھیک ہے۔ آہستہ آہستہ انہوں نے اپنے اصل جذبات دکھانا شروع کیے۔ وہ روئیں اور انہوں نے زائیڈل کے ساتھ اپنے اپنے تجربات شیئر کیے۔
جسم فروش خواتین نے زائیڈل کو بتایا کہ گاہک انہیں پورن دکھاتے ہیں اور انہی کی نقل کروانا چاہتے ہیں کیونکہ ''سافٹ سیکس کے لیے کوئی قحبہ خانہ نہیں آتا۔‘‘
جرمنی:کاروبار دوبارہ شروع مگر قحبہ خانوں کے آداب بدل گئے
زائیڈل بتاتی ہیں کہ کچھ خواتین ہر گاہک کے جانے کے بعد نہاتی ہیں تاکہ گندگی کا احساس کم ہو اور بعض اوقات تو دن میں 20، 20 مرتبہ۔ اتنے زیادہ گاہک غیر معمولی نہیں۔ زیادہ تر خواتین شراب اور منشیات کے زیر اثر ہی یہ سب کچھ برداشت کرتی ہیں۔
قحبہ خانوں کے مالکان ایسی ملاقاتوں پر کیا کہتے ہیں؟
زائیڈل کے مطابق مالکان کو ان کے دوروں سے مسئلہ نہیں، ''وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم عورتوں کے لیے اچھا کر رہی ہیں۔ ایسے دورے اکثر چند منٹوں کے ہوتے ہیں۔ مگر ایک انسان، جو عورتوں کو تھوڑی دیر سنتا ہے، ان کا موڈ اچھا کر دیتا ہے، خاص طور پر جب ماحول تاریک ہو۔‘‘
زائیڈل بتاتی ہیں کہ جسم فروش خواتین کی زندگی کے فیصلے دوسرے لوگ کرتے ہیں، ہر فیصلہ دلال اور دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے، ''سب سے خوفناک بات یہ کہ پتہ نہیں اگلا گاہک کون آئے گا؟‘‘
'گرجا گھروں سے بھی زیادہ دعائیں‘
زائیڈل کے مطابق، جب وہ کچھ کنٹرول نہیں کر سکتیں، تو بہت سی جسم فروش خواتین کو خدا پر بھروسہ کرنا اور اسی سے دعا کرنا سہارا دیتا ہے۔ زائیڈل کہتی ہیں کہ قحبہ خانوں میں روزانہ ''گرجا گھروں سے بھی زیادہ دعائیں‘‘ مانگی جاتی ہیں۔
بہت سی لاطینی امریکی خواتین، جن کی اس شعبے میں بڑی تعداد موجود ہے، کیتھولک گھرانوں میں پلی بڑھی ہوتی ہیں۔ وہ ایسے ہی دعا کرتی ہیں، جیسے بچپن میں ان کی مائیں یا نانیاں دادیاں کیا کرتی تھیں۔
جرمنی، جسم فروشی کی صنعت کو مزید تحفظ دیا جائے گا
زائیڈل ہر متاثرہ عورت کے لیے چاہتی ہیں کہ ''یہ گندا، حقیر اور انسانیت سوز کاروبار جرمنی سے غائب ہو جائے۔‘‘ وفاقی دفتر شماریات کے مطابق گزشتہ سال کے آخر تک جرمنی کے 22 سو سے زائد قحبہ خانوں میں تقریباً 32,300 جسم فروش خواتین موجود تھیں جبکہ اصل اعداد و شمار اس سے کئی گنا زیادہ ہو سکتے ہیں۔
زائیڈل کہتی ہیں، ''یہ ترقی کرتا کاروبار اور بے لگام صورت حال، جو اس وقت جرمنی میں عروج پر ہیں، میرا خیال ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔‘‘ ان کی تنظیم دیگر اداروں کے ساتھ مل کر یہ سب کچھ بدلنا چاہتی ہے اور ہر سال عالمی ''واک فار فریڈم‘‘ میں حصہ لینے کے لیے سڑکوں پر نکلتی ہے، جس دوران شرکاء نئے قوانین کی امید میں سیاہ لباس اور چھتریاں لیے شہروں میں خاموشی سے پیدل چلتے ہیں۔
ادارت: مقبول ملک