جرمن انشورنس کمپنی میونخ رے کا کہنا ہے کہ قدرتی آفات کے سبب ہونے والے اس عالمی نقصان کی بڑی وجہ ماحولیاتی بحران ہے۔ جولائی میں مغربی یورپ میں آنے والے سیلاب سال 2021 کی دوسری سب سے مہنگی تباہی ثابت ہوئیں۔
اشتہار
جرمنی کی سب سے بڑی انشورنس کمپنیوں میں سے ایک میونخ رے نے پیر کے روز شائع کردہ اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ سال 2021 میں قدرتی آفات کے نتیجے میں پوری دنیا کو 280 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے مضمرات کے سبب یہ رجحان برقرار رہے گا۔
کمپنی کے سائنسی مشیروں کا کہنا تھا، "ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں بعض انتہائی موسمی واقعات اب زیادہ تیزی سے رونما ہوسکتے ہیں یا ان کی نوعیت زیادہ سنگین ہوسکتی ہے۔ زیادہ تیزی سے رونما ہونے والے ان قدرتی آفات میں (امریکا میں) شدید طوفان، آدھے سال تک رہنے والی سردی یا یورپ میں بارش کے بعد سیلاب جیسے واقعات شامل ہیں۔"
قدرتی آفات کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصانات کہاں ہوئے؟
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2021 میں قدرتی آفات کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان امریکا میں ہوا۔ جہا ں کئی سمندری طوفان، سیلاب اور گردابی طوفان آئے۔
دنیا میں مالی لحاظ سے سب سے زیادہ نقصان سمندری طوفان ایڈا کی وجہ سے ہوا۔ اس طوفان کے سبب 65 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔
اندازہ ہے کہ ملک کے اندر ہی 145ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اور مجموعی اور انشورڈ نقصانات اس سے پہلے کے سابقہ دوبرسوں کے مجموعی نقصان کے مقابلے کافی زیادہ تھے۔ سال 2019 میں مجموعی طور پر 52 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔
ماحولیاتی تبدیلیاں خواتین کو زیادہ نقصان پہنچا رہی ہیں
01:16
جرمنی میں جولائی میں آنے والے ہلاکت خیز سیلاب کی وجہ سے تقریباً 40 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ جرمنی کی تاریخ میں اب تک کی
سب سے مہنگی قدرتی تباہی ثابت ہوئی۔ بارش کی سطح اتنی زیادہ ہوگئی جو پچھلے ایک صدی میں نہیں دیکھی گئی تھی۔
کمپنی نے اپنی رپورٹ میں کہا،"اس سیلابی ریلے میں بے شمار عمارتیں بہہ گئیں۔ ریلوے لائن، سڑکیں اور پل جیسے انفرااسٹرکچر کو بھی بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے۔ اس سیلاب کی وجہ سے 220 سے زائد افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔"
(ایلزابیتھ شو ماکر)/ج ا/ ص ز
ماحولیاتی تبدیلیاں پہاڑوں کے لیے بھی خطرے کا باعث
گلوبل وارمنگ نے پہاڑوں کے فطرتی نظام میں اکھاڑ پچھاڑ شروع کر دی ہے۔ ان تبدیلیوں سے پانی کے بہاؤ سے لے کر زراعت، جنگلاتی حیات اور سیاحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
دنیا کے پہاڑ جہاں انتہائی سخت ہیں وہاں وہ بہت نازک بھی ہیں۔ نشیبی علاقوں میں ان کے اثرات بے بہا ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں سے ان پہاڑوں نے گہرے اثرات لیے ہیں۔ پہاڑوں پر بھی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور وہاں کا قدرتی ماحول تبدیل ہونے لگا ہے۔ برف اور گلیشیئر نے غائب ہونا شروع کر دیا ہے اور اس باعث زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہے۔
تصویر: Photoshot/picture alliance
برف کا پگھلاؤ
اگر ماحولیاتی تبدیلیوں کا سلسلہ جاری رہا اور ضرر رساں گیسوں کا اخراج موجودہ مقدار کے مطابق فضا میں منتقل ہوتا رہا تو رواں صدی کے اختتام تک پہاڑوں اور دوسرے علاقوں میں اسی فیصد برف کم ہو سکتی ہے۔ گلیشیئرز کے حجم بھی کم ہونے لگے ہیں۔ ایسی منفی صورت حال یورپی پہاڑی سلسلہ الپس کے علاوہ دوسرے براعظموں کے پہاڑوں پر بھی دکھائی دے رہی ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں نے زمین کے آبی نظام کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ پہلے گلیشیئر سے پانی دریاؤں تک پہپنچتا تھا لیکن اب ان کے پگھلنے کا عمل تیز ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ سے دریا میں پانی کا بہاؤ بھی زیادہ ہو چکا ہے۔ کئی پہاڑی سلسلوں میں گلیشیئرز کی جسامت برف پگھلنے سے سکٹر گئی ہے، جیسا کہ پیرو کے پہاڑوں کی صورت حال ہے۔
تصویر: Wigbert Röth/imageBROKER/picture alliance
بائیوڈائیورسٹی: تبدیل ہوتا نشو و نما کا ماحول
ماحولیاتی تبدیلیوں نے پہاڑوں کی جنگلاتی حیات میں جانوروں، پرندوں اور جڑی بوٹیوں کی افزائش کے قدرتی ماحول کو بھی بہت حد تک تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ جنگل بردگی نے پہاڑوں کی ترائیوں کے جنگلات میں کمی کر دی ہے۔ اس کی وجہ سے ان علاقوں کے جنگلی جانوروں نے بلندی کا رخ کر لیا ہے اور یہ ایک مشکل صورت حال ہے۔
گلیشیئرز کے پگھلنے اور پہاڑوں کی مستقل منجمد مقامات سے برف کے کم ہونے سے پہاڑی درے اور راستے غیر مستحکم ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس کی وجہ سے برفانی تودوں کے گرنے، لینڈ سلائیڈنگ اور سیلابوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔ مغربی امریکی پہاڑوں میں برف بہت تیزی سے پگھل رہی ہے۔ اس کے علاوہ گلیشیئرز کے پگھلنے سے ان میں موجود بھاری دھاتوں کا بھی اخراج ہونے لگا ہے۔ یہ زمین کی حیات کے لیے شدید نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
دنیا کی قریب دس فیصد آبادی پہاڑی علاقوں میں رہتی ہے۔ ان لوگوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے معاشی مشکلات کا جہاں سامنا ہے اب وہاں قدرتی آفات کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔ پہاڑوں کے جمالیاتی، روحانی اور ثقافتی پہلوؤں کو بھی مجموعی طور پر تنزلی کا سامنا ہے۔ اب نیپال کی منانگی کمیونٹی کو لیں، جن کی شناخت گلیشیئرز سے ہے، اِن کے پگھلنے سے اُن کے حیاتیاتی ماحول کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
پہاڑٰی علاقوں میں درجہ حرارت کے بڑھنے سے وہاں کی معیشت کو شدید منفی صورت حال کا سامنا ہے۔ ماحول کے گرم ہونے سے پہاڑوں کی سیاحت اور پانی کی فراہمی بھی متاثر ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ بلند علاقوں میں کی جانے والی زراعت بھی زبوں حالی کی شکار ہو گئی ہے۔ پہاڑوں میں قائم بنیادی ڈھانچے جیسا کہ ریلوے ٹریک، بجلی کے کھمبوں، پانی کی پائپ لائنوں اور عمارتوں کو لینڈ سلائیڈنگ کے خطرات کا سامنا ہو گیا ہے۔
تصویر: Rodrigo Abd/picture alliance
سرمائی سیاحت
ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کم برف گرنے سے پہاڑوں پر برف کا لطف اٹھانے کا سلسلہ بھی متاثر ہو چکا ہے۔ اسکیئنگ کے لیے برف کم ہو گئی ہے۔ اسکیئنگ کے لیے قائم پہاڑی تفریحی مقامات پر مصنوعی برف کا استعمال کیا جانے لگا ہے جو ماحول کے لیے شدید نقصان دہ ہے۔ بولیویا کی مثال لیں، جہاں گزشتہ پچاس برسوں میں نصف گلیشیئرز پانی بن چکے ہیں۔
گلیشیئرز کے سکڑنے سے دریاؤں میں پانی کم ہو گیا ہے اور اس باعث وادیوں میں شادابی و ہریالی بھی متاثر ہوئی ہے۔ ان علاقوں کے کسانوں کو کاشتکاری سے کم پیداوار حاصل ہونے لگی ہے۔ نیپال میں کسانوں کو خشک کھیتوں کا سامنا ہے۔ ان کے لیے آلو کی کاشت مشکل ہو گئی ہے۔ کئی دوسرے ایسے ہی پہاڑی ترائیوں کے کسانوں نے گرمائی موسم کی فصلوں کو کاشت کرنا شروع کر دیا ہے۔