قدرتی آفات سے ہونے والے نقصان کا اندازہ کیسے لگایا جاتا ہے؟
25 فروری 2023
قدرتی آفات سے ہونے والے مالی نقصان کا تخمینہ لگانا ایک مشکل کام ہے۔ یہ حساب کتاب ایک پیچیدہ عمل ہے، جس میں اونچ نیچ ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں اندازہ لگانے کے کچھ طریقہ کار یوں ہیں۔
اشتہار
ترک انٹرپرائز اینڈ بزنس کنفیڈریشن کی جانب سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق مشرقی ترکی میں زلزلے سے ہونے والی تباہی کا تخمینہ 84 ارب ڈالر (80 ارب یورو) لگایا گیا ہے، جو ترکی کی مجموعی ملکی پیداوار کا تقریبا 10 فیصد بنتا ہے۔
صرف ترکی میں عمارتیں منہدم ہونے کی وجہ سے تقریبا 70.8 بلین ڈالر کا نقصان ہوا جبکہ 10.4 بلین ڈالر قومی آمدنی کو ہونے والے نقصان اور 2.9 بلین ڈالر ورکنگ دن ضائع ہونے کی وجہ سے برباد ہوئے۔
امریکی ڈیٹا اینالٹکس فرم ویرسک کا کہنا ہے کہ اس زلزلے سے ہونے والے معاشی نقصانات کم از کم 20 ارب ڈالر ہیں جبکہ کئی دیگر اندازے اس کے درمیان ہیں۔
شام میں زلزلے سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگانے میں زیادہ وقت لگے گا۔
زلزلے کا یہ حساب کیسے لگایا جاتا ہے اور تخمینے اتنے مختلف کیوں ہیں؟ آئیے اب اس الجھن کو سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
انسانی زندگی کی قدر کیا ہے؟
ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی سے وابستہ میلانی گال کے مطابق اس طرح کی آفات کے معاشی اثرات کا حساب لگانے کے لیے عام طور پر دو طریقے ہیں۔
ایک طریقہ براہ راست اثرات کا ہے، یعنی وہ نقصانات، جو فوری طور رونما ہوتے ہیں، جیسے گھروں کو نقصان اور چوٹیں وغیرہ۔ گیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ براہ راست نقصانات کا اندازہ انشورنس کمپنیوں کی جانب سے خدمات حاصل کرنے والے پیشہ ور تجزیہ کاروں کے ذریعے لگایا جا سکتا ہے۔
دوسرا طریقہ ہے بالواسطہ اثرات کا، یہ وہ ہیں، جو کسی حادثے یا قدرتی آفت کے ثانوی اثرات سے پیدا ہوتے ہیں، جیسے شٹ ڈاؤن کے دوران کاروباری نقصانات، کارکنوں کے لیے آمدنی کا نقصان اور پوسٹ ٹرومیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی) میں مبتلا افراد کی بے روزگاری۔ اس طرح کے نقصانات کا حساب عام طور پر معاشی ماڈل کا استعمال کرتے ہوئے لگایا جاتا ہے۔
گیل کے بقول، ’’زیادہ تر واقعات میں یہ تخمینے پیشہ ور تخمینہ کاروں کی طرف سے نہیں آتے ہیں۔‘‘
انشورنس کمپنیاں اور انشورنس ٹریڈ ایسوسی ایشنز عام طور پر پہلا تخمینہ لگاتی ہیں، جن میں جائیداد کے نقصان پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔
انشورنس کمپنیاں ان تخمینوں کی بنیاد بیمہ شدہ اور غیر بیمہ شدہ جائیداد کے موازنے کو بناتی ہیں۔ یوں وہ یہ سمجھنے کی کوشش کرتی ہیں کہ کل نقصان کتنا ہوا؟
ماحولیاتی تبدیلیاں پہاڑوں کے لیے بھی خطرے کا باعث
گلوبل وارمنگ نے پہاڑوں کے فطرتی نظام میں اکھاڑ پچھاڑ شروع کر دی ہے۔ ان تبدیلیوں سے پانی کے بہاؤ سے لے کر زراعت، جنگلاتی حیات اور سیاحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
دنیا کے پہاڑ جہاں انتہائی سخت ہیں وہاں وہ بہت نازک بھی ہیں۔ نشیبی علاقوں میں ان کے اثرات بے بہا ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں سے ان پہاڑوں نے گہرے اثرات لیے ہیں۔ پہاڑوں پر بھی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور وہاں کا قدرتی ماحول تبدیل ہونے لگا ہے۔ برف اور گلیشیئر نے غائب ہونا شروع کر دیا ہے اور اس باعث زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہے۔
تصویر: Photoshot/picture alliance
برف کا پگھلاؤ
اگر ماحولیاتی تبدیلیوں کا سلسلہ جاری رہا اور ضرر رساں گیسوں کا اخراج موجودہ مقدار کے مطابق فضا میں منتقل ہوتا رہا تو رواں صدی کے اختتام تک پہاڑوں اور دوسرے علاقوں میں اسی فیصد برف کم ہو سکتی ہے۔ گلیشیئرز کے حجم بھی کم ہونے لگے ہیں۔ ایسی منفی صورت حال یورپی پہاڑی سلسلہ الپس کے علاوہ دوسرے براعظموں کے پہاڑوں پر بھی دکھائی دے رہی ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں نے زمین کے آبی نظام کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ پہلے گلیشیئر سے پانی دریاؤں تک پہپنچتا تھا لیکن اب ان کے پگھلنے کا عمل تیز ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ سے دریا میں پانی کا بہاؤ بھی زیادہ ہو چکا ہے۔ کئی پہاڑی سلسلوں میں گلیشیئرز کی جسامت برف پگھلنے سے سکٹر گئی ہے، جیسا کہ پیرو کے پہاڑوں کی صورت حال ہے۔
تصویر: Wigbert Röth/imageBROKER/picture alliance
بائیوڈائیورسٹی: تبدیل ہوتا نشو و نما کا ماحول
ماحولیاتی تبدیلیوں نے پہاڑوں کی جنگلاتی حیات میں جانوروں، پرندوں اور جڑی بوٹیوں کی افزائش کے قدرتی ماحول کو بھی بہت حد تک تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ جنگل بردگی نے پہاڑوں کی ترائیوں کے جنگلات میں کمی کر دی ہے۔ اس کی وجہ سے ان علاقوں کے جنگلی جانوروں نے بلندی کا رخ کر لیا ہے اور یہ ایک مشکل صورت حال ہے۔
گلیشیئرز کے پگھلنے اور پہاڑوں کی مستقل منجمد مقامات سے برف کے کم ہونے سے پہاڑی درے اور راستے غیر مستحکم ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس کی وجہ سے برفانی تودوں کے گرنے، لینڈ سلائیڈنگ اور سیلابوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔ مغربی امریکی پہاڑوں میں برف بہت تیزی سے پگھل رہی ہے۔ اس کے علاوہ گلیشیئرز کے پگھلنے سے ان میں موجود بھاری دھاتوں کا بھی اخراج ہونے لگا ہے۔ یہ زمین کی حیات کے لیے شدید نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
دنیا کی قریب دس فیصد آبادی پہاڑی علاقوں میں رہتی ہے۔ ان لوگوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے معاشی مشکلات کا جہاں سامنا ہے اب وہاں قدرتی آفات کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔ پہاڑوں کے جمالیاتی، روحانی اور ثقافتی پہلوؤں کو بھی مجموعی طور پر تنزلی کا سامنا ہے۔ اب نیپال کی منانگی کمیونٹی کو لیں، جن کی شناخت گلیشیئرز سے ہے، اِن کے پگھلنے سے اُن کے حیاتیاتی ماحول کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
پہاڑٰی علاقوں میں درجہ حرارت کے بڑھنے سے وہاں کی معیشت کو شدید منفی صورت حال کا سامنا ہے۔ ماحول کے گرم ہونے سے پہاڑوں کی سیاحت اور پانی کی فراہمی بھی متاثر ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ بلند علاقوں میں کی جانے والی زراعت بھی زبوں حالی کی شکار ہو گئی ہے۔ پہاڑوں میں قائم بنیادی ڈھانچے جیسا کہ ریلوے ٹریک، بجلی کے کھمبوں، پانی کی پائپ لائنوں اور عمارتوں کو لینڈ سلائیڈنگ کے خطرات کا سامنا ہو گیا ہے۔
تصویر: Rodrigo Abd/picture alliance
سرمائی سیاحت
ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کم برف گرنے سے پہاڑوں پر برف کا لطف اٹھانے کا سلسلہ بھی متاثر ہو چکا ہے۔ اسکیئنگ کے لیے برف کم ہو گئی ہے۔ اسکیئنگ کے لیے قائم پہاڑی تفریحی مقامات پر مصنوعی برف کا استعمال کیا جانے لگا ہے جو ماحول کے لیے شدید نقصان دہ ہے۔ بولیویا کی مثال لیں، جہاں گزشتہ پچاس برسوں میں نصف گلیشیئرز پانی بن چکے ہیں۔
گلیشیئرز کے سکڑنے سے دریاؤں میں پانی کم ہو گیا ہے اور اس باعث وادیوں میں شادابی و ہریالی بھی متاثر ہوئی ہے۔ ان علاقوں کے کسانوں کو کاشتکاری سے کم پیداوار حاصل ہونے لگی ہے۔ نیپال میں کسانوں کو خشک کھیتوں کا سامنا ہے۔ ان کے لیے آلو کی کاشت مشکل ہو گئی ہے۔ کئی دوسرے ایسے ہی پہاڑی ترائیوں کے کسانوں نے گرمائی موسم کی فصلوں کو کاشت کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Paolo Aguilar/EFE/dpa/picture-alliance
9 تصاویر1 | 9
یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا میں خطرات اور ہنگامی حالات کے خطرے اور معاشی تجزیات کے مرکز کے سینئر ریسرچ فیلو ایڈم روز ایسے اندازے لگانے کے ماہر ہیں۔ انہوں نے اس مقصد کی خاطر ایک سافٹ ویئر تیار کیا ہے، جسے اقتصادی نتائج تجزیہ ٹول، یا ای سی اے ٹی کہا جاتا ہے۔
روز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’کسی بھی آفت کے نقصان کا درست تخمینہ صرف ایک محتاط کیس اسٹڈی کے بعد ہی طے کیا جا سکتا ہے، جسے مکمل ہونے میں مہینوں یا سالوں کا وقت لگتا ہے۔‘‘
روز کے سافٹ ویئر کو اسی وقت استعمال کیا جا سکتا ہے، جب آفت کے ابتدائی پیمانے کے بارے میں کچھ بنیادی معلومات دستیاب ہو جائیں۔ روز کے مطابق ایک مسئلہ انسانی زندگی کی قدر کا ہے، جس میں عام طور پر کسی شخص کی کمائی سے متعلق ایک بڑا حصہ شامل ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ترکی جیسے ترقی پذیر ممالک میں ہونے والے جانی نقصان کا موازنہ کسی ترقی یافتہ ملک سے ہونے والے ایسے نقصان سے نہیں کیا جا سکتا۔
جن زمروں کا جائزہ لیا جاتا ہے ان میں کاروباری تعطل، معاشی سرگرمی میں کمی یا تو کھوئی ہوئی آمدنی کے لحاظ سے پیمائش کی جاتی ہے، یا کھوئی ہوئی اجرت اور منافع کے ساتھ ساتھ مائیکرو اکنامک سطح پر ذاتی آمدنی یا روزگار کا مجموعہ ہے۔
روز نے مزید کہا، ’’مندرجہ بالا تین زمروں میں انسانی بدحالی شامل نہیں ہے، جیسے بجلی یا صاف پانی کے بغیر رہنے والے لوگوں کی تعداد‘‘۔
امریکہ میں این او اے اے سیٹلائٹ اینڈ انفارمیشن سروس کے پبلک افیئرز آفیسر جان بیٹ مین کا بھی کہنا ہے کہ بہت سے اخراجات کا شمار نہیں کیا جاتا۔ ان میں قدرتی سرمائے یا ماحولیاتی انحطاط، ذہنی یا جسمانی صحت کی دیکھ بھال سے متعلق اخراجات اور گم شدہ سپلائی چین کی قیمت شامل ہو گی۔
اعداد و شمار کتنے درست ہیں؟
روز کے مطابق کسی آفت کے نقصان کا ابتدائی تخمینہ اکثر چند دنوں کے اندر لگایا جاتا ہے لیکن بعد میں جب مزید اعداد و شمار دستیاب ہوتے ہیں تو وہ بہتر ہو جاتے ہیں، ’’ان ابتدائی تخمینوں میں اکثر تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے، جیسے سڑکوں، پلوں اور یوٹیلیٹیز کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔‘‘
روز کہتے ہیں کہ مصنوعی سیاروں اور جاسوس ہوائی جہازوں کے ذریعہ جمع کردہ اعداد و شمار کی بنیاد پر ایسے اندازے زیادہ بہتر ہو سکتے ہیں۔ ان کے بقول اس کے علاوہ تین اور عوامل پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔
پہلی غور طلب بات ایسی آفات کی وجہ سے سپلائی چین کو ہونے والا نقصان ہے۔ مثال کے طور پر تائیوان میں زلزلوں نے ماضی میں سیمی کنڈکٹر فیکٹریوں کو نقصان پہنچایا ہے، جس کے نتیجے میں امریکہ اور دیگر ممالک میں الیکٹرانکس کی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔
دوسرا یہ کہ کسی آفت کے بعد کاروبار کتنی جلدی اور موثر طریقے سے اپنے پیروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں، جیسے کہ منتقلی یا کم پانی اور بجلی کا استعمال۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے ماہرین کسی آفت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خطرات کو کم کرنے کے اس طریقے کو "مطابقت" قرار دیتے ہیں۔
تیسرا یہ کہ ان لوگوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے جو آفت زدہ علاقوں میں رہتے ہیں۔ اگر وہ اپنے طور پر یا حکومت کے انخلاء کے احکامات کے ذریعہ ایسا کرنے پر مجبور ہونے کے بعد علاقے سے بھاگ جاتے ہیں تو مقامی معیشت اپنی لیبر بیس کھو دیتی ہے اور سامان اور خدمات کی طلب میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ یہ ترکی جیسے ملک میں بھی ہو سکتا ہے کیونکہ جب لوگ ان مقامات میں کام پر واپس آنے سے ڈریں گے، جہاں وہ خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔
غریب زیادہ متاثر ہوتے ہیں
روز کہتے ہیں کہ قدرتی آفات کے نقصانات کا تخمینہ اکثر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے یا کم اندازہ لگایا جاتا ہے۔ وہ اس کی وجہ سیاسی عوامل کو قرار دیتے ہیں۔ روز نے اس کی وضاحت کچھ یوں پیش کی کہ کچھ لوگ زیادہ امداد اور معاوضہ حاصل کرنے کے لیے مبالغہ آرائی کرتے ہیں تو کچھ حکومتیں شرمندگی سے بچنے کے لیے اخراجات کو کم بتاتی ہیں کیونکہ وہ اپنی پالیسیاں درست ثابت کرنے کی کوشش میں ہوتی ہیں۔
انشورنس کمپنی سوئس ری کے مطابق تباہ کاریوں کے طویل مدتی ترقیاتی اثرات عام طور پر اس بات پر منحصر ہوتے ہیں کہ براہ راست نقصانات بالواسطہ اور ثانوی اخراجات کا باعث کیسے بنتے ہیں اور یہ کہ نقصانات کو برداشت کرنے کی ملک کی معاشی صلاحیت کیسی ہے؟
گزشتہ 30 سالوں میں ہونے والی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ عام طور پر غریب لوگ ہی آفات سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ غریب لوگ پر خطر علاقوں میں رہتے ہیں جبکہ ان کے پاس وسائل نہیں ہوتے کہ وہ تدابیر اختیار کر سکیں یا تعمیر نو یا بحالی۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کے مطابق کمزور گورننس، بڑھتی ہوئی غربت، حیاتیاتی تنوع کا نقصان، تباہ شدہ ماحولیاتی نظام اور بے ترتیب اربن آئزیشن قدرتی آفات کی صورت میں نقصانات کو بڑھا دینے کی وجوہات ہیں۔
جو ہارپر (ع ب، ا ا)
شدید خونریز موسم، کرہ ارض کے لیے دھچکا
براعظم یورپ سے لے کر امریکا اور ایشیا و افریقہ کے کئی ممالک میں شدید موسموں کی وجہ سے قدرتی آفات خبروں کی سرخیوں میں ہیں۔ کیا یہ سب ماحولیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ ہیں۔
تصویر: Noah Berger/AP Photo/picture alliance
یورپ میں شدید سیلاب
یورپ کی جدید تاریخ میں غیرمعمولی سیلاب کی وجہ دو ماہ سے ہونے والا شدید سیلابی سلسلہ بنا۔ یوں بالخصوص مغربی یورپ میں شدید تباہی ہوئی اور صرف جرمنی اور بیلجیم میں کم از کم دو سو نو افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ ان تباہ حال علاقوں کی تعمیر نو اور بحالی پر لاکھوں یورو خرچ ہوں گے۔
تصویر: Thomas Lohnes/Getty Images
بارش کا غیر معمولی سلسلہ
حالیہ ہفتوں میں بھارت اور چین میں بھی غیر معمولی سیلاب آئے۔ چین کے صوبہ ہینان کے شہر ژانگژو میں سیلابی ریلے انڈر گراؤنڈ ٹرین سب وے میں داخل ہو گئے، جہاں درجنوں مارے بھی گئے۔ موسمیاتی سائنسدانوں کا کہنا ہے کلائمیٹ چینج کی وجہ سے مستقبل میں زیادہ شدید بارشوں کا خدشہ ہے۔ زیادہ گرم موسم پانی کی بڑی مقدار کو بخارات بنائے گا، جو بادل بن کر برسیں گے۔
تصویر: AFP/Getty Images
امریکا اور کینیڈا میں ریکارڈ گرمی
جون کے اواخر میں کینیڈا اور امریکا میں بھی شدید گرمی پڑی۔ بالخصوص کینیڈین صوبے برٹش کولمبیا میں ریکارڈ گرم درجہ حرارت بھی نوٹ کیا گیا جبکہ گرم موسم کی وجہ سے کئی اموات بھی ہوئیں۔ اسی باعث دونوں ممالک میں جنگلاتی آگ بھی بھڑکی، جو بڑے پیمانے پر مالی نقصان کا باعث بنی۔
تصویر: Ted S. Warren/AP/picture alliance
جنگلاتی آگ سے تباہی
گرمی کی لہر شاید ختم ہونے والی ہے لیکن انتہائی خشک موسم سے جنگلاتی آگ بھڑکنے کا خطرہ نہیں ٹلا۔ امریکی ریاست اوریگن میں بھڑکی جنگلاتی آگ کی وجہ سے دو ہفتوں میں ہی ایک بڑا رقبہ راکھ ہو گیا۔ یہ آگ اتنی شدید ہے کہ اس کا دھواں نیو یارک شہر تک پہنچ رہا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق موسموں میں یہ شدت انسانوں کی طرف سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔
تصویر: National Wildfire Coordinating Group/Inciweb/ZUMA Wire/picture alliance
ایمیزون میں بگڑتی صورتحال
برازیل کا وسطی اور جنوبی حصہ شدید خشک سالی کا شکار ہے۔ گزشتہ سو برس بعد ان علاقوں میں یہ صورتحال دیکھی جا رہی ہے۔ یوں جنگلاتی آگ بھڑکنے کے علاوہ ایمیزون کے جنگلات کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
تصویر: Andre Penner/AP Photo/picture alliance
فاقہ کشی کے دہانے پر
مڈغاسکر میں گزشتہ کئی برسوں کی خشک سالی کے باعث 1.14 ملین نفوس فاقہ کشی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ اس افریقی ملک میں نا تو کوئی قدرتی آفت آئی اور نا ہی فصلوں کو نقصان پہنچا۔ یہاں تو کوئی سیاسی تنازعہ بھی پیدا نہیں ہوا لیکن اس کے باوجود وہاں قحط سالی کا خطرہ ہے، جس کی وجہ صرف ماحولیاتی تبدیلیوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Laetitia Bezain/AP photo/picture alliance
قدرتی آفات سے مہاجرت
گزشتہ برس قدرتی آفات اور مسلح تنازعوں سے اپنے ہی ملکوں میں بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد پچپن ملین رہی، جو گزشتہ دہائی کا ایک نیا ریکارڈ بن گیا ہے۔ اس کے علاوہ چھیبس ملین افراد غیر ممالک مہاجرت پر بھی مجبور ہوئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اپنے ہی ممالک میں بے گھر ہونے والے افراد کی تین چوتھائی شدید موسموں کی وجہ سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئی۔