قدرتی آفات کو عذاب قرار دینا معاشرے کے لیے خطرناک کیوں؟
11 ستمبر 2022معروف مذہبی مبلغ طارق جمیل سیلاب سے متعلق اپنا نقظہ نظر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اللہ ہم سے ناراض ہے، دنیا کا کون سا گناہ ہے، جو ہماری دھرتی پہ نہیں ہو رہا۔" ہزاروں کی تعداد میں وائرل ہونے والے اپنے ویڈیو بیان میں وہ ”والدین کی نافرمانی، فحاشی، بدمعاشی اور عیاری" جیسے گناہوں کی فہرست پیش کرتے ہوئے اسے ”عذاب" سے تعبیر کرتے اور معافی مانگنے کی تبلیغ کرتے ہیں۔
یہ اپنی طرز کی کوئی اکلوتی مثال نہیں۔ سن 2005 کا تباہ کن زلزلہ ہو، 2010ء کا طوفانی سیلاب ہو یا کورونا کی وبا، ہم نے بہت سے مذہبی مبلغین کو اس طرح کی گفتگو کرتے ہوئے سنا۔ ہم جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس رویے کی وجوہات کیا ہیں اور معاشرے اس سے کیسے متاثر ہوتا ہے؟
’یہ مناسب رویہ نہیں‘
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ فکر اسلامی سے وابستہ مذہبی سکالر ڈاکٹر طاہر اسلام عسکری اسے عذاب کے بجائے آزمائش قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ”جو لوگ اس کی زد پہ ہیں یہ ان کے مال و جان کی آزمائش ہے اور باقی لوگوں کا امتحان ہے کہ وہ لوگوں کی مدد اور ایثار کا رویہ اختیار کرتے ہیں یا نہیں۔"
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ”یہ بے بسی کی انتہا ہے کہ آپ کے سامنے آپ کے بچے اور اہل و عیال ڈوب رہے ہوں، پانی کی ایک تند و تیز موج آئے اور آپ کی زندگی بھر کی کمائی بہا لے جائے، آپ بہت کچھ کرنا چاہیں اور کچھ نہ کر سکیں، ایسے میں انہی لوگوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا، ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف اور دین کی حکمت کے بھی خلاف ہے۔ یہ کسی بھی طرح مناسب رویہ نہیں۔"
عام آدمی ایسی صورتحال کو عذاب سمجھنے لگے تو کیا متاثرین کی امداد اور بحالی کے کام پر بھی اثر پڑتا ہے؟ اس کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ دو طرح سے اس کے منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، ''پہلا یہ کہ مذہبی شخصیات کی فین فالوونگ بہت بڑی تعداد میں ہے، لوگ ان کی بات سنتے اور اس پر یقین کرتے ہیں۔ اگر عام افراد کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ جائے تو وہ عذاب میں گھرے لوگوں کی امداد کو نیکی نہیں سمجھیں گے، سو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے سے بھی کترائیں گے۔ دوسرا یہ کہ معاشرے میں متاثرین کے خلاف ایک تحقیر آمیز رویہ پنپ سکتا ہے۔ لوگوں کو انہیں ایسے دیکھتے ہیں، جیسے وہ مجرم ہوں، بالخصوص اگر قدرتی آفت کا دائرہ کسی مخصوص علاقے تک ہو۔"
فیکٹ چیک: موسمیاتی شدت میں ماحولیاتی تبدیلیوں کا کردار کیا؟
وہ اس کی ایک مثال 2005ء کے زلزلے کو پیش کرتے ہیں، جس میں تباہی کی شدت زیادہ اور دائرہ محدود تھا۔
ہلاکتیں اور وکٹم بلیمنگ
مگر براہ راست قدرتی آفات کی زد میں آنے والے افراد، جب سنتے ہیں کہ اسے عذاب اور ان کے گناہوں کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے تو ان کا ردعمل کیا ہوتا ہے؟
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہم نے مختلف افراد سے بات کی، جو 2005ء کے زلزلے، 2010ء کے سیلاب، کورونا وبا یا حالیہ سیلاب میں بطور امدادی کارکن کام کرتے رہے۔ کم و بیش ان سب کا کہنا تھا کہ لوگ واقعی خود کو گناہ گار سمجھنے لگتے ہیں اور ایک طرح سے ان کے اندر احساس گناہ جاگ اٹھتا ہے، جو ہنگامی صورتحال کے خاتمے کے بعد بھی انہیں اندر ہی اندر ڈستا رہتا ہے۔
”رنگ تماشہ" سے خوشیوں کے رنگ بکھرینے والے فنکار شرجیل بلوچ کہتے ہیں، ”ہمارے لوگوں کی ذہنی سطح ایسی بلند نہیں کہ وہ اسے تنقیدی نگاہ سے دیکھ سکیں۔ ان کے پاس سائنسی علم نہیں کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کو جان سکیں، سو وہ خود کو مجرم محسوس کرتے ہیں۔ جب ہم انہیں سائنسی وجوہات سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں ہماری باتیں عجیب و غریب لگتی ہیں۔"
مگر راجن پور کے ایک قصبے داجل سے تعلق رکھنے والی نسرین بی بی ایسے متاثرین میں سے نہیں۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے انگلش لٹریچر میں ماسٹرز کرنے کے بعد اب وہ ایک سکول ٹیچر ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ”میرے لیے ایسے بیانات حیران کن نہیں افسوس ناک ہیں۔ اس سے بڑی بے حسی کیا ہو گی کہ ایک طرف لوگ مر رہے ہیں دوسری طرف وکٹم بلیمنگ کی جا رہی ہے۔"
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پاکستان کے دورے پر
ان کے بقول، ”مزدورں کے گھر ملبے کا ڈھیر بن گئے جبکہ بڑے بڑے سرداروں کی بلند و بالا عمارتیں اسی طرح لش پش کھڑی ہیں۔ کیا سارے گناہ کچے گھروں اور جھونپڑیوں میں ہوتے ہیں؟ کیا اسلام آباد، کراچی اور لاہور کے پوش علاقوں میں بیٹھے معززین کے دامن صاف ہیں؟ یہ اپنی نااہلیوں اور ناقص انتظامات کا ملبہ بھی غریب پر ڈالنا چاہتے ہیں۔"
سائنسی طرز فکر کی ضرورت
پچیس سے زائد کتابوں کے مصنف اور سماجی علوم کے ماہر ڈاکٹر سید جعفر احمد اس نقطہ نظر کو پسے ہوئے اور عام طبقات کے خلاف ریاست اور مذہب کے گٹھ جوڑ سے تعبیر کرتے ہیں۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ”انسانی تاریخ کے مطالعے سے واضح ہے کہ طاقتور طبقہ مذہبی نمائندوں کو اپنی بالادستی قائم کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔ دنیا کی بیشتر قومیں سائنسی علوم کی وجہ سے ایسے توہمات سے نکل چکی ہیں۔ اب وہ جانتی ہیں کہ زلزلے اور سیلاب موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب آتے ہیں، یہاں تک کہ انہوں نے اس سے بچاؤ کے مختلف طریقے بھی اپنا لیے مگر ہمارے جیسے معاشرے اب بھی غیر سائنسی طرز فکر میں پھنسے ہیں۔"
کیا امداد پاکستانی سیلاب متاثرین تک پہنچ رہی ہے؟
شرجیل بلوچ اسے کسی شعوری کاوش کے بجائے صدیوں سے چلتے معاشرتی عوامل سے جوڑتے ہیں۔ مگر ڈاکٹر جعفر احمد کا نقطہ نظر مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں، ”طاقت ور طبقات جان بوجھ کر ایسی مابعدالطبیعیاتی موشگافیوں میں الجھاتے ہیں۔ اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ عوام ان کی ناقص پالیسیوں اور انتطامات پر سوال اٹھانے کے بجائے خود کو ہی مجرم سمجھنے لگتے ہیں اور یہ چیز بطور سماج نہ صرف ہمارے فکری بلکہ مادی افلاس کا بھی سبب ہے۔"
وہ کہتے ہیں، ”ایسے مسائل کا حل سائنسی طرز فکر میں پوشیدہ ہے۔ اگر سائنسی طرز فکر ہماری زندگی اور رویوں کا حصہ بنے گا تو ہم قدرتی آفات کی نہ صرف بہتر تفہیم کر سکیں گے بلکہ ان کے سدباب کے لیے بہتر منصوبہ بندی اور عمدہ انتظامات کر سکنے کے قابل ہوں گے۔‘‘