قدرتی ہیروں کا مقابلہ اب لیبارٹری میں بنائے گئے ہیروں سے
20 فروری 2024
بہت قیمتی پتھروں کے طور پر کان کنی کر کے نکالے جانے والے قدرتی ہیروں کی مانگ میں کمی ہو رہی ہے۔ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ایسا لیبارٹری میں تیار کردہ ہیروں کے باعث ہو رہا ہے، جن کی طلب بڑھتی جا رہی ہے۔
اشتہار
کیا آپ نے کبھی کوئی ہیرا غور سے دیکھا ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ آیا وہ قیمتی پتھر واقعی کوئی قدرتی ہیرا تھا؟
یہ عین ممکن ہے کہ کوئی عام انسان قدرتی ہیرے اور لیبارٹری میں تیار کردہ ہیرے میں فرق نہ کر پائے کیونکہ کان کنی کے ذریعے حاصل کیے جانے والے اربوں سال پرانے ہیرے اور لیبارٹری میں تیار کیے جانے والے ہیرے دیکھنے میں دونوں ایک جیسے ہی لگتے ہیں۔ لیکن ان میں ایک بہت بڑا فرق قیمت کا ہوتا ہے۔
لیبارٹری میں تیار کیے گئے ہیروں کی قیمت قدرتی ہیروں کی قیمت کے نصف سے بھی کم ہوتی ہے۔ اسی لیے اب لیبارٹری میں مصنوعی طور پر تیار کیے گئے ہیرے عالمی سطح پر ایسے بیش قیمت پتھروں کی مارکیٹ میں تبدیلی کا باعث بن رہے ہیں۔
یہ تبدیلی بالخصوص بھارت کے شہر سورت میں دیکھی جا سکتی ہے، جہاں دنیا کے 90 فیصد ہیروں کو تراش خراش اور پالش کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔
بھارتی ریاست گجرات کے شہر سورت میں واقع 'گرین لیب ڈائمنڈز‘ نامی لیبارٹری میں بھی ری ایکٹرز میں ہیرے تیار کیے جاتے ہیں۔ ان ری ایکٹرز میں ہوا کا دباؤ ویسا ہی ہوتا ہے جیسا ہیروں کی زیر زمین کانوں میں۔
گرین لیب ڈائمنڈز کے ڈائریکٹر سمِیت پٹیل کا ماننا ہے کہ لیبارٹری میں ان قیمتی پتھروں کا بنایا جانا ہی ہیروں کی صنعت کا مستقبل ہے۔
سمِیت پٹیل کی ٹیم کو ایک ہیرا بنانے میں آٹھ ہفتے سے کم کا وقت لگتا ہے، اور ان کے تیار کردہ ہیروں اور قدرتی ہیروں میں فرق کرنا مشکل ہوتا ہے۔ پٹیل کے بقول، ''یہ ایک ہی چیز ہے، ایک ہی کیمیکل (سے بنے ہوتے ہیں) اور ان کی بصری خصوصیات بھی ایک جیسی ہی ہوتی ہیں۔‘‘
اشتہار
قدرتی ہیروں کی کم ہوتی ہوئی مانگ
تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 2019ء اور 2022ء کے درمیان قیمت کے لحاظ سے بھارت سے لیبارٹری میں تیار کردہ ہیروں کی برآمد میں تین گنا اضافہ ہوا۔ پچھلے سال اپریل اور اکتوبر کے درمیان تو ایسے ہیروں کی برآمدات کے حجم میں 25 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔
اس حوالے سے تجزیہ کار پال زمنسکی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ قیمت کے لحاظ سے عالمی منڈی میں لیبارٹری میں تیار کردہ ایسے جواہرات کا شیئر 2018ء میں 3.5 فیصد تھا، جو 2023ء میں بڑھ کر 18.5 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔ ان کے مطابق اس سال یہ شرح ممکنہ طور پر 20 فیصد سے بھی تجاوز کر جائے گی۔
اس پیش رفت کا قدرتی ہیروں کی مارکیٹ پر منفی اثر پڑے گا، جس کو پہلے ہی سیاسی وجوہات کے باعث مشکلات کا سامنا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی دیکھا گیا کہ قدرتی ہیروں کی مانگ میں بھی کمی ہوئی ہے۔
ہیروں کی صنعت کے تجزیہ کار ایڈان گولان کے مطابق پچھلے سال فروری میں امریکہ میں منگنی کے موقع پر پہنائی جانے والی ہیروں کی جتنی بھی انگوٹھیاں فروخت ہوئیں، ان میں سے 17 فیصد میں لیبارٹری میں تیار کردہ ہیرے جڑے ہوئے تھے۔ ان کا اندازہ ہے کہ اب یہ شرح بڑھ کر 36 فیصد ہو چکی ہو گی۔
اسی طرح بھارت کی 'جیم اینڈ جیولری ایکسپورٹ پروموشن کونسل‘ کے مطابق گزشتہ برس اپریل اور اکتوبر کے درمیان ملک سے برآمد کیے گئے اور لیبارٹری میں تیار کردہ ہیروں کا وزن 4.04 ملین قیراط تھا۔ اس کے مقابلے میں اسی عرصے میں بھارت سے برآمد کیے گئے قدرتی ہیروں کا مجموعی وزن 11.3 ملین قیراط رہا تھا۔
ہیروں سے متعلق اہم اور دلچسپ حقائق
ہیرے دولت اور خوبصورتی کے ساتھ ساتھ لافانیت اور طاقت کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ صدیوں سے مسحور کن اور چمکتے ہوئے یہ ہیرے حقیقت میں کوئلے اور بلیک کاربن (گریفائٹ) کا مجموعہ ہیں، جو زمین کے اندرونی حصے میں بنتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sotheby's
ہیرے کیسے بنے؟
ہیرے لاکھوں سال پہلے زمین کے بیرونی خول سے سینکڑوں کلومیٹر نیچے اندرونی پرتوں میں بنے تھے۔ سخت زمینی دباؤ اور انتہائی درجہ حرارت کاربن کے ایٹموں کو ٹھوس کرسٹل کی شکل فراہم کرتے ہیں اور اس طرح خام ہیرے تیار ہوتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آتش فشاں ہیرے بھی اگلتے ہیں
آتش فشاں پھٹتے ہیں تو یہ خام ہیرے زمین کی بالائی سطح تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہیروں کو آتش فشاں کی چٹانوں میں تلاش کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sotheby's/D. Bowers
جوہرات: جتنا نایاب، اتنا زیادہ مہنگا
ہیرے دیگر جواہرات کی طرح ہی ہیں لیکن یہ ایسی نایاب معدنیات ہے، جس کا رنگ، خالص پن، شفافیت اور مضبوطی اسے دوسروں سے ممتاز بناتی ہے۔ ہر قسم کا قیمتی ہیرا ایک خاص کیمیائی ساخت پر مبنی ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہیروں کی قیمت
ہیرے کے رنگ کے ساتھ ساتھ اسے تراشنے کا عمل اسے مزید منفرد بنا دیتا ہے۔ ہیرا جتنا نایاب ہو گا، اس کی قیمت اتنی ہی زیادہ ہو گی۔ ایک ہیرے کی قیمت اس کی شفافیت، رنگ، تراش اور قیراط طے کرتے ہیں۔
تصویر: DW/A. André
وزن کی اکائی قیراط
ایک ہیرے کے وزن کی پیمائش قیراط میں کی جاتی ہے۔ قدیم زمانے میں ایک قیراط خروب نامی درخت کی خشک پھلیوں کے ایک بیج کا وزن تھا۔ بحیرہ روم کے اس سدا بہار درخت کے بیجوں کو صراف وزن کی اکائی کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ اس درخت کے بیچوں کی ساخت تقریباﹰ ایک جیسی ہی ہوتی ہے اور ایک کا وزن تقریبا دو سو ملی گرام ہوتا ہے۔ یعنی ایک قیراط 0,2 گرام کے برابر ہے۔
تصویر: Reuters/D. Balibouse
'بلڈ ڈائمنڈز‘ کی تجارت
سب سے زیادہ ہیرے نکالنے والے ممالک میں روس، بوٹسوانا، کانگو، آسٹریلیا اور کینیڈا شامل ہیں۔ ہیروں کی غیر قانونی تجارت بھی کی جاتی ہے۔ آسان لفظوں میں 'بلڈ ڈائمنڈز‘ ان ہیروں کو قرار دیا جاتا ہے، جو افریقہ کے جنگ زدہ علاقوں سے اسمگل کیے جاتے ہیں اور ان کی کمائی سے باغی گروپ اپنے تنظیموں کو چلاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
'بلڈ ڈائمنڈز‘ پر پابندی
سن دو ہزار تین کے کمبرلے عدالتی فیصلے میں ایسے ہیروں کی بین الاقوامی تجارت پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اب ہر ہیرے کی قانونی حیثیت ایک سند سے ثابت کی جاتی ہے کہ یہ کس علاقے سے ہے اور کس کمپنی نے نکالا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
ہیروں کا استعمال
ہیرے سائنس کے لیے بھی انتہائی دلچسپ ہیں کیوں کہ یہ دنیا کا سخت ترین میٹریل ہیں۔ ایک ہیرا آسانی سے ماربل یا گرینائٹ کو کاٹ دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈرل یا پھر کاٹنے کی مشینوں میں ان کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر طب میں بھی 'ڈائمنڈ ڈرل‘ کا استعمال ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Keystone/M. Trezzini
مصنوعی ہیروں کا کاروبار
اس مقصد کے لیے اصلی ہیروں کا استعمال بہت ہی مہنگا پڑتا ہے، لہذا صنعتی سطح پر تیار کردہ مصنوعی ہیرے استعمال کیے جاتے ہیں۔ حال ہی میں جرمن شہر فرائی برگ کے سائنسدانوں نے ایک ایسا طریقہ ایجاد کیا تھا، جس کے تحت مصنوعی ہیرے بڑی تعداد میں اور کم وقت میں تیار کیے جا سکتے ہیں۔ تاہم ان ہیروں کی تیاری کا مقصد زیورات کی بجائے صنعتی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔
تصویر: CC BY-SA 3.0/Stapanov Alexander
نیپچون پر ہیروں کی بارش
سن دو ہزار سترہ میں سائنسدانوں نے پہلی مرتبہ تجرباتی سطح پر یہ ثابت کیا تھا کہ نیپچون پر ہیروں کی بارش ہوتی ہے۔ ہمارے نظامِ شمسی میں نیپچون آٹھواں اور سورج سے بعید ترین سیارہ ہے۔ سائنسدانون کے مطابق اس کی ٹھوس سطح کو برف نے ڈھانپ رکھا ہے۔ یہ کائناتی برف ہائیڈرو کاربن، پانی اور امونیا پر مشتمل ہے۔