ایس پی ڈی دنیا کی قدیم ترین سیاسی پارٹیوں میں سے ایک ہے۔ اس پارٹی کی طویل تاریخ میں اس پر پابندی بھی لگی اور یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہوئی لیکن اپنے موجودہ مقام تک پہنچنے کے لیے اس پارٹی نے انتہائی حوصلے کا مظاہرہ کیا۔
اشتہار
جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کو دنیا کی قدیم ترین سیاسی پارٹیوں میں سے ایک ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس پارٹی کی طویل تاریخ میں اس پر پابندی بھی لگی اور یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہوئی۔ اس پارٹی نے اپنے موجودہ مقام تک پہنچنے کے لیے انتہائی حوصلے کا مظاہرہ کیا۔
دنیا کی تقریباﹰ سبھی سیاسی جماعتیں اپنے قیام کے بارے میں روایتی قصے کہانیوں کا سہارا بھی لیتی ہیں۔ اسی طرح سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کی قدیم ترین سیاسی پارٹی ہے۔ اگر دنیا کی نہیں بھی تو کم ازکم یہ امر یقینی ہے کہ جرمنی میں جس پہلی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی گئی تھی، وہ ایس پی ڈی ہی تھی۔
جرمنی میں انتخابات کیسے ہوتے ہیں؟
01:27
تئیس مئی سن 1863 کو ایک متمول تاجر کے بیٹے فرڈینانڈ لسالے ’جنرل جرمن ورکرز ایسوسی ایشن‘ کی بنیاد رکھنے میں نمایاں شخصیت قرار دیے جاتے ہیں۔ تقریباﹰ ڈیرھ سو سال گزر جانے کے بعد اب اس میں کوئی ابہام نہیں کہ انیسویں صدی میں بننے والی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے بانی فرڈینانڈ لسالے ہی تھے۔
اس پارٹی سے زیادہ پرانی سیاسی جماعتوں میں سابق امریکی صدر ابراہام لنکن کی سیاسی جماعت ’ری پبلکن پارٹی‘ بھی ہے، جس کی بنیاد سن 1854 میں رکھی گئی تھی۔ یوں امریکی قدامت پسند ری پبلکن پارٹی عمر میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے صرف نو برس بڑی ہے۔
سوشل ڈیموکریٹ فرڈینانڈ لسالے کا پیغام تھا، ’’اگر آپ (مزدور) اپنی حالت بدلنا چاہتے ہیں، تو آپ کو ریاست کو مجبور کرنا پڑے گا کہ وہ آپ کو برابری کے مواقع فراہم کرے اور اقتصادی طور پر آپ کے حقوق محفوظ ہوں۔‘‘ یہ وہ دور تھا جب نصف شہری ناخواندہ تھے اور شفاف اور غیرجانبدار انتخابات کا کوئی وجود نہیں تھا۔
ایس پی ڈی کی مزاحمت
فرڈینانڈ لسالے نے اپنی جدوجہد کے دوران اپنی پارٹی کے پہلے پملفٹ میں لکھا تھا کہ اگر اس ایسوسی ایشن کے ممبران کی تعداد ایک لاکھ ہو جاتی ہے، تو کوئی اس تحریک کے وجود سے انکار نہیں کر سکے گا۔
وقت نے ان کے اس نظریے کو درست ثابت کیا۔ جرمن ایمپائر کے دوران سن 1871 تا 1918ء اس پارٹی کے ممبران کی تعداد ایک ملین ہوئی تو اس نے ایک عوامی تحریک کا روپ دھار لیا۔ تب الیکشن میں اس پارٹی نے ایک تہائی عوامی ووٹ حاصل کیے تھے۔
اس دور میں یہ پارٹی اتنی مضبوط ہو گئی تھی کہ نئی بننے والی متحدہ جرمن ایمپائر کے چانسلر اوٹو فان بسمارک نے ’اینٹی سوشلسٹ لاز‘ کی آڑ میں اس پارٹی پر پابندی عائد کر دی تھی۔ تب ٹریڈ یونین دوست اور سوشل ڈیموکریٹ کارکنوں کی نگرانی بھی شروع ہو گئی تھی اور متعدد کارکنوں کو ملک بدر یا ترک وطن پر مجبور بھی کر دیا گیا تھا۔
ماضی میں ایس پی ڈی کے ممتاز رہنما Erhard Eppler کے مطابق ظلم وستم کا یہی وہ دور تھا، جب جرمنی میں سوشل ڈیموکریسی کی تحریک مزید مضبوط ہوئی۔
پہلی عالمی جنگ کے بعد
پہلی عالمی جنگ کے اختتام پر پیدا ہونے والی صورتحال میں سوشلسٹ ورکرز تحریک میں دراڑیں پڑیں، تو سیاسی جدوجہد کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔ تب ایک دھڑا اصلاحات پسندی کا حامی بنا تو دوسرا انقلابی نظریات کا حامی بن گیا تھا۔
نو نومبر سن انیس سو اٹھارہ کو جب جرمنی کے امپیریل چانسلر قیصر ولہیم دوئم اقتدار سے الگ ہوئے، تو سوشل ڈیموکریٹس کے دونوں دھڑوں نے ایک نئی جمہوریہ کے قیام کا مطالبہ پیش کر دیا تھا۔ اصلاحات پسند سوشل ڈیموکریٹ Philipp Scheidemann کا کہنا تھا کہ اعتدال پسند جمہوری ریاست بننی چاہیے تو انقلابی سوچ کے حامل Karl Liebknecht کا اصرار تھا کہ ’سوشلسٹ۔ کمیونسٹ‘ جرمنی کی بنیاد رکھی جانا چاہیے۔
بیس اور تیس کی دہائیوں میں ہونے والی عالمی تبدیلیوں کے باعث ’سوشل ڈیموکریسی‘ کو ایک ناکام نظریے سے مشروط کر دیا گیا۔ تاہم تب ’وائیمار ری پبلک کے قیام میں اعتدال پسند سوشل ڈیموکریٹس کی حمایت بھی حاصل کر لی گئی تھی۔ یہ ری پبلک جرمن سرزمین پر پہلی جمہوری ریاست قرار دی جاتی ہے۔
تاہم پہلی عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کے باعث سیاسی عدم استحکام، کمزور انفراسٹکرکچر اور بے روزگاری کے باعث مسائل دوچند ہو چکے تھے۔ سن انیس سو اٹھارہ تا انیس سو تینتیس کا درمیانی عرصہ اقتصادی لحاظ سے بھی ابتری کا شکار رہا اور یوں کمزور سیاسی ادارے اڈولف ہٹلر کی نیشنل سوشلسٹ تحریک کو نہ روک سکے۔ تاہم سوشل ڈیموکریٹس نے اس وقت بھی ہٹلر کی مخالفت ہی کی تھی۔
وفاقی جمہوریہ جرمنی میں ایس پی ڈی کا کردار
دوسری عالمی جنگ کے بعد وفاقی جمہوریہ جرمنی کا قیام عمل میں آیا۔ اس دور میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی بائیں بازو کی ایک مقبول جماعت بن کر ابھری۔ تب برسر اقتدار کرسچن ڈیموکریٹک یونین نے ملک کی ترقی کی خاطر سرمایہ کارانہ اصلاحات متعارف کرائیں اور جرمنی کو ’اقتصادی معجزے‘ کی طرف بڑھایا تو ایس پی ڈی نے بھی اپنے سرمایہ کارانہ مخالف رویے میں کچھ لچک پیدا کرنا شروع کر دی۔
سن 1959 میں ’باڈ گوڈس برگ پروگرام‘ کے تحت ایس پی ڈی نے مارکیٹ اکانومی پر سمجھوتہ کر لیا۔ اس پروگرام کو ایس پی ڈی کا ایک نیا جنم بھی قرار دیا جاتا ہے۔ ایس پی ڈی کے جدید دور کے اہم رہنماؤں میں ولی برانٹ، ہیلموٹ شمٹ اور گیرہاڈر شروئڈر شامل ہیں۔ سی ڈی یو کی طرح یہ رہنما بھی یورپی اتحاد کے قائل رہے اور انہوں نے اپنی اپنی جگہ منقسم جرمنی کے اتحاد کو ممکن بنانے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔
ایس پی ڈی کی طرف سے جرمنی کے چانسلر بننے والے آخری سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان گیرہارڈ شروئڈر تھے، جنہوں نے انیس سو اٹھانوے سے سن دو ہزار پانچ تک یہ منصب سنبھالا۔ اس کے بعد سے سی ڈی یو کی رہنما انگیلا میرکل جرمنی کی چانسلر ہیں۔ اس سال چوبیس ستمبر کے وفاقی انتخابات میں ایس پی ڈی کے امیدوار مارٹن شُلس ہیں، جو انگیلا میرکل کے مد مقابل ہیں۔ عوامی جائزوں کے مطابق میرکل کو اپنے حریف سوشل ڈیموکریٹ سیاست دان پر واضح برتری حاصل ہے۔
جرمن الیکشن 2017، کب کیا ہو گا؟ ایک مختصر جائزہ
رواں برس جرمن سیاست کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اسی سال فیصلہ ہو گا کہ اگلا جرمن چانسلر کون ہو گا؟ اس مرتبہ چوبیس ستمبر کے وفاقی الیکشن میں 61.5 ملین اہل ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں گے۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
وفاقی الیکشن کا سال
کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ انگیلا میرکل چوتھی مرتبہ جرمنی کی چانسلر بننے کی دوڑ میں شامل ہیں تو دوسری طرف عوامیت پسند سیاسی پارٹی اے ایف ڈی مہاجرت کے بحران کا فائدہ اٹھا کر زیادہ سے زیادہ عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔ اس الیکشن کا نتیجہ کچھ بھی نکلے لیکن ایک بات یقینی ہے کہ سن دو ہزار سترہ کے اختتام تک جرمن سیاست کا منظر نامہ بدل جائے گا۔
تصویر: Getty Images
چھبیس مارچ، زارلینڈ کے صوبائی الیکشن
فرانس کے ساتھ متصل چھوٹے سے جرمن صوبے زارلینڈ کے عوام نے چھبیس مارچ کو اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ اکاون نشستوں پر مشتمل اس صوبے کی پارلیمان کی وزیر اعلیٰ کرسچن ڈیموکریٹ Annegret Kramp Karrenbauer ہیں۔ وہ تیسری مرتبہ بھی اس عہدے پر فائز ہونے میں کامیاب ہوئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Becker&Bredel
سات مئی، وفاقی جرمن ریاست شلیسوِگ ہولسٹائن کے الیکشن
شلیسوِگ ہولسٹائن کے الیکشن میں میرکل کی جماعت سب سے بڑی سیاسی پارٹی بن کر ابھری جبکہ اس مرتبہ اے ایف ڈی پہلی مرتبہ اس صوبے کی پارلیمان میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اس صوبے میں سکونت پذیر ڈینش شہریوں کو بھی اس الیکشن میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے۔ گزشتہ انتخابات میں 69 نشستوں پر مشتمل اس صوبے کی پارلیمان میں ایک ڈینش اقلیتی پارٹی تین نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Rehder
چودہ مئی، نارتھ رائن ویسٹ فلیا میں انتخابات میں میرکل کی غیر معمولی کامیابی
جرمنی کی مغربی ریاست نارتھ رائن ویسٹ فلیا میں چودہ مئی کے علاقائی الیکشن میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت نے میدان مار لیا۔ یہ جرمنی کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے، جہاں سترہ اعشاریہ پانچ ملین نفوس آباد ہیں۔ اس صوبے کے الیکشن وفاقی انتخابات پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ جو پارٹی اس صوبے میں اچھی کارکردگی دکھاتی ہے، اس کے وفاقی الیکشن میں کامیابی کے امکانات بھی روشن ہو جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gambarini
انیس جون، ’کون سی پارٹیاں الیکشن لڑنا چاہتی ہیں‘
وفاقی الیکشن سے ستانوے دن قبل ایسی تمام سیاسی پارٹیوں کو وفاقی ریٹرننگ آفیسر کو باقاعدہ طور پر بتانا ہوتا ہے کہ وہ الیکشن میں حصہ لینا چاہتی ہیں۔ اس مرتبہ انیس جون کی شام چھ بجے تک الیکشن میں حصہ لینے کی خواہمشند تمام پارٹیوں نے اپنی درخواستیں جمع کرا دیں۔ جرمن دفتر شماریات کے سربراہ Roderich Egeler الیکشن کی عمل کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Burgi
سات جولائی فیصلے کا دن، ’کون سی سیاسی جماعتیں اہل ہیں‘
اس مرتبہ جرمن وفاقی انتخابات سے 79 دن قبل ایسی سیاسی پارٹیوں کے ناموں کا اعلان کر دیا گیا، جو الیکشن لڑنے کی اہل ہیں۔ اگر کسی پارٹی کو وفاقی ریٹرننگ آفیسر کے اس فیصلے پر اعتراض ہوتا تو وہ چار دنوں کے اندر اندر آئینی عدالت سے رجوع کر سکتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
سترہ جولائی، امیدواروں کی فہرست کی تیاری کا آخری دن
وفاقی الیکشن سے 69 دن پہلے تمام سیاسی جماعتوں فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ ان کا کون سا امیدوار کون سے حلقے سے انتخابات میں حصہ لے گا۔ اس مرتبہ سترہ جولائی تک تمام پارٹیوں نے اس تناظر میں اپنی فہرستیں الیکشن حکام کے حوالے کر دیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
ستائیس جولائی، آئینی عدالت کے فیصلے کا دن
وفاقی ریٹرننگ آفیسر نے اگر کسی چھوٹی سیاسی پارٹی کو الیکشن میں حصہ لینے سے روکا تھا اور اس نے آئینی عدالت سے رجوع کیا تھا تو ستائیس جولائی کو جرمنی کی آئینی عدالت فیصلہ سنانا تھا کہ وہ پارٹی انتخابات میں حصہ لینے کی اہل ہے یا نہیں۔ تاہم اس مرتبہ کسی پارٹی الیکشن میں حصہ لینے سے نہیں روکا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Steinberg
تیرہ اگست، انتخابی مہم کے باقاعدہ آغاز کا دن
جرمنی میں سیاسی پارٹیاں اپنی انتخابی مہموں کا آغاز صرف تبھی کر سکتی ہیں جب الیکشن کی تاریخ میں چھ ہفتوں سے ایک دم کم رہ جائے۔ کئی ممالک میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔ جرمنی میں اس مرتبہ تیرہ اگست سے سیاسی پارٹیوں نے باقاعدہ طور پر اپنی اپنی انتخابی مہموں کا آغاز کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
بیس اگست، کون ووٹ ڈالنے کا اہل ہے؟
جرمنی میں وفاقی الیکشن سے قریب ایک ماہ قبل ووٹر لسٹ تیار کر لی جاتی ہے۔ جرمنی میں اٹھارہ برس یا اس سے زائد عمر کا ہر شہری جنرل الیکشن میں ووٹ ڈالنے کا اہل ہوتا ہے۔ یوں جرمنی میں اہل ووٹرز کی تعداد تقریبا 61.5 ملین بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K.-D. Gabbert
تین ستمبر، الیکشن سے تین ہفتے قبل
جرمنی میں وفاقی الیکشن سے تین ہفتے قبل تمام ووٹرز کو بذریعہ ڈاک مطلع کر دیا جاتا ہے کہ وہ ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ ایسے شہری جنہوں نے ابھی تک اپنا اندارج نہیں کرایا، وہ اس موقع پر ووٹر لسٹ میں اپنا نام درج کرانے کی درخواست کر سکتے ہیں۔ اسی دوران ایسے ووٹر جو ڈاک کے ذریعے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا چاہتے ہیں، انہیں بھی الیکشن حکام کو مطلع کرنا ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/R. Goldmann
اٹھارہ ستمبر، ووٹنگ کے عمل کی تیاری شروع
الیکشن سے ایک ہفتہ قبل بیلٹ پیپرز کی تقسیم، پولنگ بوتھوں کے قیام اور دیگرسازوسامان کے حوالے سے کام میں تیزی آ جاتی ہے۔ تربیت یافتہ عملہ ان تمام کاموں کی نگرانی کرتا ہے۔ اسی دوران مقامی انتظامیہ کو ووٹرز کو مطلع کرنا ہوتا ہے کہ انہیں ووٹ ڈالنے کے لیے کس مقام پر پہنچنا ہے۔ پولنگ کے 36 گھنٹے قبل تک شہریوں کو حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ ووٹر لسٹ میں اپنا نام درج کرا لیں۔
تصویر: picture-alliance/R. Goldmann
چوبیس ستمبر، ووٹنگ کا دن
اس برس چوبیس ستمبر کے دن جرمنی میں وفاقی انتخابات کے سلسلے میں پولنگ کی جائے گی۔ اس دن اسکول، کمیونٹی سینٹرز اور بڑے بڑے ہالوں کے علاوہ دیگر کئی مقامات کو بھی پولنگ اسٹیشنوں میں بدل دیا جائے گا۔ پولنگ کا یہ عمل صبح آٹھ بجے تا شام چھ بجے جاری رہے گا۔ اسی رات ہی الیکشن کے غیر حتمی نتائج کا اعلان کر دیا جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پچیس ستمبر، خوشیاں اور غم
الیکشن حکام کی طرف سے تمام ووٹوں کی حتمی گنتی کے بعد الیکشن کے اگلے دن ہی باضابطہ سرکاری نتائج کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس موقع پر کامیابی حاصل کرنے والی سیاسی جماعتیں خوشیاں مناتی ہیں جبکہ شکست خوردہ کچھ افسردہ ہو جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
چوبیس اکتوبر، نئی جرمن پارلیمان کا اجلاس
جرمنی میں نئی منتخب پارلیمان کا پہلا اجلاس الیکشن کے دن کے ایک ماہ کے اندر اندر ہونا ہوتا ہے۔ اس مرتبہ نئی پارلیمان کا اجلاس چوبیس اکتوبر سے قبل ہی منعقد کیا جائے گا۔ اس کے بعد پھر حکومت سازی کا عمل شروع ہوتا ہے۔ مختلف سیاسی پارٹیاں اتحاد کی خاطر مذاکرات شروع کرتی ہیں اور اس عمل کے مکمل ہونے کے بعد ممبر پارلیمان چانسلر کے عہدے کے لیے خفیہ طور پر رائے شماری کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
چوبیس نومبر، اگر کوئی شکایت ہے تو؟
جرمنی میں اگر کسی پارٹی نے الیکشن کے نتائج کو چیلنج کرنا ہوتا ہے تو اس کے لیے دو ماہ کا وقت ہوتا ہے۔ اس مرتبہ ایسی کسی شکایت کو چوبیس نومبر سے قبل ہی درج کرانا ہو گا۔ جرمن وفاقی صدر، سیاسی پارٹیوں، الیکشن کمشنر (تصویر میں دیکھے جا سکتے ہیں) یا کوئی بھی ووٹر انتخابات کے نتائج کو چیلنج کر سکتا ہے۔