1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قدیم شاہراہ ریشم، مال کے بدلے مال کا طریقہ آج بھی رائج

عنبرین فاطمہ/ نیوز ایجنسیاں
8 فروری 2018

شاہراہ ریشم پر ارشاد پاس سطح سمندر سے 16300 فٹ بلندی پر واقع ایک قدیم گزرگاہ ہے جو صدیوں سے پاکستان کے شمال میں واقع وادی ہنزہ کو کوہ قراقرم کے راستے افغانستان کے علاقے واخان سے ملاتی ہے۔

Bildergalerie Afghanistan Bamyan Skiing
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hossaini

قدیم شاہراہ ریشم کا یہ راستہ صدیوں سے تجارت کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کی برف پوش پہاڑی راستے پر افضل بیگ نامی تاجر کا گھوڑا آگے بڑھنے میں کا نام نہیں لے رہا۔ یہاں کی ایک تنگ گزرگاہ میں پڑنے والا ایک بھی غلط قدم آپ کو ہزاروں فٹ گہرائی میں لے جا سکتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ افضل کہتے ہیں کہ یہ ناقابل بھروسہ راستہ ہے جو کسی بھی وقت دھوکہ دے سکتا ہے۔

خبر رساں ادارے ای ایف پی سے بات کرتے ہوئے افضل بتاتے ہیں کہ وہ افغانستان کے ’واخی قبیلے‘ کے افراد سے ملاقات کی غرض سے جا رہے ہیں جن کے ساتھ وہ اپنے ساتھ لائے ہوئے سامان کے بدلے یاک اور مویشیوں کا لین دین کریں گے۔  ان کے مطابق اس راستے کو بہت کم استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے راستے میں جگہ جگہ گھاٹیوں میں ہڈیاں اور  ڈھانچے بکھرے نظر آتے ہیں جو افضل بیگ کے مطابق یہاں مختلف حادثات میں لقمہ اجل بن جانے والوں کی باقیات ہیں۔ 

تصویر: picture alliance/Michael Runkel/Robert Harding

واخان میں افضل بیگ جن افراد سے تجارت کی غرض سے جا رہے ہیں، ان کے پاس نقدی نام کی کوئی چیز نہیں۔ بلکہ وہاں آج بھی تجارت کا بارٹر سسٹم رائج ہے یعنی سامان کے بدلے سامان۔ اس کے لیے بنیادی کرنسی مال مویشی ہیں مثلا تین گرم ٹوپیاں، ایک بھیڑ کے بدلے یا آدھا درجن پلاسٹک کی بازو بند گھڑیوں کی قیمت دو بھیڑیں یا ایک بکری ہے۔ اسی طرح دس کلو چائے یا پانچ کلو آٹا، ایک یاک کے مساوی  ہے۔

یہاں پر ثانوی کرنسی کی حیثیت یاک کے دودھ سے نکالے گئے مکھن کو حاصل ہے جسے مردہ بکری یا بھیڑ کے پیٹ کی کھال میں محفوظ رکھا جاتا ہے۔ اس مکھن کی قیمت دوسری اشیا کے مقابلے میں زیادہ مقرر ہے یعنیٰ مکھن کے ایک پیکٹ کی قیمت سگریٹ کی دس ڈبیوں یا تین جوڑی جوتوں یا پھر چھ سے آٹھ جوڑی جُرابوں کے برابر ہے۔   افضل بیگ بتاتے ہیں کہ واخان قبیلے کے ساتھ لین دین پر مبنی تجارت صدیوں پرانی روایت ہے جو دونوں علاقوں کے ان قبائلیوں کے درمیان امن کی ضمانت بنا ہوا ہے۔

تصویر: Lonely Planet Images

 عزیز علی داد ایک سماجی ماہر بشریات ہیں جنہوں نے دنیا کے بلند ترین پہاڑی خطے، بلند ایشیا یا ہائی ایشیا کے علاقے میں بسنے والے قبائل کا مطالعہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دور حاضر میں ہونے والی یہ بارٹر ٹریڈ یا لین دین، شہراہ ریشم کے ذریعے ہونے والی تجارت کی ایک چھوٹی سی مثال ہے، ’’پرانے وقتوں میں چین، تاجکستان، افغانستان اور پاکستان کی پہاڑی سرحدوں پر بسنے والے آپس میں اسی طرح کی لین دین کرتے تھے۔ افغانستان پر روس کی چڑھائی کے بعد اکثر راستوں سے ہونے والا یہ کا کاروبار ختم ہوگیا۔ تاہم واخان اور وادی ہنزہ کے درمیان یہ رابطہ آج بھی بحال ہے۔ اور اس کی بڑی وجہ ارشاد پاس کی مشکل گزرگاہ ہے۔‘‘     

یورپ کو بھی نئی شاہراہِ ریشم تک رسائی دی جائے، موگرینی

دنئی چینی شاہراہ ریشم: سوست کے لیے موقع یا محض غبار؟

اد کہتے ہیں کہ بارڈر کے دونوں جانب سے جاری تجارتی لین دین صدیاں گزر جانے کے باعث جن وجوہات کی بنا پر اب بھی برقرار ہے ، ان میں سب سے اہم وجہ مشترکہ ثقافت، زبان اور قرابت داریاں ہیں جو ان کے اس رشتے کو اب تک برقرار رکھے ہوئے ہے۔

جدید دور کی شاہراہ ریشم

01:30

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں