قدیم مصری معبد سے ہزاروں بکروں کے حنوط شدہ سروں کی دریافت
26 مارچ 2023
ماہرین آثار قدیمہ نے قدیم مصر کے ایک معبد سے دو ہزار سے زائد بکروں کے ہزاروں برس پرانے حنوط شدہ سر دریافت کیے ہیں، جو ماضی میں رمسیس ثانی نامی فرعون کے لیے ایک قدیمی معبد میں بظاہر چڑھاوے کے طور پر پیش کیے گئے تھے۔
اشتہار
قاہرہ سے اتوار 26 مارچ کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق مصر کے محکمہ سیاحت و آثار قدیمہ نے بتایا کہ یہ تاریخی باقیات جنوبی مصر میں ابیدوس نامی اس مقام سے ملیں، جو وہاں موجود قدیم مصری دور کے معبدوں اور مقبروں کی وجہ سے پہلے ہی عالمی شہرت کا حامل ہے۔
ان آثار قدیمہ کو امریکہ میں نیو یارک یونیورسٹی کے آرکیالوجی کے ماہرین کی ایک ریسرچ ٹیم نے دریافت کیا۔
ان باقیات میں نہ صرف دو ہزار سے زائد بکروں کے حنوط شدہ سر شامل ہیں بلکہ ساتھ ہی ان میں کئی کتوں، بکریوں، گائیوں، ہرنوں اور نیولوں کے ایسے پورے کے پورے جسم بھی شامل ہیں، جو وہاں رکھے جانے سے پہلے گلنے سڑنے سے محفوظ رہنے کے لیے ممیاں بنا دیے گئے تھے۔
رمسیس ثانی کے لیے چڑھاووں کی روایت
ماہرین آثار قدیمہ کی اس امریکی ٹیم کے سربراہ سامع اسکندر نے بتایا کہ بکروں کے حنوط شدہ سروں کا ملنا ایک بار پھر اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ فرعون رمسیس ثانی کی موت کے ایک ہزار سال بعد تک بھی اس کے معبد میں اس طرح کے چڑھاوے چڑھانا ایک باقاعدہ سماجی روایت بن چکا تھا۔
رمسیس ثانی نے قدیم مصر پر تقریباﹰ سات عشروں تک حکمرانی کی تھی۔ یہ عرصہ 1304 قبل از مسیح سے لے کر 1237 قبل از مسیح تک بنتا ہے۔
آثار قدیمہ کی سپریم مصری کونسل کے سربراہ مصطفیٰ وزیری نے روئٹرز کو بتایا کہ اس نئی دریافت سے اس بارے میں مزید جاننے کا موقع بھی ملے گا کہ ہزاروں سال پہلے قدیم مصر کے لوگ رمسیس ثانی کے معبد کے بارے میں کس طرح کی سوچ اور عملی رویے رکھتے تھے۔
سولہ فٹ چوڑی دیواروں والا محل
مصطفیٰ وزیری نے بتایا کہ ابیدوس میں اسی جگہ سے محققین کو کئی طرح کے جانوروں کے حنوط شدہ جسموں کے علاوہ ایک ایسے محل کی باقیات بھی ملی ہیں، جس کی دیواریں پانچ میٹر (16 فٹ) چوڑی ہیں اور جو تقریباﹰ چار ہزار سال قبل تعمیر کیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ ان ماہرین کو ابیدوس میں اسی جگہ سے کئی مجسمے، لکھائی کے لیے استعمال ہونے والے نامیاتی پارچہ جات، قدیم درختوں کی باقیات اور چمڑے کے کپڑے اور جوتے بھی ملے ہیں۔
موجودہ مصر میں ابیدوس کا تاریخی مقام ملکی دارالحکومت قاہرہ سے تقریباﹰ 435 کلومیٹر یا 270 میل جنوب کی طرف دریائے نیل کے کنارے واقع ہے۔ یہ جگہ اپنی ان متعدد قدیمی باقیات کے لیے عالمی شہرت کی حامل ہے، جن میں ہزاروں برس پرانے معبد بھی شامل ہیں۔
انہی میں سے ایک شیٹی اول کا معبد بھی ہے۔ اس کے علاوہ ابیدوس میں کئی انتہائی قدیمی قبرستانوں کی باقیات بھی پائہ جاتی ہیں۔
م م / ع س (روئٹرز، اے ایف پی)
ازمنہ فراعین کے حنوط شدہ لاشوں والے درجنوں تابوتوں کی دریافت
مصر میں ماہرین آثار قدیمہ کو فراعین کے دور کے ایسے درجنوں تابوت ملے ہیں، جو آج بھی بہت اچھی حالت میں ہیں۔ جنوبی مصر میں تین ہزار سال سے بھی زیادہ پرانی حنوط شدہ لاشوں والے یہ تیس تابوت الاقصر میں کھدائی کے دوران ملے۔
تصویر: Reuters/M. Abd El Ghany
آثار قدیمہ کا بیش قیمت خزانہ
ہزاروں سال پرانے لکڑی کے یہ تیس تابوت اور ان میں بند حنوط شدہ انسانی لاشیں اب تک تقریباﹰ اپنی اصلی حالت میں ہیں۔ ماہرین ان قدیمی نوادرات کی دریافت کو جدید آرکیالوجی کے لیے انتہائی سنسی خیز واقعات میں سے ایک قرار دے رہے ہیں۔ مصر میں گزشتہ تقریباﹰ سوا سو سال کے دوران یہ اپنی نوعیت کی عظیم ترین دریافت ہے۔
تصویر: Reuters/M. Abd El Ghany
تین ہزار سال تک انسانی آنکھوں سے اوجھل
ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق ان میں سے پہلا تابوت زمین سے صرف ایک میٹر کی گہرائی میں دریافت ہوا اور اس کے بعد جب مزید کھدائی کی گئی، تو وہاں قریب ہی ایک قطار کی صورت میں انتیس دیگر تابوت بھی رکھے ہوئے ملے۔ قدیم انسانی تہذیب کی شاہد یہ باقیات تین ہزار سال سے بھی زیادہ عرصے تک انسانی آنکھوں سے اوجھل رہیں۔
تصویر: Reuters/M. Abd El Ghany
اگلے سال سے نمائش کے لیے میوزیم میں
یہ نوادرات جنوبی مصر میں آثار قدیمہ کے خزانوں کا عظیم مدفن سمجھے جانے والے علاقے الاقصر میں العساسیف نامی اس قدیمی قبرستان سے ملے، جہاں سے پہلے بھی بہت سے نوادرات مل چکے ہیں۔ قاہرہ حکومت کے مطابق ان نودریافت شدہ نوادرات کو 2020ء میں دوبارہ کھولے جانے والے اور زیادہ بڑے بنا دیے گئے ’گرینڈ ایجِپشن میوزیم‘ میں نمائش کے لیے رکھ دیا جائے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Desouki
تاریخی اسرار کو سمجھنے کی کوشش
مصر میں 1898ء کے بعد سے یہ پہلا موقع ہے کہ ازمنہ قدیم کے اور حنوط شدہ لاشوں والے اتنے زیادہ تابوت اکٹھے ملے ہیں، جو آج بھی حیران کن حد تک اچھی حالت میں ہیں۔ لکڑی کے یہ تابوت ایسے تیار کیے گئے تھے کہ ان کے اندر اور باہر رنگا رنگ نقش و نگار بھی بنے ہیں اور ان پر کھدائی بھی کی گئی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Abd El Ghany
بچوں، کاہن مردوں اور عورتوں کے تابوت
ہزاروں سال قبل یہ تابوت تب انتقال کر جانے والے بچوں اور سماجی طور پر مذہبی رہنماؤں یا کاہنوں کا کردار ادا کرنے والے مردوں اور عورتوں کے لیے تیار کیے گئے تھے۔ اسی لیے یہ سب تابوت ایک سائز کے نہیں ہیں۔ ان تابوتوں میں محفوظ حنوط شدہ انسانی لاشوں کا تعلق فرعونوں کے دور کے 22 ویں حکمران خاندان سے ہے، جس کا اقتدار تین ہزار سال سے بھی پہلے شروع ہو گیا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Abd El Ghany
گرینڈ ایجِپشن میوزیم
ان درجنوں نئے نوادرات کو جلد ہی گیزا کے اہرام کے قریب ’گرینڈ ایجِپشن میوزیم‘ میں منتقل کر دیا جائے گا۔ آج کل اس عجائب گھر کو شائقین کے لیے کھولنے کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ مصر میں دریائے نیل کے کنارے ’بادشاہوں کی وادی‘ کہلانے والے علاقے میں ان تابوتوں کی موجودگی کا علم ہونے کے بعد انہیں کھدائی کر کے زمین سے نکالنے میں تقریباﹰ دو ماہ لگے۔