قذافی اور مغربی خفیہ ایجنسیوں کے درمیان تعاون رہا، دستاویزات
4 ستمبر 2011ان دستاویزات کے مطابق امریکی انٹیلیجنس ایجنسی سی آئی اے اور دیگر مغربی خفیہ اداروں کے قذافی حکومت سے رابطوں کا مقصد مشتبہ دہشت گردوں کی منتقلی کے لیے تعاون اور طریقہ کار کا تعین تھا۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ان انکشافات سے اس حوالے سے نئی تفصیلات سامنے آئی ہیں کہ کس طرح مغرب نے قذافی کو دشمن سے دوست میں تبدیل کیا۔ اس کے ساتھ ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں آمریت پسند حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے حوالے سے امریکہ کے لیے ایک شرمناک مثال بھی سامنے آئی ہے۔
ایسی ہزاروں دستاویزات طرابلس میں خارجہ سکیورٹی کی ایک عمارت سے برآمد ہوئی ہیں۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ سی آئی اے کے ایجنٹوں نے طرابلس میں مستقل دفتر کے قیام کی تجویز پیش کر رکھی تھی جبکہ لیبیا کی سابق حکومت اور ان کے درمیان تعلقات تیزی سے بہتر ہو رہے تھے۔ وہ لیبیا میں اپنے ہم منصبوں سے بے تکلفی سے مخاطب ہوتے تھے اور انہیں مشورے بھی دیتے تھے۔ ایک موقع پر تو برطانیہ کے ایک خفیہ ایجنٹ نے کرسمس کے موقع پر تہنیتی پیغام بھی بھیجا۔
خیال رہے کہ ان ایجنسیوں کے درمیان کسی حد تک تعاون تو کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، لیکن نئی تفصیلات نے کہیں وسیع تر تعاون پر سے پردہ اٹھایا ہے۔ مغربی ایجنسیاں بعض مشتبہ دہشت گردوں سے تفتیش کے لیے سوالات کی فہرست بھی دیا کرتی تھیں۔ یہ خیال بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ وہ قذافی کی تقریر کے لیے متن بھی فراہم کرتی تھیں۔
ان دستاویزات تک پہنچنے میں انسانی حقوق کے عالمی ادارے ہیومن رائٹس واچ نے مدد کی ہے، جس کے Peter Bouckaert نے قذافی حکومت اور واشنگٹن کے درمیان تعاون کو امریکہ کی انٹیلیجنس تاریخ کا ایک تاریک باب قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے: ’’امریکی انٹیلیجنس سروسز پر یہ ایک داغ ہے کہ انہوں نے لوگوں کے ساتھ بدترین سلوک کرنے والے ایسے خفیہ اداروں کے ساتھ رابطے رکھے۔‘‘
ان دستاویزات میں تقریباﹰ نصف درجن لوگوں کے نام بھی درج ہیں، جو ان ایجنسیوں کے مابین تعاون کے نتیجے میں ہونے والی کارروائیوں کا نشانہ بنے۔ ان میں طرابلس کے نئے عسکری کمانڈر عبدالحکیم بلحاج بھی شامل ہیں۔
رپورٹ: ندیم گِل / اے پی
ادارت: امجد علی