قذافی کا دارالحکومت چھوڑنے پر غور
24 جون 2011لیبیا کے باغیوں نے اپنے غیر ملکی حامیوں سے درخواست کی ہے کہ انہیں فوری طور پر ہتھیار فراہم کیے جائیں، جبکہ نیٹو کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ لیبیا پر جاری فضائی حملے موقوف نہیں کیے جائیں گے۔
امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی جمعہ 24 جون کی اشاعت میں ایک امریکی سکیورٹی اہلکار کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ قذافی بموں کی زَد میں آئے ہوئے دارالحکومت طرابلس میں اب خود کو محفوظ نہیں سمجھتے۔ تاہم اس اہلکار کے مطابق خفیہ ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ قذافی فوری طور پر طرابلس چھوڑنے کا منصوبہ رکھتے ہوں۔ اس اہلکار کے مطابق اس بات کے بھی ابھی تک کوئی شواہد نہیں ہیں کہ قذافی لیبیا چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ معمر قذافی کی طرابلس کے علاوہ دیگر کئی شہروں میں بھی محفوظ پنا گاہیں ہیں، جہاں وہ کسی بھی وقت منتقل ہو سکتے ہیں۔
دوسری طرف باغیوں کے ترجمان محمد شمام نے فرانسیسی اخبار ’لا فگارو‘ Le Figaro سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ باغیوں کا حکومت کے ساتھ بالواسطہ رابطہ ہے اور اگر قذافی اور ان کا خاندان اقتدار چھوڑنے پر رضامند ہوتا ہے تو وہ قذافی کو لیبیا میں ہی رہنے کی اجازت دے سکتے ہیں:’’ ہماری شرائط ابھی تک وہی ہیں۔ اس بات پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا کہ قذافی یا ان کا خاندان مستقبل کی حکومت میں شامل رہیں۔ ہم ان کے ساتھ قذافی کے اقتدار چھوڑنے کے طریقہ کار پر گفتگو کر رہے ہیں۔‘‘
اس کے برعکس باغیوں کے مرکز بن غازی میں قومی عبوری کونسل کے ڈپٹی چیئرمین عبدالحفیظ غوقہ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے:’’ہمارا قذافی حکومت کے ساتھ براہ راست یا بالواسطہ کسی طرح کا رابطہ نہیں ہے۔‘‘
ادھر قذافی کی طرف سے جنگ میں ڈٹے رہنے کے اعلان کے بعد برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے جمعرات کے روز ایک مرتبہ پھر کہا کہ وقت قذافی کے ہاتھ سے نکلا چلا جا رہا ہے۔ چیک ری پبلک کے دارالحکومت پراگ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ڈیوڈ کیمرون کا کہنا تھا:’’ وقت ہماری طرف ہے، نہ کہ قذافی کی طرف جو اپنے اہم کمانڈرز کھوتے جا رہے ہیں۔‘‘ برطانوی وزیراعظم کا مزید کہنا تھا: ’’وقت کی ریت قذافی کے ہاتھ سے پھسلتی جا رہی ہے، لہٰذا ہمیں اپنی کاررائیوں میں مستقل مزاج رہنا ہوگا۔‘‘
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: امجد علی