قذافی کے اہل خانہ کی تدفين سے قبل مصراتہ پر نيا حملہ
2 مئی 2011خبر ايجينسی اے ايف پی کے نامہ نگاروں نے ليبيا کے اس تيسرے بڑے شہر ميں آج صبح کافی دير تک بھاری گولہ باری کی آوازيں سنيں۔ قذافی کی فوج کے ٹينکوں نے شہر کے مغربی مضافاتی علاقوں ميں پيش قدمی کی۔
ميڈيکل اسٹاف کا کہنا ہے کہ آج کی لڑائی ميں کم از کم چار افراد ہلاک اور تقريباً 30 زخمی ہو گئے۔ کل شب ہونے والی جھڑپوں ميں چھ افراد ہلاک اور کئی درجن زخمی ہوئے تھے۔ ايک باغی کمانڈر نے اے ايف پی کو بتايا کہ سرکاری فوج کے ٹينکوں کو آگے بڑھنے سے روک ديا گيا ہے۔
اے ايف پی کے نمائندے کے مطابق آج صبح نيٹو کے ايک طيارے نے دوگھنٹوں سے زيادہ تک مصراتہ پر پروازکی، ليکن کوئی فضائی حملہ نہيں ہوا۔ ايک شہری نے کہا: ’’نيٹو کو ہماری مدد کرنا چاہيے۔ آخر وہ انتظار کيوں کر رہے ہيں۔‘‘
چھ ہفتوں سے زيادہ عرصے سے جاری مصراتہ جنگ ميں پچھلے دنوں کے برعکس يہ بات کہنے والے اس شخص نے اپنا نام نہيں بتايا، جسے اس بات کی علامت سمجھا جا سکتا ہے کہ قذافی کی فوج کے شہر پر دوبارہ قبضہ کر لينے کا امکان موجود ہے۔
مغربی ليبيا ميں باغيوں کا آخری گڑھ مصراتہ قذافی کی حامی فوج کے گھيرے ميں ہے اور اس کا انحصار مکمل طور پر سمندر کے راستے آنے والی اشياء پر ہے۔
اُدھر ليبيا کے دارالحکومت طرابلس ميں سہ پہر کے وقت قذافی کے دوسرے سب سے کم عمربيٹے سيف العرب اور تين پوتے پوتيوں کی تدفين کی تيارياں جاری تھيں۔ کل صبح حکومتی ترجمان موسیٰ ابراہيم نے اطلاع دی تھی کہ نيٹو کے فضائی حملے ميں قذافی کا 29 سالہ بيٹا اور تين پوتے پوتياں ہلاک ہو گئے تھے۔ ان ميں سے ايک دو سال کا لڑکا، ايک دو سالہ لڑکی اور ايک چار ماہ کی بچی تھی۔
طرابلس ميں مظاہرين نے احتجاج کے طور پر برطانوی اور اطالوی سفارتکاروں کے خالی مکانات کو آگ لگانے کی کوشش کی، جس کے بعد برطانيہ نے ليبيا کے سفير کو ملک بدر کرديا اور ترکی نے ليبيا ميں اپنا سفارتخانہ عارضی طور پر بند کرديا ہے۔ اطالوی حکومت کے نيٹو کی قيادت ميں فضائی حملوں ميں شرکت کرنے کے فيصلے کے بعد، قذافی نے ’جنگ اٹلی تک پہنچا دينے‘ کی دھمکی دی ہے۔ اس کے بعد سے اٹلی ميں سکيورٹی بہت سخت کر دی گئی ہے۔
چين نے ايک بار پھر ليبيا ميں جنگ بند کرنے اور بات چيت کے ذريعے سياسی حل تلاش کرنے کا مطالبہ کيا ہے۔ چينی حکومت نے کہا ہے کہ چين نے شروع ہی سے ايسے تمام اقدامات کی مخالفت کی ہے جن ميں اقوام متحدہ کی قرارداد کی حدود سے تجاوز کيا گيا ہو۔
رپورٹ: شہاب احمد صديقی
ادارت: مقبول ملک