1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قذافی کے بعد لیبیا کیسا ہو گا، باغیوں کا منصوبہ

8 اگست 2011

معمر قذافی کا اقتدار ختم ہونے پر باغی موجودہ حکومتی نظام کا بیشتر حصہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ بات باغیوں کے جانب سے قذافی حکومت کے بعد کے لیبیا کے بارے میں ترتیب دیے گئے منصوبے میں سامنے آئی ہے۔

تصویر: DW

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے برطانوی روزنامہ ’لندن ٹائمز‘ میں پیر کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ لیبیا کے باغیوں کی قومی عبوری کونسل ( این ٹی سی) کے اس منصوبے کی دستاویز ستّر صفحات پر مشتمل ہے۔ اسے طے کرنے میں انہیں مغربی طاقتوں کی مدد حاصل رہی ہے۔

اس منصوبے کی دستاویز لندن ٹائمز کو دستیاب ہوئی ہے۔ اس میں باغیوں نے تسلیم کیا ہے کہ ان کی جانب سے قذافی کو اقتدار سے بے دخل کر پانے کا امکان بہت کم ہے تاہم اندرونی نااتفاقیاں قذافی کو حکومت چھوڑنے پر مجبور کر دیں گی۔

ایسے وقت کے لیے باغیوں نے دس ہزار سے پندرہ ہزار تک نفری کی ’طرابلس ٹاسک فورس‘ تشکیل دینے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، جو دارالحکومت کا کنٹرول سنبھالے گی اور قذافی کے معروف حامیوں کو حراست میں بھی لے گی۔

باغی پندرہ ہزار تک نفری کی ’طرابلس ٹاسک فورس‘ تشکیل دینے کا ارادہ رکھتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

اس منصوبے کے مطابق تقریباﹰ پانچ ہزار پولیس اہلکار عبوری حکومت کی سکیورٹی فورسز کے لیے بھرتی کیے جائیں گے۔ باغیوں کا دعویٰ ہے کہ قذافی حکومت کے آٹھ سو موجودہ اہلکار پہلے ہی ان کے ساتھ شامل ہیں۔

اس دستاویز میں قذافی کا اقتدار ختم ہونے کے فوری بعد کے حالات میں ٹیلی مواصلات، بجلی اور ٹرانسپورٹ کے نظام کو قابو میں رکھنے کا لائحہ عمل بھی بیان کیا گیا ہے۔

باغیوں نے یہ اندازہ بھی ظاہر کیا ہے کہ قذافی حکومت میں شامل ستّر فیصد اعلیٰ اہلکار نئی حکومت میں شامل ہونا چاہیں گے۔

این ٹی سی نے لندن ٹائمز میں شائع ہونے والی رپورٹ کی تصدیق ہے۔ تاہم انہوں نے اس اخبار سے بعض اہم معلومات شائع نہ کرنے کی بھی درخواست کی، جن کے سامنے آنے پر لیبیا میں جاری آپریشن پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔

باغیوں نے یہ منصوبہ اس امید میں ترتیب دیا ہے کہ لیبیا کو عراق جیسے حالات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے

ادارت: عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں