1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

Libyen Gaddafi

26 فروری 2011

لیبیا میں زبردست عوامی مظاہروں اور سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے باعث یوں لگتا ہے کہ وہاں گزشتہ چار دہائیوں سے برسراقتدار معمر قذافی کی حکومت اب اپنے خاتمے کے قریب ہے۔

تصویر: picture alliance / dpa

مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تیل اور گیس کی دولت سے مالامال ملک کا مستقبل کیا ہو گا؟ سب سے پہلے اپوزیشن کے لیے انتہائی غیر اخلاقی الفاظ کا استعمال انہیں ’چوہے اور کیڑے‘ تک قرار دینا، پھر اگلے ہی دن لہجے میں نمایاں تبدیلی اور ٹیلی فون کے ذریعے سرکاری ٹی وی چینل پر عوام کو یہ پیغام کہ وہ اپنے بچوں کو گھروں سے باہر نہ نکلنے دیں کیونکہ مظاہروں میں شریک لوگ القاعدہ اور اسامہ بن لادن کے آلہءکار ہیں۔ پھر طرابلس کے گرین چوک میں مظاہرین کی سرکوبی کے لیے اپنے حامیوں میں سرکاری اسلحہ تقسیم کرنے کی بات۔

ان تمام بیانات سے یہ بات تو واضح ہے کہ معمر قذافی اور ان کی حامی سکیورٹی فورسز کس قدر دباؤ کا شکار ہیں اور ان کے خلاف ہونے والے مظاہروں کی نوعیت کس قدر شدید ہے۔ مگر یہ بات طے کرنا انتہائی مشکل ہے کہ اس جدوجہد کی منزل کیا ہو گی، یعنی قذافی نے اقتدار چھوڑ دیا، تو لیبیا کا مستقبل کیا ہو گا۔ قذافی کے رویے کی طرح یہ تمام سوالات کئی طرح کے ابہام میں گھرے ہیں۔

معمر قذافی اور ان کی حامی سکیورٹی فورسز شدید دباؤ کا شکار ہیںتصویر: AP

مگر ایک بات واضح ہے اور وہ یہ کہ اگر لیبیا تقسیم سے بچ گیا، تو ایک نئے لیبیا کے سامنے آنے تک قذافی کا بچنا ممکن نہیں ہو گا۔ نہ تو وہ فرار ہو پائیں گے اور نہ ہی انہیں کوئی قبول کرے گا اور شاید خود لیبیا میں اقتدار کی رسہ کشی بھی شروع ہو جائے۔ حالانکہ ملک کے شمال مشرقی حصوں بن غازی اور سیرنیکا، جہاں قذافی مخالف قوتیں قبضہ کر چکی ہیں، وہاں سب سے پہلا کام یہی کیا جائے گا کہ ان علاقوں میں عوام کو قذافی دَور کی لاحق پریشانیوں سے نجات دلائی جائے گی۔ قذافی کی حامی سکیورٹی فورسز کے اس علاقے سے فرار کے بعد یہاں اس مقصد کے لیے سکالرز، وکلا اور ججز پر مبنی کمیٹیاں قائم کی جا رہی ہیں، جو باہمی صلاح مشوروں سے عبوری انتظامی معاملات حل کریں گی۔

مختلف علاقوں میں ایسی کمیٹیوں کا قیام خود قذافی کا تخلیق کردہ طریقہ تھا، تاہم اس وقت اس کا مقصد جمہوریت کے پردے میں عوامی رائے کی بجائے من پسند افراد کا اثرورسوخ تھا۔ مگر اب وقت ہے کہ جمہوریت کو صحیح معنوں میں روشناس کرایا جائے۔

لیبیا میں قبائل اور گروہوں کا اثر دیگر عرب ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے اور ان کے درمیان طاقت کی رسہ کشی ہمیشہ سے جاری رہی ہے۔ طاقت کی اسی رسہ کشی نے وہاں مختلف گروہوں اور قبائل کے درمیان اتحاد قائم کر رکھے ہیں۔ ان قبائل کے متعدد سردار اور رہنما قذافی دور میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور رہے ہیں اور اگر قذافی حکومت گر گئی، تو ان افراد کی یقینی طور پر وطن واپسی ہوگی اور اس کا بھی لیبیا کے مستقبل پر فرق پڑے گا۔

گزشتہ چار دہائیوں سے اقتدار سنبھالے ہوئے قذافی عالمی سطح پر تنہا ہو چکے ہیںتصویر: AP

ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ لیبیا کا شمالی اور مشرقی حصہ شروع سے قدامت پسند مسلمانوں کا مرکز رہا ہے اور مستقبل میں یہ افراد ملک کو اسلامی ریاست بنانے کی کوشش بھی کر سکتے ہیں۔

اس وقت حکومت مخالف تحریک کی کمان کوئی رہنما نہیں کر رہا اور نہ ہی عوام کو کسی سمت کا علم ہے، سوائے اس کے کہ قذافی کو اقتدار سے علحیدہ کیا جائے۔ باغی گروپ، جو اس وقت صرف اور صرف قذافی کو اقتدار سے علحٰیدہ کرنے کے لیے سرگرداں ہیں،جلد ہی انہیں بھی معلوم ہو جائے گا، کہ لیبیا کا مستقبل اس ملک کے معدنی وسائل سے کس قدر جڑا ہوا ہے۔ ان وسائل کی فروخت کے لیے انہیں بیرونی دنیا کی ضرورت ہو گی، خصوصا یورپ کی۔

تبصرہ : پے ٹر فیلپ

ترجمہ: عاطف توقیر

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں