قرآن نذر آتش کرنے والا عراقی سویڈن کے رویے سے مایوس
28 مارچ 2024
اس مسیحی عراقی کا، جس نے اسٹاک ہوم میں قرآن نذر آتش کیا تھا، کہنا ہے کہ سویڈن میں 'آزادی اظہار‘ ایک 'بہت بڑا جھوٹ‘ ہے۔ مسلمانوں کی مقدس کتاب کی بے حرمتی کے اس واقعے نے پوری مسلم دنیا میں شدید غم و غصہ پیدا کر دیا تھا۔
اشتہار
سویڈن میں قرآن کو جلا کر دنیا بھر کے میڈیا کی سرخیوں میں آنے والے مسیحی عراقی سلوان مومیکا نے کہا ہے کہ سویڈش حکومت کی جانب سے ان کا رہائشی پرمٹ منسوخ کر دیے جانے کے بعد وہ اب سویڈن چھوڑ کر ناروے پہنچ چکے ہیں۔
قرآن سوزی کے اس واقعے نے دنیا بھر میں مسلمانوں میں غم و غصہ پیدا کر دیا تھا اور سویڈن اور ترکی کے تعلقات بہت کشیدہ ہو گئے تھے۔
اشتہار
’سویڈن کو میری عزت کا خیال نہیں‘
سینتیس سالہ مومیکا نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے سویڈن چھوڑ دیا ہے اور ناروے پہنچ گئے ہیں، جہاں ان کا سیاسی پناہ حاصل کرنے کا منصوبہ ہے۔
مومیکا نے ایک بیان میں کہا، ''میں نے سویڈن کو اس لیے چھوڑا کیونکہ مجھے حکومتی اداروں کی جانب سے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔‘‘
سویڈش اخبار 'ایکسپریشن‘ میں بدھ کے روز شائع ہونے والے اور اسی ہفتے دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں مومیکا نے کہا، ''میں ناروے جا رہا ہوں، سویڈن صرف ان دہشت گردوں کو قبول کرتا ہے، جنہیں پناہ دی جاتی ہے اور تحفظ دیا جاتا ہے، جب کہ دانشوروں اور مفکرین کو ملک سے نکال دیا جاتا ہے۔‘‘
مومیکا نے اس اخبار کو بتایا، ''میں ایک ایسے ملک میں جا رہا ہوں، جو میرا خیر مقدم کرتا ہے اور میرا احترام کرتا ہے۔ سویڈن میری عزت نہیں کرتا۔‘‘ وہ اب ناروے پہنچ چکے ہیں اور دارالحکومت اوسلو جا رہے ہیں۔
مومیکا نے سویڈن کے آزادی اظہار اور انسانی حقوق کے تحفظ کے دعووں کو ''ایک بڑا جھوٹ‘‘ قرار دیا۔
ناروے کے حکام نے فوری طورپر اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
مومیکا نے ایک بڑا تنازعہ کیسے پیدا کر دیا تھا؟
مومیکا نے سویڈن میں مسلمانوں کی مقدس کتاب کو کئی مرتبہ سرعام نذر آتش کیا اور اس کی بے حرمتی کی، جس کی وجہ سے گزشتہ چند سالوں کے دوران دنیا بھر کے مسلمانوں میں غم و غصہ پیدا ہو گیا تھا۔
قرآن سوزی کے ان کے اشتعال انگیز اقدامات کی ویڈیوز منظر عام پر آنے کے بعد متعدد مسلم ممالک میں زبردست مظاہرے کیے گئے تھے، جن سے کئی جگہ پر فسادات ہوئے اور بدامنی پھیل گئی تھی۔
سویڈن کی حکومت نے گو کہ قرآن کی بے حرمتی کی مذمت کی تھی لیکن تقریر اور اجتماع کی آزادی کے ملکی قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے مومیکا کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے گریز کیا تھا۔
سویڈن کے مائیگریشن حکام نے اکتوبر میں مومیکا کے رہائشی پرمٹ کو یہ کہتے ہوئے منسوخ کر دیا تھا کہ اس نے اپنی درخواست میں غلط معلومات فراہم کی تھیں۔ لہٰذا انہیں عراق بھیج دیا جائے گا۔ تاہم سکیورٹی وجوہات کی بنا پر مومیکا کی ملک بدری روک دی گئی۔ مومیکا کا کہنا تھا کہ اگر انہیں اپنے آبائی ملک بھیجا گیا، تو ان کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
قرآن کو نذر آتش کرنے کے واقعات کی وجہ سے سفارتی مسائل بھی پیدا ہوئے تھے۔ مثلاً سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کے حوالے سے بات چیت کے پس منظر میں سویڈن کے وزیر دفاع کو ترکی کا دورہ منسوخ کرنا پڑا تھا۔
بھارت میں قرآن کے انتہائی نادر نسخوں کی نمائش
دہلی کے نیشنل میوزیم میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کے انتہائی نادر نسخوں کی ایک نمائش کا انعقاد کیا گیا تھا جن میں ساتویں صدی عیسوی سے لے کر انیسویں صدی تک کے قرآنی خطاطی کے نمونوں کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔
تصویر: J. Akhtar
حاشیے میں تفسیر عزیزی
اٹھارہویں صدی میں لکھے گئے قرآن کے اس نسخے کے حاشیے میں تفسیر عزیزی کا متن بھی درج ہے۔
تصویر: J. Akhtar
خط بہاری میں لکھا گیا سترہویں صدی کا قرآنی نسخہ
خط بہاری میں تحریر کردہ یہ قرآنی نسخہ 1663ء میں تیار کیا گیا تھا۔ نئی دہلی میں بھارتی نیشنل میوزیم کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر بی آر منی کے مطابق یہ خط صوبہ بہار کی دین ہے اور اسی وجہ سے اس رسم الخط کو یہ نام دیا گیا تھا۔ اپنے منفرد رسم الخط کی وجہ سے عبدالرزاق نامی خطاط کا لکھا ہوا یہ قرآنی نسخہ بہت تاریخی اہمیت کاحامل ہے۔
تصویر: J. Akhtar
انتہائی نایاب خط ثلث
پندرہویں صدی میں تحریر کردہ یہ قرآنی نسخہ خط ثلث میں ہے۔ اس رسم الخط میں تحریر کردہ قرآنی نسخے بہت ہی نایاب ہیں۔ بھارتی نیشنل میوزیم میں موجود یہ نسخہ نامکمل ہے۔
تصویر: J. Akhtar
کئی رنگوں کے امتزاج سے خطاطی کا تاریخی نمونہ
اس تصویر میں خط نسخ میں لکھا گیا ایک نادر قرآنی نسخہ نظر آ رہا ہے۔ اس نسخے کے ابتدائی صفحات خط کوفی خط میں لکھے گئے ہیں۔ یہ نسخہ سرخ، سیاہ، پیلے، سبز اور سنہرے رنگوں میں خطاطی کے شاندار امتزاج کا نمونہ ہے۔
تصویر: J. Akhtar
خطاطی خط نسخ میں لیکن جلد بندی بہت منفرد
انیسویں صدی میں لکھا گیا یہ نسخہ ماضی میں کپورتھلہ کے مہاراجہ کے خزانے کا حصہ تھا۔ خط نسخ میں تحریر شدہ اس نسخے کی جلد بندی میں خوبصورت بیل بوٹوں کا استعمال کیا گیا ہے جن سے یہ دیکھنے میں اور بھی خوبصورت نظر آتا ہے۔
تصویر: J. Akhtar
سترہویں صدی میں حسن ابدال میں لکھا گیا نسخہ
چھوٹی جسامت والا یہ قرآن انتہائی نایاب نسخوں میں سے ایک ہے، جسے عرف عام میں اس کے مٹھی جتنے سائز کی وجہ سے ’مشتی‘ بھی کہتے ہیں۔ 1602ء میں حسن ابدال (موجودہ پاکستان) میں اس نسخے کی تیاری میں بہت ہی باریک کاغذ استعمال کیا گیا ہے، جس پر تیاری کے دوران طلائی پاؤڈر بھی چھڑکا گیا تھا۔ اس نسخے کے پہلے صفحے پر مغل بادشاہ شاہجہاں کی مہر بھی ثبت ہے۔
تصویر: J. Akhtar
پہلے سات پارے چوتھے خلیفہ علی ابن علی طالب کے تحریر کردہ
ساتویں صدی عیسوی کا یہ نسخہ غیر معمولی حد تک قیمتی ہے، جو نئی دہلی کے نیشنل میوزیم میں محفوظ نادر قرآنی نسخوں میں سے قدیم ترین بھی ہے۔ اس کے پہلے صفحے پر درج عبارت کے مطابق اس کے سات پارے خلفائے راشدین میں سے چوتھے خلیفہ علی ابن علی طالب کے تحریر کردہ ہیں۔ یہ نسخہ کبھی گولکنڈہ (دکن) کے حکمران قطب شاہ کے خزانے کا حصہ ہوا کرتا تھا، جسے چمڑے پر خط کوفی میں لکھا گیا ہے۔
تصویر: J. Akhtar
آٹھویں صدی میں خط کوفی میں عراق میں لکھا گیا قرآنی نسخہ
آٹھویں صدی عیسوی میں یہ قرآنی نسخہ عراق میں تیار کیا گیا تھا۔ اسے بہت قدیم رسم الخط قرار دیے جانے والے خط کوفی میں تحریر کیا گیا ہے۔ نئی دہلی میں قومی عجائب گھر کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر منی کے مطابق یہ تمام نایاب قرآنی نسخے نیشنل میوزیم کی ملکیت ہیں، جن کی نمائش رواں ماہ کے آخر یعنی 31 مارچ 2018ء تک جاری رہے گی۔
تصویر: J. Akhtar
مغل بادشاہوں شاہجہان اور اورنگ زیب کی مہروں کے ساتھ
یہ تاریخی نسخہ 1396ء میں ریشمی کاغذ اور سمرقندی سِلک پیپر پر خط ریحان میں تحریر کیا گیا تھا۔ اس کے پہلے صفحے پر مغل بادشاہوں شاہجہاں اور اورنگ زیب کی شاہی مہریں لگی ہوئی ہیں۔
تصویر: J. Akhtar
لفظ ’اللہ‘ ہر بار سونے کے پانی سے لکھا ہوا
انڈین نیشنل میوزیم کے سابق کیوریٹر اور معروف اسکالر ڈاکٹر نسیم اختر کے مطابق ان قرآنی نسخوں میں سے کئی کے صفحات کو ’سونے کے پانی‘ سے تحریر کیا گیا ہے، جب کہ ایک نسخہ ایسا بھی ہے، جس میں بار بار آنے والا لفظ ’اللہ‘ ہر مرتبہ سونے سے لکھا گیا ہے۔ خط نستعلیق میں یہ قرآنی نسخہ انیسویں صدی میں تحریر کیا گیا تھا۔
تصویر: J. Akhtar
ایک کرتے پر مکمل قرآن اور اللہ کے ننانوے نام بھی
اٹھارہویں صدی میں تیار کردہ اس کرتے پر پورا قرآن لکھا گیا ہے، جو ایک غیر معمولی اثاثہ ہے۔ کرتے کے دائیں بازو پر اللہ کے صفاتی نام درج ہیں۔ اس قرآن کی بہت ہی باریک کتابت خط نسخ کی گئی ہے اور اس کرتے پر اللہ کے ننانوے نام خط ریحان میں تحریر کیے گئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ پوری دنیا میں اپنی نوعیت کا بہت ہی منفرد اور واحدکرتا ہے۔