قرضوں کے لیے آئی ایم ایف سے بات چیت جاری، گورنر اسٹیٹ بینک
11 جنوری 2021
پاکستانی اسٹیٹ بینک کے گورنر ڈاکٹر رضا باقر نے کہا ہے کہ معیشت کو سہارا دینے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے مذاکرات جاری ہیں۔
اشتہار
کورونا وائرس کی وبا کے باعث صنعت و کاروبار میں زبردست مندی کے باوجود انہوں نے کہا کہ وہ معیشت میں بہتری کے لیے پرامید ہیں۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کے ساتھ ایک انٹرویو میں ڈاکٹر باقر رضا نے کہا کہ حکومت بہت جلد دنیا کو پاکستان کی آئی ایم ایف پروگرام میں واپسی سے متعلق اچھی خبر دے گی۔
وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے پچھلے سال آئی ایم ایف سے تین سال کے لیے چھ بلین ڈالر کے قرضے لینے کا معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت عالمی فنڈ نے کورونا کے معاشی اثرات سے نمٹنے کے لیے حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر ڈیڑھ بلین ڈالر کے قرضے دیے تھے۔
تاہم پاکستانی معیشت کی خراب کارکردگی اور حکومت سے اختلافات کے باعث جلد قرضوں کا یہ پروگرام تعطل کا شکار ہوگیا، جس کے بعد عالمی ادارے نے قرضے کی ساڑھے چار سو ملین ڈالر کی قسط روک رکھی ہے۔
اس دوران ملک میں بڑے پیمانے پر بیروزگاری، غربت میں اضافے اور کاروباری مندی کا رجحان سامنے آیا ہے۔
آئی ایم ایف کا حکومت پاکستان سے اصرار ہے کہ وہ معاشی اصلاحات متعارف کرائے۔ ان میں بیمار صنعتوں کی نجکاری، ٹیکسوں سے آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ اور مالیاتی خسارے پر قابو پانا شامل ہے۔
پاکستان میں تعینات آئی ایم ایف کی اہلکار ٹریسا سانچیز نے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ اس عالمی ادارے اور حکومت پاکستان کے اہلکاروں کے درمیان قریبی رابطہ اور مشاورت جاری ہیں اور دونوں جانب سے کسی مثبت نتیجے تک پہنچنے کی کوشیں کی جا رہی ہیں۔
دنیا میں کورونا وائرس کی وبا کی دوسری پریشان کن لہر کے باوجود اسٹیٹ بینک کے گورنر نے کہا کہ وہ پرامید ہیں کہ پاکستان میں حالات بہتری کی طرف جائیں گے۔ انہوں نے اس کی وجہ ویکسین کی دستیابی بتائی۔ ڈاکٹر باقر رضا نے کہا کہ پاکستان کورونا کے اثرات سے اب تک بغیر کسی ویکسین کے نمٹا ہے اور توقع ہے کہ ویکسین کی دستیابی کے بعد موجودہ صورتحال میں بہتری ہی آئے گی۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس سال پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں ڈیڑھ سے ڈھائی فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ تاہم عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں اس سال اقتصادی پیداوار میں صفر اعشاریہ پانچ فیصد سے زائد کے اضافے کی توقع نہیں۔
دنیا کی کمزور اور مضبوط ترین کرنسیاں
ڈالر کے مقابلے میں دنیا کی پانچ مضبوط ترین اور پانچ کمزور ترین کرنسیاں کون سے ممالک کی ہیں اور پاکستانی روپے کی صورت حال کیا ہے۔ جانیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
1۔ کویتی دینار، دنیا کی مہنگی ترین کرنسی
ڈالر کے مقابلے میں سب سے زیادہ مالیت کویتی دینار کی ہے۔ ایک کویتی دینار 3.29 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ اس چھوٹے سے ملک کی معیشت کا زیادہ تر انحصار تیل کی برآمدات پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Al-Zayyat
2۔ بحرینی دینار
دوسرے نمبر پر بحرینی دینار ہے اور ایک بحرینی دینار کی مالیت 2.65 امریکی ڈالر کے برابر ہے اور یہ ریٹ ایک دہائی سے زائد عرصے سے اتنا ہی ہے۔ کویت کی طرح بحرینی معیشت کی بنیاد بھی تیل ہی ہے۔
تصویر: imago/Jochen Tack
3۔ عمانی ریال
ایک عمانی ریال 2.6 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ اس خلیجی ریاست میں لوگوں کی قوت خرید اس قدر زیادہ ہے کہ حکومت نے نصف اور ایک چوتھائی ریال کے بینک نوٹ بھی جاری کر رکھے ہیں۔
تصویر: www.passportindex.org
4۔ اردنی دینار
اردن کا ریال 1.40 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ دیگر خلیجی ممالک کے برعکس اردن کے پاس تیل بھی نہیں اور نہ ہی اس کی معیشت مضبوط ہے۔
تصویر: Imago/S. Schellhorn
5۔ برطانوی پاؤنڈ
پانچویں نمبر پر برطانوی پاؤنڈ ہے جس کی موجودہ مالیت 1.3 امریکی ڈالر کے مساوی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ایک برطانوی پاؤنڈ کے بدلے امریکی ڈالر کی کم از کم قیمت 1.2 اور زیادہ سے زیادہ 2.1 امریکی ڈالر رہی۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER
پاکستانی روپے کی صورت حال
ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں حالیہ دنوں کے دوران مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں امریکی ڈالر کی روپے کے مقابلے میں کم از کم مالیت 52 اور 146 پاکستانی روپے کے درمیان رہی اور یہ فرق 160 فیصد سے زائد ہے۔ سن 2009 میں ایک امریکی ڈالر 82 اور سن 1999 میں 54 پاکستانی روپے کے برابر تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Gulfam
بھارتی روپے پر ایک نظر
بھارتی کرنسی امریکی ڈالر کے مقابلے میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستانی روپے کے مقابلے میں مستحکم رہی۔ سن 1999 میں ایک امریکی ڈالر قریب 42 بھارتی روپوں کے برابر تھا جب کہ موجودہ قیمت قریب 70 بھارتی روپے ہے۔ زیادہ سے زیادہ اور کم از کم مالیت کے مابین فرق 64 فیصد رہا۔
تصویر: Reuters/J. Dey
5 ویں کمزور ترین کرنسی – لاؤ کِپ
جنوب مشرقی ایشائی ملک لاؤس کی کرنسی لاؤ کِپ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پانچویں کمزور ترین کرنسی ہے۔ ایک امریکی ڈالر 8700 لاؤ کپ کے برابر ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ اس کرنسی کی قیمت میں کمی نہیں ہوئی بلکہ سن 1952 میں اسے کم قدر کے ساتھ ہی جاری کیا گیا تھا۔
4۔ جمہوریہ گنی کا فرانک
افریقی ملک جمہوریہ گنی کی کرنسی گنی فرانک ڈالر کے مقابلے میں دنیا کی چوتھی کمزور ترین کرنسی ہے۔ افراط زر اور خراب تر ہوتی معاشی صورت حال کے شکار اس ملک میں ایک امریکی ڈالر 9200 سے زائد گنی فرانک کے برابر ہے۔
تصویر: DW/B. Barry
3۔ انڈونیشین روپیہ
دنیا کے سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیا کی کرنسی دنیا کی تیسری کمزور ترین کرنسی ہے۔ انڈونیشیا میں ایک روپے سے ایک لاکھ روپے تک کے نوٹ ہیں۔ ایک امریکی ڈالر 14500 روپے کے مساوی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ایک امریکی ڈالر کی کم از کم قیمت بھی آٹھ ہزار روپے سے زیادہ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Zuma Press/I. Damanik
2۔ ویتنامی ڈانگ
دنیا کی دوسری سب سے کمزور ترین کرنسی ویتنام کی ہے۔ اس وقت 23377 ویتنامی ڈانگ کے بدلے ایک امریکی ڈالر ملتا ہے۔ بیس برس قبل سن 1999 میں ایک امریکی ڈالر میں پندرہ ہزار سے زائد ویتنامی ڈانگ ملتے تھے۔ تاہم ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہتر پالیسیاں اختیار کرنے کے سبب ویتنامی ڈانگ مستقبل قریب میں مستحکم ہو جائے گا۔
تصویر: AP
1۔ ایرانی ریال
سخت امریکی پابندیوں کا سامنا کرنے والے ملک ایران کی کرنسی اس وقت دنیا کی سب سے کمزور کرنسی ہے۔ اس وقت ایک امریکی ڈالر 42100 ایرانی ریال کے برابر ہے۔ سن 1999 میں امریکی ڈالر میں 1900 ایرانی ریال مل رہے تھے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ڈالر کے مقابلے میں کم ترین اور زیادہ ترین ایکسچینج ریٹ میں 2100 فیصد تبدیلی دیکھی گئی۔