1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قرض تلے دب جانے کا خوف، سی پيک پاکستانی حکومت کے ليے امتحان

30 ستمبر 2018

پاکستان اور چين کی جانب سے يقين دہانيوں کے باوجود يہ بات ظاہر ہے کہ سی پيک کی تحت طے کيے گئے متعدد منصوبوں پر پاکستانی حکومت گہرے تحفظات کا شکار ہے۔ حکام کا خیال ہے کہ زيادہ تر منصوبے چين کے بہت زيادہ مفاد ميں ہيں۔

Projekt Wirtschaftskorridor Pakistan-China
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/A. Kamal

پاکستانی وزير برائے منصوبہ بندی خسرو بختيار نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے حال ہی ميں بات چيت کرتے ہوئے بتايا تھا کہ حکومت کوئی ايسا ماڈل تيار کرنے کی کوشش ميں ہے، جس کی مدد سے پورے کا پورا خطرہ صرف پاکستان ہی کو مول نہ لينا پڑے۔ بختيار 8.2 بلين ڈالر ماليت کے اس منصوبےکے بارے ميں بات کر رہے تھے، جس کے تحت کراچی سے پشاور تک ريلوے ٹريک بچھايا جانا ہے۔ يہ چين کے ’بيلٹ اينڈ روڈ انيشی ايٹِو‘ (BRI) کا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔ تاہم اخراجات اور قرض کے بوجھ تلے دب جانے کے خوف سے پاکستان نئی شاہراہ ريشم کے ايسے متعدد منصوبوں کے حوالے سے تحفظات کا شکار ہے۔

خطے ميں چينی سرمايہ کاری کے حوالے سے تحفظات بڑھتے جا رہے ہيں۔ پاکستان ہی نہيں بلکہ سری لنکا، ملائيشيا اور مالديپ ميں انتخابات کے بعد قائم ہونے والی نئی حکومتيں بھی سابقہ حکومتوں کی جانب سے طے کردہ معاہدوں کے حوالے سے تحفظات رکھتی ہيں۔ پاکستان ميں وزير اعظم عمران خان کی حکومت ملک کو قرضوں کے بوجھ سے نجات دلانے کے ليے سرگرم ہے اور يہی وجہ ہے کہ نئی شاہراہ ريشم کے متعدد منصوبوں پر ان دنوں سوالات اٹھائے جا رہے ہيں۔ پاکستانی اہلکار BRI کے تحت طے کردہ تمام منصوبوں کا از سر نو جائزہ لینا چاہتے ہيں۔ اسلام آباد حکومت کا موقف ہے کہ معاہدے درست انداز سے طے نہيں کيے گئے اور يوں وہ زيادہ تر چين کے مفاد ميں ہيں۔ پاکستان کے تين سينئر اہلکاروں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتايا کہ چين صرف ان منصوبوں پر دوبارہ بات چيت کے ليے تيار ہے، جن پر اب تک کام شروع نہيں ہوا۔

اس بارے ميں جب نيوز ايجنسی روئٹرز کی جانب سے چينی وزارت خارجہ کو چند سوالات بھيجے گئے، تو جواب ميں کہا گيا کہ دونوں فريق ’بيلٹ اينڈ روڈ انيشی ايٹِو‘ کے منصوبوں کو پايہ تکميل تک پہنچانے کے سلسلے ميں پر عزم ہيں۔ اسلام آباد حکومت نے بھی يہ واضح کيا ہے کہ وہ چينی سرمايہ کاری سے شروع کيے جانے والے منصوبوں کی تکميل کے سلسلے ميں پر عزم ہے تاہم ان پر اٹھنے والے اخراجات جيسے امور پر نظر ثانی کی طلب گار ہے۔ بیجنگ نے پاکستان چين اقتصادی راہداری يا سی پيک کی منصوبے کے تحت ساٹھ بلين ڈالر کی سرمايہ کاری کا وعدہ کر رکھا ہے۔ اس منصوبے سے پاکستان کے کئی علاقوں ميں بنيادی ڈھانچوں کو بہت بہتر بنایا جا سکے گا اور یہ بات کئی علاقوں میں مقامی آباديوں کے ليے روزگار کے بہتر مواقع کا باعث بنے گی۔

پاکستان میں چينی سفير ياؤ جنگ نے روئٹرز کو بتايا کہ بیجنگ حکومت اسلام آباد کی جانب سے پيش کردہ تجاويز پر نظر ثانی کے ليے تيار ہے اور اس ضمن ميں ايک روڈ ميپ تيار کيے جانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے يہ يقين دہانی بھی کرائی کہ صرف ان منصوبوں پر ہی کام ہو گا، جن ميں پاکستان کی رضامندی شامل ہو گی۔

ع س / م م، نيوز ايجنسياں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں