قرض کی حد بڑھانے کی منظوری، امریکہ دیوالیہ پن سے بچ گیا
2 جون 2023
امریکی سینیٹ نے حکومتی قرض کی حد بڑھانے کی حتمی منظوری دے دی ہے، جس کی وجہ سے امریکہ دیوالیہ ہونے سے بچ گیا۔ امریکی صدر جو بائیڈن کے دستخط کے بعد یہ بل قانون بن جائے گا۔
اشتہار
امریکی کانگریس نے جمعرات کے شام حکومتی قرضوں کی حد بڑھانے کے حوالے سے ایک اہم بل کو منظور کر کے واشنگٹن حکومت کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا۔ اس سے قبل ایوان نمائندگان نے بھی متفقہ طور پر اس قانون کو منظوری دی تھی۔
اب یہ بل امریکی صدر جو بائیڈن کو ارسال کیا جائے گا، جن کے دستخط کے بعد یہ قانون بن جائے گا۔ پانچ جون تک اس بل کا منظور ہونا لازمی تھا، ورنہ امریکی حکومت ادائیگیوں کے قابل نہ رہتی۔
سینٹ میں چھتیس کے مقابلے میں تریسٹھ ووٹوں سے منظور ہونے والے اس بل کی وجہ سے اب واشنگٹن حکومت اپنے بلوں کی ادائیگی جاری رکھ سکے گی۔
اگر یہ قانون پاس نہ ہوتا تو امریکی حکومت کے پاس اندرونی اور بیرونی ادائیگیوں کے لیے رقوم ختم ہو جانا تھیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن اور ایوان نمائندگان کے ریپبلکن اسپیکر کیون میکارتھی کی جانب سے پیش کردہ قرض کی حد میں اضافے کے 31.4 کھرب ڈالر کے دو طرفہ معاہدے کو بدھ کے روز ایوان نمائندگان میں اکثریتی ووٹنگ سے منظور کیا گیا تھا۔ جمعرات کے دن سینٹ نے بھی اس قانون کو اسی حالت میں منظور کیا۔
امریکی صدر کتنا طاقت ور ہوتا ہے؟
اوول آفس کا سربراہ جو بھی ہو، کہتے ہیں کہ دنیا کی سیاست اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ تاہم اصل میں امریکی صدر کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ دیگر سرکاری محکمے بھی اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین کہتا ہے کہ
صدارتی مدت چار سال ہے اور کوئی بھی صرف دو مدت کے لیے ہی سربراہ مملکت کے منصب پر فائز رہ سکتا ہے۔ امریکی صدر ملک اور حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ وفاقی انتظامیہ میں اس کے ماتحت لگ بھگ چالیس لاکھ ملازمین ہوتے ہیں، جن میں فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ کانگریس کی جانب سے منظور کردہ قوانین کا نفاذ صدر کی ذمہ داری ہے۔ اعلی سفارت کار کی حیثیت سے صدر سفیروں کا استقبال کرتا ہے اور ریاستوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
چیک اور بیلنس
حکومت کی تین شاخیں ایگزیکیٹو( انتظامیہ)، عدلیہ اور مقننہ بھی فیصلہ سازی میں شامل ہوتے ہیں اور یہ تینوں ایک دوسرے کے اختیارات کو بھی حد میں رکھتے ہیں۔ صدر شہریوں کو معاف کر سکتا ہے اور ججوں کو نامزد کر سکتا ہے لیکن ان فیصلوں کی تصدیق صرف سینیٹ کی منظوری سے ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح کابینہ اور سفیروں کی نامزدگی کے لیے صدر کو سینیٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
سٹیٹ آف دی یونین
صدر کو کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ ملکی نظم و نسق کس طرح سے چل رہا ہے۔ ایسا وہ اپنے سٹیٹ آف دی یونین سالانہ خطاب کے ذریعے کرتا ہے۔ اگرچہ صدر کو قانون سازی کی کوئی قرارداد پیش کرنے کا اختیار نہیں تاہم وہ دیگر موضوعات اور اپنے ارادوں پر بات کر سکتا ہے۔ یہ کانگریس پر عوامی دباؤ برقرار رکھنے کا ایک حربہ ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’نہیں‘ آسانی سے نہیں کہہ سکتا
امریکی صدر دستخط کے بغیر کسی بھی بل کو ویٹو کرتے ہوئے کانگریس کو واپس بھیج سکتا ہے۔ تاہم کانگریس کے دونوں ایوان اپنی دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس صدر کے ان خصوصی اختیارات کو ختم بھی کر سکتے ہیں۔ سینیٹ کے مطابق اب تک صدر کی جانب سے تقریباﹰ پندرہ سو مرتبہ ویٹو کا استعمال کیا گیا، جن میں سے صرف ایک سو گیارہ کو کامیابی کے ساتھ منسوخ کیا گیا، جو صرف سات فیصد کے قریب بنتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
غیر واضح اختیارات
نا تو آئین اور نہ ہی عدالت عالیہ صدر کو حاصل اختیارات کو پوری طرح سے بیان کرتے ہیں۔ صدر کے پاس ایک اور طاقت بھی ہوتی ہے، جسے ’پاکٹ ویٹو‘ کہا جاتا ہے۔ ’پاکٹ ویٹو‘ صدر کو مخصوص حالات میں کسی بھی قانون سازی کو کالعدم قرار دینے کا اختیار دیتا ہے۔ اس ویٹو کے خلاف کانگریس بے بس ہوتی ہے۔ یہ اختیار مختلف صدور ایک ہزار سے زائد مرتبہ استعمال کر چکے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
احکامات جو قانون کی طرح لاگو ہوتے ہیں
صدر سرکاری ملازمین کو فرائض مخصوص طریقے سے انجام دینے اورخاص انداز میں ختم کرنے کے احکامات دے سکتا ہے۔ ان ایگزیکیٹو آرڈرز کو قانون ہی کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے صدر کو کسی منظوری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ صدر جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔ عدالت ان احکامات کو منسوخ کر سکتی ہے یا کانگریس بھی ان کے خلاف قانون سازی کر سکتی ہے۔ اگلا صدر آسانی سے انہیں کالعدم قرار دے سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کا کھیل
صدر دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں پر بات چیت کر سکتا ہے مگرسینیٹ کی دو تہائی اکثریت ہی انہیں منظور کر سکتی ہے۔ صدر اسے اگر ’’ایگزیکیٹو معاہدہ‘‘ قرار دے دے تو اسے کانگریس کی اجازت کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اس کی حیثیت اس وقت تک قانونی ہوتی ہے، جب تک کانگریس اس پر اعتراض نہ اٹھائے یا اس کے خلاف کوئی قانون پاس کرے۔
تصویر: Klaus Aßmann
فوجیوں کا انخلاء
صدر امریکی افواج کا کمانڈر ان چیف بھی ہوتا ہے، مگر اعلان جنگ کا اختیار کانگریس کو ہوتا ہے۔ صدر کانگریس کی اجازت کے بغیر افواج کو کسی جنگ میں بھیج سکتا ہے لیکن اس طرح معاملہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی کنڑول
اگر صدر اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے یا کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو ایوان نمائندگان اس کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ امریکی تاریخ میں ابھی تک ایسا تین مرتبہ ہوچکا ہے مگر آخر میں کسی کومورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔ یہ کانگریس کا ایک خفیہ ہتھیار بھی ہے کیونکہ بجٹ کی منظوری کانگریس کرتی ہے اور اس کا اثر براہ راست شہریوں کی جیبوں پر پڑ سکتا ہے۔ شہری ایسی صورتحال پر خوش نہیں ہوتے۔
تصویر: Klaus Aßmann
9 تصاویر1 | 9
ڈیٹ سیلنگ کیا ہے اور اگر منظوری نہ ہوتی تو؟
حکومت کتنی رقم خزانے سے نکال سکتی ہے دراصل ڈیٹ سیلنگ سے ہی اس کی حد کا تعین ہوتا ہے۔ یہ نظام ویسے ہی کام کرتا ہے، جیسے کے ایک کریڈٹ کارڈ کام کرتا ہے۔
کریڈٹ سے آپ ایک حد تک ہی قرضہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر زیادہ خرچ کرنا ہو تو اس کی لمٹ بھی بڑھانا ہو گی۔ امریکی حکومت کے اپنے ڈیٹ سیلنگ (قرضوں) کی حد تک پہنچنتے کے بعد بھی اگر اس میں اضافہ نہ کیا جاتا تو پانچ جون کے بعد سرکاری ملازمین کو تںخواہیں جاری کرنے کا مسئلہ بھی ہو سکتا تھا۔
اسی طرح دیگر حکومتی اخراجات بھی متاثر ہوتے۔ عمومی طور پر ڈیٹ سیلنگ بڑھانا ایک رسمی کارروائی ہی ہے لیکن اس مرتبہ کانگریس میں اختلافات کچھ زیادہ ہی پیدا ہو گئے تھے۔
امریکہ کے ڈیفالٹ ہونے کا مطلب یہ ہوتا کہ حکومت ڈاکٹروں اور اساتذہ کے علاوہ دیگر سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بھی نہ ادا کر سکتی۔
یوں شہریوں کی سوشل سکیورٹی اور ہیلتھ کیئر پیمنٹس بھی متاثر ہو جاتیں۔ سوچیں کہ اگر ریٹائرڈ لوگوں کو ان کی پنشن ہی نہ ملے تو؟
قرضوں کی حد میں اضافے میں چھوٹی سی تاخیر بھی امریکہ میں پچاس لاکھ ملازمتوں کے خاتمے کا باعث بن سکتی تھی۔
اور اگر یہ معاملہ بروقت حل نہ ہوتا تو اس سے امریکی معیشت کو بھی بڑا نقصان ہو سکتا تھا۔ یوں امریکی ڈالر کی قدر میں کمی بھی ممکن تھی اور عالمی کساد بازاری کا خدشہ بھی۔ مہنگائی تو اس کا ایک چھوٹا سا نتیجہ ہوتا۔