افطار پارٹی نہیں، تراویح نہیں اور میل ملاپ نہیں۔ یورپ میں جمعے کے روز سے رمضان کا آغاز ہو رہا ہے، مگر اس بار رمضان ماضی کے مقابلے میں بالکل مختلف ہو گا۔
اشتہار
یورپ میں مسلم تنظیمیوں کی جانب سے کورونا وائرس کی وبائی صورت حال میں رمضان میں مسلمانوں کے لیے ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ اس بار کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے نہ باجماعت نمازیں ہوں گی، نہ تراویح اور نہ ہی اجتماعی افطار۔ مسلم تنظیموں نے مسلمانوں سے کہا ہے کہ وہ افطار میں دیگر افراد کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے لیے انٹرنیٹ پر ویڈیو کالز کا استعمال کریں۔
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے زیادہ تر یورپی ممالک میں لاک ڈاؤن جاری ہے اور اس سے تمام مذاہب متاثر ہوئے ہیں۔ اس وقت جرمنی سمیت یورپ کے زیادہ تر ملکوں میں مساجد، گرجا گھر، سیناگوگ اور مندر بند ہیں اور سماجی فاصلہ قائم رکھنے کے لیے شہریوں کو محدود نقل و حرکت کی ہدایات دی گئی ہیں۔
مسلم تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس بار مسلمان ایک بالکل مختلف رمضان گزارنے والے ہیں، جو ماضی کے مقابلے میں بے انتہا مشکل ہو گا۔ مسلم تنظیموں کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسلمان رمضان کی تیاری میں منصوبہ بندی سے کام لیں، تاکہ انہیں بار بار خریداری کے لیے شاپنگ سینٹرز کا رخ نہ کرنا پڑے۔
برطانیہ میں مسلمانوں کی مرکزی تنظیم کا کہنا ہے کہ رمضان میں اپنے کام کے مقامات اور دفاتر کی تعظیم کرتے رہیں اور اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے ساتھ بہتر اخلاق سے پیش آئیں۔
مسلمانوں کے علاوہ کون کون روزے رکھتا ہے؟
ماہ رمضان مسلمانوں کے لیے مقدس ترین مہینہ ہے، جس میں وہ روزے رکھتے ہیں، تاہم روزہ رکھنے کے اعتبار سے وہ تنہا نہیں بلکہ متعدد دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بھی روزے رکھتے ہیں، تاہم طریقہ ہائے کار مختلف ہیں۔
تصویر: Munir Uz Zaman/AFP/Getty Images
رمضان میں روزہ بھی عبادات بھی
ماہ رمضان میں سال کے دیگر مہینوں کے مقابلے میں مساجد میں نمازیوں کی تعداد بھی زیادہ دکھائی دیتی ہے، جب کہ مختلف ممالک میں نمازِ عشاء کے بعد تراویح کا بھی خصوصی انتظام کیا جاتا ہے۔
تصویر: AP
مسیحی روزے دار
مسیحیت میں گو کے روزے کسی فرض عمل کے طور پر نہیں، مگر ایسا بھی نہیں کہ مسیحیت میں روزہ رکھنے کی تاکید نہ کی گئی ہوئی۔ مسیحی روزداروں کے مطابق ان کے ہاں روزے کا مقصد دنیاوی چیزوں سے منہ موڑ کر خدا پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔
تصویر: Imago/epd
ہندوؤں کا روزہ
ہندو مت میں روزہ رکھنے کی ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ روزہ عام اشیاء سے دوری سے لے کر کھانے پینے سے شدید نوعیت تک کی دوری کی صورت میں ہو سکتا ہے۔ ہندومت میں دن اور طریقہ ہائے کار باقاعدہ طور پر طے نہیں ہیں اور یہ کوئی برادری، خاندان اور فرد خود سے طے کر سکتا ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
یہودیت کے روزے
یہودیت کے اعتبار سے دو مکمل دن کے روزے یعنی غروب آفتاب سے اگلے روز رات تک جب کہ متعدد چھوٹے روزے بھی ہیں۔ ان روزوں میں مختلف طرز کی پابندیاں عائد ہوتی ہیں تاہم طویل روزوں میں کھانے پینے اور جنسی تعلق سے دور رہنے کے علاوہ چمڑے کے جوتے، پرفیوم، تیل، حتیٰ کہ نہانے تک سے دور رہا جاتا ہے۔ یہودیت میں دو مکمل روزے فرض کے طور پر رکھے جاتے ہیں، جب کہ چھوٹے روزے چند مخصوص حالات میں لازم ہوتے ہیں۔
تصویر: Menahem Kahana/AFP/Getty Images
بدھ مت کے روزے
مہاتما بدھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خود انہوں نے شدید نوعیت کے روزے رکھنے سے ہی نروان حاصل کیا تھا، تاہم بدھ مت میں روزے سے متعلق مختلف طرز کے طریق رائج ہیں۔ جن میں دن میں ایک بار کھانے سے لے کر فقط ایک تھالی کھانے تک کا طریقہ شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/N. Ut
مورمون روزے دار
چرچ آف جیزز کرائسٹ لیٹر ڈے سینٹ (مورمونز) مذہب میں ہر ماہ کے پہلے اتوار کو روزہ رکھا جاتا ہے۔ اس میں کسی شخص کو دو وقت کے کھانے اور پینے سے پرہیز کرنا ہوتا ہے، جب کہ اس کھانے سے بچایا جانے والا پیسہ چرچ کو دینا ہوتا ہے۔ اس اتوار کو اس برادری سے تعلق رکھنے والے افراد مل کر روزہ رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کا اعادہ کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/G.Frey
ایزدی روزے
تمام ایزدیوں کو دسمبر کے تین دن روزے رکھنا ہوتے ہیں، جن میں علی الصبح سے شام تک کھانے پینے سے اجتناب برتا جاتا ہے، جب کہ ان تین دنوں میں رات بھر عبادت کی جاتی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jalal
7 تصاویر1 | 7
یورپ میں اس بار روزہ چودہ گھنٹے سے زائد دورانیے کا ہے۔ ماہرین نے کہا ہے کہ اس طویل دورانیے کے لیے روزے دار سحری کے وقت زیادہ توانائی اور دیرسے ہضم ہونے والی خوراک کا استعمال کریں۔ مسلم تنظیموں نے تاہم آجروں سے بھی کہا ہے کہ وہ رمضان میں مسلمانوں کے کام کے اوقات میں کچھ لچک رکھیں اور ان کے ساتھ تفریق کے رویوں کی حوصلہ شکنی کے اقدامات کریں۔
رمضان میں روایتی طور پر افطار کے بعد لوگ بہت دیر تک اپنے رشتہ داروں اور ہم سایوں کے ساتھ بات چیت کرنے اور اجتماعی عبادات میں حصہ لینے میں وقت بتاتے ہیں لیکن اس بار کسی بھی طرح کا اجتماع ممکن نہیں ہو گا۔
مسلم فقہ کے ماہر ڈاکٹر ایمان البداوی کا تاہم کہنا ہے کہ ان تمام مسائل کے باوجود رمضان کی روح پر کوئی حرف نہیں آئے گا۔ ''رمضان کی اصل اساس آئسولیشن میں بھی قائم رہے گی۔ رمضان کا روحانی حصہ ممکن ہے ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہو کیوں کہ عمومی طور پر اجتماعی سرگرمیوں میں انسان کی توجہ بٹ جاتی ہے۔‘‘