1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قزاقستان جلد ہی ابراہیمی معاہدوں میں شامل ہو گا، ٹرمپ

جاوید اختر روئٹرز، اے پی، ڈی پی اے کے ساتھ
7 نومبر 2025

امریکی صدر نے کہا کہ قزاقستان جلد ہی ابراہیمی معاہدوں میں شامل ہو گا تاکہ اسرائیل اور مسلم اکثریتی ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لایا جا سکے۔ اور امید ظاہر کی کہ سعودی عرب بھی بالآخر اس معاہدے میں شامل ہو جائے گا۔

 امریکی صدر ٹرمپ وسطی ایشیا کے چار ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے
قازقستان حکومت نے ایک بیان میں کہا کہ ابراہیمی معاہدے میں اس کی متوقع شمولیتی عمل قازقستان کی خارجہ پالیسی کے فطری اور منطقی تسلسل کی نمائندگی کرتا ہےتصویر: Jacquelyn Martin/AP Photo/dpa/picture alliance

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور قازقستان کے صدر قاسم جومارت توقایف سے فون پر بات کے بعد یہ اعلان کیا کہ قزاقستان ابراہیمی معاہدے میں شامل ہو جائے گا۔

ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر لکھا، ''ہم جلد اسے باضابطہ بنانے کے لیے دستخط کی تقریب کا اعلان کریں گے اور بہت سے مزید ممالک طاقت کے اس کلب میں شامل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

قزاقستان حکومت نے ایک بیان میں کہا کہ یہ معاملہ مذاکرات کے آخری مرحلے میں ہے۔

بیان میں کہا گیا، ''ابراہیمی معاہدے میں ہمارا متوقع شمولیتی عمل قزاقستان کی خارجہ پالیسی کے فطری اور منطقی تسلسل کی نمائندگی کرتا ہے،جو مکالمے، باہمی احترام، اور علاقائی استحکام پر مبنی ہے۔‘‘

قزاقستان کے اسرائیل کے ساتھ پہلے ہی مکمل سفارتی تعلقات اور اقتصادی روابط موجود ہیں، جس کا مطلب ہے کہ یہ اقدام محض علامتی نوعیت کا ہو گا۔ تاہم، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے جمعرات کو اس تاثر کو مسترد کیا۔ ان کا کہنا تھا، 'یہ صرف سفارتی تعلقات سے کہیں بڑھ کر ایک بہتر اور وسیع تر تعلق ہے۔‘

روبیو نے کہا، ''یہ (تعلق) ان تمام دوسرے ممالک کے ساتھ ہے جو معاہدے کا حصہ ہیں۔ آپ اب ایک ایسی شراکت داری کو جنم دے رہے ہیں جو ہر طرح کے مسائل پر، جن پر وہ مل کر کام کر سکتے ہیں، خصوصی اور منفرد اقتصادی ترقی لاتی ہے۔‘‘

قازقستان کے اسرائیل کے ساتھ پہلے ہی مکمل سفارتی تعلقات اور اقتصادی روابط موجود ہیں، جس کا مطلب ہے کہ یہ اقدام محض علامتی نوعیت کا ہو گاتصویر: picture-alliance/AA/Kazakhstan Presidency

ابراہیمی معاہدوں میں سعودی عرب کی شمولیت کا امکان؟

ٹرمپ نے اس امکان کے بارے میں امید ظاہر کی ہے کہ خطے کی طاقتور ریاست سعودی عرب بالآخر ابراہیم معاہدوں میں شامل ہو جائے گی، خاص طور پر اس کے بعد جب گزشتہ ماہ غزہ میں جنگ بندی نافذ ہوئی۔ تاہم، ریاض نے اب تک اس وقت تک آگے بڑھنے کی کوئی خواہش ظاہر نہیں کی جب تک کہ فلسطینی ریاست کے قیام کی کوئی واضح راہ موجود نہ ہو۔

سعودی عرب امریکہ کے ساتھ اسرائیل سے تعلقات کو معمول پر لانے کے بارے میں بات چیت کر رہا تھا، جو ایک تاریخی سنگِ میل ثابت ہوتا، کیونکہ یہ مملکت اسلام کے دو مقدس ترین مقامات کی سرزمین ہے۔ تاہم، اکتوبر 2023 میں حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد جب غزہ کی جنگ شروع ہوئی، تو خلیجی مملکت ان مذاکرات سے پیچھے ہٹ گئی۔

سعودی عرب طویل عرصے سے اس بات پر اصرار کرتا آیا ہے کہ وہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کی جانب پیش رفت کے بغیر تعلقات معمول پر نہیں لا سکتا۔ لیکن نیتن یاہو طویل عرصے سے اس کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔

ٹرمپ نے بدھ کے روز میامی میں امریکی بزنس فورم میں کہا، ''اب ہمارے ساتھ ابراہیمی معاہدوں میں شامل ہونے والے کئی ممالک ہیں، اور امید ہے کہ بہت جلد ہم سعودی عرب کو بھی شامل کر لیں گے۔‘‘

امید کی جا رہی ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان 18 نومبر کو وائٹ ہاؤس کا دورہ کریں گے۔

ٹرمپ نے بارہا کہا ہے کہ وہ ابراہیمی معاہدوں کو توسیع دینا چاہتے ہیں، جو انہوں نے وائٹ ہاؤس میں اپنے پہلے دورِ صدارت کے دوران کروائے تھےتصویر: Mostafa Alkharouf/Anadolu/picture alliance

ٹرمپ کی وسطی ایشیا کے رہنماؤں سے ملاقات

ٹرمپ نے جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں قزاقستان کے صدر توقایف سے ملاقات کی، جس میں وسطی ایشیا کے مزید چار رہنماؤں، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان، نے بھی شرکت کی۔

امریکہ اس خطے میں اثر و رسوخ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو طویل عرصے سے روس کے زیرِ اثر رہا ہے اور اب چین کی دلچسپی کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔

ٹرمپ نے کہا کہ ''یہاں نمائندگی کرنے والے کچھ ممالک ابراہیمی معاہدوں میں شامل ہونے جا رہے ہیں اور ان کے اعلانات آئندہ کچھ دنوں میں کر دیے جائیں گے ۔‘‘

ٹرمپ نے بارہا کہا ہے کہ وہ ان معاہدوں کو توسیع دینا چاہتے ہیں، جو انہوں نے وائٹ ہاؤس میں اپنے پہلے دورِ صدارت کے دوران کروائے تھے۔

متحدہ عرب امارات اور بحرین نے 2020 میں ٹرمپ کی ثالثی میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے تھے۔ اسی سال بعد میں مراکش نے بھی اسرائیل سے تعلقات استوار کیے۔

دیگر وسطی ایشیائی ممالک جیسے آذربائیجان اور ازبکستان، جن کے اسرائیل کے ساتھ پہلے ہی قریبی تعلقات ہیں، کو بھی ممکنہ طور پر ابراہیم معاہدوں میں شامل ہونے والے ممالک کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ معاہدے ٹرمپ کی پہلی صدارت کی ایک نمایاں خارجہ پالیسی کامیابی سمجھے جاتے ہیں۔

ادارت: صلاح الدین زین

جاوید اختر جاوید اختر دنیا کی پہلی اردو نیوز ایجنسی ’یو این آئی اردو‘ میں پچیس سال تک کام کر چکے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں