قزاقستان: دنیا بھر میں یورینیم کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ملک
11 جنوری 2022
وسطی ایشیائی جمہوریہ قزاقستان نہ صرف دنیا بھر میں یورینیم کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ملک ہے بلکہ یہ عالمی سطح پر سب سے زیادہ تیل اور کوئلہ پیدا کرنے والے ممالک میں بھی شمار ہوتا ہے۔
اشتہار
سابق سوویت یونین کی اس ریاست میں گزشتہ ہفتے توانائی کے ذرائع کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافے کے خلاف جو عوامی مظاہرے الماتی سے شروع ہو کر پورے ملک میں پھیل گئے تھے، ان میں ملکی وزارت صحت کے مطابق ڈیڑھ سو سے زائد افراد ہلاک اور دو ہزار سے زائد زخمی ہوئے جبکہ تقریباﹰ آٹھ ہزار افراد کو بدامنی پھیلانے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ پچھلے کئی برسوں کے دوران اس ملک میں ہونے والے ان شدید ترین اور سب سے ہلاکت خیز مظاہروں کے باعث توانائی کے ذرائع کی بین الاقوامی منڈیوں میں شدید بےچینی دیکھی گئی۔
مسلسل اقتصادی ترقی اور بین الاقوامی سرمایہ کاری
قزاقستان کو سوویت یونین کی تقسیم کے بعد آزاد ہوئے تین عشرے ہو گئے ہیں۔ اس دوران گزشتہ دو دہائیوں میں وہاں وسطی ایشیا کی چند دیگر ریاستوں میں نظر آنے والے مظاہروں اور عوامی بےچینی کے برعکس سیاسی استحکام اور اقتصادی ترقی دونوں دیکھنے میں آئے۔ اس عرصے میں قیمتی قدرتی وسائل سے مالا مال اس ریاست کی معیشت میں کئی گنا ترقی ہوئی اور کئی بڑے عالمی اداروں نے وہاں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کی، جن میں امریکا کی شیوران اور فرانس کی ٹوٹل جیسی انرجی کمپنیاں نمایاں تھیں۔
آگ اور خون: قذاقستان میں پرتشدد مظاہرے، تصویری رپورٹ
قذاقستان میں گیس کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف پر تشدد مظاہروں میں ایک ہزار سے زائد افراد زخمی اور درجنوں ہلاک ہو گئے۔ روسی اتحادی افواج بھی ملک میں داخل ہو چکی ہیں۔ قذاقستان میں ہونے والے واقعات اس تصویری رپورٹ میں
تصویر: Valery Sharifulin/TASS/imago images
مظاہروں کی وجہ قدرتی گیس کی قیمتوں میں اضافہ
قزاقستان میں مائع قدرتی گیس کی قیمتوں میں اضافے کے بعد بڑے پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے۔ بدھ پانچ جنوری کو الماتی میں مظاہرین نے صدارتی رہائش گاہ اور میونسپل عمارت پر دھاوا بول دیا اور دونوں عمارتوں کو آگ لگا دی۔ حالیہ دنوں میں، پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس، سٹن گرینیڈ، واٹر کینن اور یہاں تک کہ براہ راست فائرنگ کا بھی استعمال کیا۔
تصویر: Valery Sharifulin/TASS/imago images
روسی دستے قذاقستان میں
پرتشدد مظاہروں کے بعد قازق صدر قاسم جومارت توکائیوف نے روس کی قیادت میں قائم اجتماعی سلامتی کے معاہدے کی تنظیم (CSTO) سے مدد کی اپیل کی۔ روس کی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا کی طرف سے جمعرات کو ایک بیان میں تنظیم کے سیکرٹریٹ نے کہا کہ مجموعی سلامتی معاہدہ تنظیم (CSTO) کے امن دستوں کو ایک محدود وقت کے لیے جمہوریہ قذاقستان بھیج دیا گیا ہے تاکہ حالات کو مستحکم اور معمول پر لایا جا سکے۔
جنوب مغربی قازق شہر جاناؤزن میں اتوار دو جنوری کو پر تشدد مظاہرے پھوٹ پڑے، جو طویل عرصے سے حکومت مخالف مظاہروں کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ منگل کو دارالحکومت نور سلطان اور قذاقستان کے سب سے بڑے شہر الماتی میں بڑے پیمانے پر احتجاج کے ساتھ احتجاج تیزی سے دوسرے شہروں تک پھیل گیا۔
تصویر: Zhanbyrbaevkz/TASS/dpa/picture alliancev
فوجی دستوں اور بکتر بند گاڑیوں کا استعمال
گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین سے نمٹنے کے لیے فوجی دستوں اور بکتر بند گاڑیوں کا بھی استعمال کیا گیا۔
تصویر: REUTERS
مظاہرین کی طرف سے سرکاری عمارات نذر آتش
مظاہرے تشدد کی شکل اختیار کر گئے۔ کئی سرکاری گاڑیوں اور سرکاری عمارتوں کو آگ لگا دی گئی۔
تصویر: Vladimir Tretyakov/AP/picture alliance
مظاہرین پر فائرنگ
مظاہروں کے دوران سکیورٹی فورسز کی طرف سے مظاہرین پر براہ راست فائرنگ بھی کی گئی۔
مظاہروں کے عروج پر وزیر اعظم عسکر مامن اور ان کی کابینہ نے استعفیٰ دے دیا۔ قذاقستان کے صدر قاسم جومارت توکائیوف نے بدھ کی صبح کابینہ کا استعفیٰ منظور کرنے کے بعد کہا کہ وہ احتجاج کو روکنے کے لیے فیصلہ کن کارروائی کریں گے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے چیئرمین کریم ماسیموف کو بھی معزول کر دیا گیا۔
تصویر: Andrei Pokumeiko/BelTA/TASS/dpa/picture alliance
با اوجگیری اعتراضها وضعیت فوقالعاده در قزاقستان اعلام شد. همزمان دسترسی به سایتهای خبری قطع شد و به گزارش سازمان دیدهبان فضای مجازی "شبکه اینترنت در قزاقستان کاملا قطع شده است".
تصویر: REUTERS
فوج کو کارروائی کرنے کی ہدایت
جمعرات چھ جنوری کی صبح، قازق صدر نے اعلان کیا کہ انہوں نے فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ ’’دہشت گردی‘‘ کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کے لیے کارروائی کرے۔
تصویر: Vladimir Tretyakov/AP Photo/picture alliance
ایک ہزار سے زائد افراد زخمی
قذاقستان کی وزارت صحت نے جمعرات کو اعلان کیا کہ بدامنی میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ قزاقستان کے نائب وزیر صحت اظہر گنیت کے مطابق، ’’ان میں سے تقریباً 400 ہسپتال میں داخل ہیں اور 62 انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں ہیں۔‘‘
تصویر: Vladimir Tretyakov/AP/picture alliance
قانون شکنی کرنے والوں کو انتباہ
قذاقستان کے صدر قاسم جومارت توکائیوف نے بدھ کو ایک ٹیلی ویژن تقریر میں کہا، ’’ہم قانون شکنی کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹیں گے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی وعدہ کیا کہ وہ جلد ہی دور رس سیاسی اصلاحات کریں گے اور جب تک بدامنی جاری رہے گی وہ ذاتی طور پر قومی سلامتی کونسل کی سربراہی کریں گے۔
تصویر: PAVEL MIKHEYEV/REUTERS
درجنوں ہلاکتیں
حکومتی ذرائع نے بتایا کہ مظاہرین میں سے کچھ مسلح بھی تھے۔ قذاقستان کی وزارت داخلہ نے بدھ کو اعلان کیا تھا کہ پولیس افسران اور نیشنل گارڈز کے 18 ارکان ہلاک ہوئے۔ الماتی پولیس نے جمعرات کو کہا کہ سرکاری عمارتوں پر حملوں کے دوران جھڑپوں میں ’’درجنوں افراد‘‘ مارے گئے۔
تصویر: Anadolu Agency/picture alliance
12 تصاویر1 | 12
کئی برسوں کے اس سیاسی اور اقتصادی استحکام کے برعکس قزاقستان میں حالیہ عوامی مظاہرے ایسا احتجاج تھے، جس کی وجہ ملک میں پائی جانے والی بدعنوانی اور اقربا پروری بنی اور حالات کو قابو میں کرنے کے لیے طویل عرصے سے حکمران خود پسند صدر قاسم جومارت توکائیف کو نہ صرف ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنا پڑ گئی بلکہ روس اور چند دیگر سابق سوویت ریاستوں نے اپنے ڈھائی ہزار کے قریب امن فوجی بھی قزاقستان بھیج دیے۔
غیر ملکی سرمایہ کار اداروں کی تشویش
قزاقستان نہ صرف دنیا کے سب سے زیادہ تیل اور کوئلہ پیدا کرنے والے ممالک میں شمار ہوتا ہے بلکہ یہ عالمی سطح پر یورینیم برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بھی ہے۔ لیکن حالیہ سیاسی اور سماجی بدامنی نے اس ریاست کی 'سرمایہ کاری کے لیے ایک مستحکم اور قابل اعتماد منزل‘ کے طور پر ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔
وسطی ایشیائی سیاسی اور اقتصادی امور کے ماہر ٹموتھی ایش نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''ان مظاہروں کے نتیجے میں مستقبل میں اس ملک میں موجودہ ہی حکومت برقرار رہے یا کوئی نئی انتظامیہ اقتدار میں آ جائے، اہم بات یہ ہے کہ کوئی بھی حکومت اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتی کہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری سونے کا انڈہ دینے والی ایک ایسی مرغی ہے، جس کی طرف سے انڈے دینے کا عمل بند نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
چرنوبل جوہری سانحے کے 33 برس
چرنوبل جوہری حادثے میں بچ جانے والے 33 برس سے اس آفت سے نمٹنے کی کوششوں میں ہیں۔ سوویت دور میں پیش آنے والے اس سانحے کے اثرات آج تک اس علاقے کو ایک بھیانک رنگ دیے ہوئے ہیں۔
تصویر: DW/F. Warwick
مرنے والوں کی یاد
اس وقت یوکرائن سویت یونین کا حصہ تھا۔ اس جوہری پلانٹ میں دھماکے کے فوراﹰ بعد 30 افراد تاب کاری کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے، جب کہ بعد میں بھی کئی افراد تاب کاری کا نشانہ بنے اور اپنی جان سے گئے۔ 90 ہزار سے زائد مزدوروں نے اس آفت زدہ پلانٹ کے گرد چھ ماہ بعد ایک مضبوط دیوار قائم کی۔
تصویر: DW/F. Warwick
بچ جانے والے خوش قسمت
سیرگئی نوویکوف بچ جانے والے خوش قسمت افراد میں سے ایک تھے۔ انہوں نے 1986ء میں اس پلانٹ کی سکیورٹی پر مامور تھے۔ اس انتہائی تاب کاری کے مقام پر کام کی وجہ سے انہوں نے قرب المرگ کیفیت کا سامنا کیا۔ وہ ہسپتال میں داخل ہوئے اور ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ وہ اگلے کچھ ماہ میں جان کی بازی ہار بیٹھیں گے، مگر ڈاکٹروں کے اندازے غلط نکلے۔
تصویر: DW/F. Warwick
دن شمار کرتے لوگ
نوویکوف کی اہلیہ رائسہ نے اس وقت کلینڈر پر وہ دن نشان زدہ کرنا شروع کر دیے تھے، جب ان کے شوہر چرنوبل سانحے کے بعد انتہائی تاب کاری والے علاقے میں کام کرتے تھے۔ وہ پیلے قلم اور نیلے قلم سے اس کیلنڈر پر دن شمار کرتی رہیں۔ سول اور فوجی اہلکاروں کی تعداد چھ سے آٹھ لاکھ تھی، جنہوں نے اس سانحے کے بعد کلین اپ یا صفائی آپریشن میں حصہ لیا۔
تصویر: DW/F. Warwick
چرنوبل سانحے کے ’مسیحا‘
چرنوبل سانحے کے ’مسیحا‘ کی علامت یہ آئیکون ہے۔ اس میں ایک طرف یسوع مسیح جنت میں دکھائی دیے رہے ہیں، جب کہ دوسری جانب اس سانحے کے متاثرین اور صفائی کے کام میں مصروف اہلکار ہیں، جنہیں وہ محبت نذرانہ کر رہے ہیں۔ اس واقعے کے بعد بہت سے افراد نے امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور مقامی آبادی کو دیگر مقامات پر منتقل کیا گیا۔
تصویر: DW/F. Warwick
تنہا چھوڑ دیے گئے ملازمین
اس سانحے کے بعد صفائی کے کام میں حصہ لینے اور تاب کاری کے سامنے ڈٹے رہنے والے افراد کو بعد میں تنہا چھوڑ دیا گیا۔ یہ افراد برسوں اپنے لیے مراعات اور پینشن کی کوششیں کرتے رہے۔ نیل مارداگالیموف بھی ایسے ہی ایک شخص ہیں جن کے مطابق انہوں نے اس سانحے کے بعد اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دیں، مگر حکومت کی جانب سے انہیں بعد میں کچھ بھی نہ ملا۔
تصویر: DW/F. Warwick
کھلے آسمان تلے
کوپاچی کے علاقے میں ایک گڑیا زمین پر پڑی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ گاؤں اس واقعے کے بعد خالی کرا دیا گیا تھا اور اب تک یہ کسی بھوت بنگلے کا منظر پیش کرتا ہے۔ اب بھی یہاں تاب کاری کی شرح ہیروشیما اور ناگاساکی کے جوہری حملے سے بیس گنا زیادہ ہے۔
تصویر: DW/F. Warwick
واپس لوٹنے والے
زالیسیا خالی کرائے جانے والا سب سے بڑا گاؤں تھا۔ یہاں سے 35 سو افراد کو سن 1986اور 1987 میں مختلف شہری مقامات پر منتقل کیا گیا، تاہم ان فراد کو شہروں میں رہنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا اور قریب ایک ہزار افراد بعد میں رفتہ رفتہ اپنے گاؤں واپس لوٹ آئے۔ انہیں میں ایک خاتون روزیلینا دسمبر میں اپنی عمر کی آٹھویں دہائی میں فوت ہو گئیں۔
تصویر: DW/F. Warwick
شہرِ خموشاں
اس جوہری تنصیب سے تین کلومیٹر دور واقع شہر پریپیات سوویت اشرافیہ کا مسکن تھا، جہاں زیادہ تر افراد ماسکو، کییف اور دیگر مقامات سے آ کر آباد ہوئے تھے۔ یہاں کا معیار زندگی انتہائی بلند تھا، مگر چرنوبل حادثے نے یہ شہر ایک کھنڈر بنا دیا۔
تصویر: DW/F. Warwick
فطرت کی واپسی
کھیلوں کا یہ مرکز پریپیات کے ان مقامات میں سے ایک ہے، جہاں معیار زندگی کی بلندی دیکھی جا سکتی ہے۔ سوویت دور کے اہم ایتھلیٹس اس شہر میں آیا کرتے تھے۔ اب یہاں پودوں میں سبز پتے رفتہ رفتہ دکھائی دینے لگے ہیں۔
تصویر: DW/F. Warwick
نمبر تین اسکول
اس شہر کی ایک تہائی آبادی 18 برس سے کم عمر افراد پر مشتمل تھی، جو قریب 17 ہزار بنتی تھی۔ اس شہر میں 15 پرائمری اور پانچ سیکنڈری تھے، جب کہ ایک ٹیکنیکل کالج بھی تھا۔
تصویر: DW/F. Warwick
سوویت ماسک
سوویت دور میں اسکولوں میں شہری دفاع کی خصوصی تربیت دی جاتی تھی، جن میں گیس حملے کی صورت میں ماسک کا استعمال بھی سکھایا جاتا ہے۔ اسکول نمبر تین میں یہ گیس ماسک بچوں کو اسی تربیت کے لیے دیے گئے تھے، جب اب وہاں ایک ڈھیر کی صورت میں موجود ہیں۔
تصویر: DW/F. Warwick
ایک سوویت یادگار
لگتا ہی نہیں کہ پریپیات یوکرائن کا علاقہ ہے۔ ایک مقامی گائیڈ کے مطابق، ’’یہ شہر ایک سوویت یادگار ہے اور بتاتا ہے کہ سوویت دور میں زندگی کیسی ہوا کرتی تھی۔‘‘
تصویر: DW/F. Warwick
12 تصاویر1 | 12
ٹموٹھی ایش نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عمومی تاثر یہی ہے کہ قزاقستان میں قدرتی وسائل اور ان کی برآمد کا شعبہ مقابلتاﹰ مستحکم ہی رہے گا اور یہ پہلو بھی حوصلہ افزا ہے کہ حالیہ مظاہروں کے دوران بھی ملک میں توانائی کے شعبے اور خام مادوں کی پیداوار کے عمل میں کوئی بڑا خلل نہیں پڑا۔‘‘
اشتہار
یورینیم کی عالمی پیداوار کے چالیس فیصد سے زائد کا ذمے دار ملک
قزاقستان عالمی سطح پر یورینیم کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ملک اس لیے ہے کہ پوری دنیا میں یورینیم کی پیداوار میں اس کا حصہ 40 فیصد سے زائد ہے۔ یہ یورینیم دنیا کے بہت سے ممالک میں جوہری ری ایکٹروں اور بجلی گھروں میں استعال ہوتا ہے۔ یوں توانائی کے ذرائع کی عالمی منڈیوں میں قزاقستان کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔
یورینیم برآمد کرنے والے ملک کے طور پر اس کی اہمیت اس لیے اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے کہ یورپی یونین کے رکن ممالک سمیت بہت سی ریاستوں میں روایتی معدنی ایندھن کا استعمال بند کر دینے کے رجحان کے باعث جوہری توانائی پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔
ان حالات میں قزاتومپروم کی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں، جو قزاقستان میں سرکاری انتظام میں کام کرنی والی کمپنی ہے اور عالمی سطح پر یورینیم پیدا کرنے والا سب سے بڑا ادارہ۔ قزاقستان میں نئے سال کے آغاز پر شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے بعد بین الاقوامی منڈیوں میں یورینیم کی قیمتیں یکدم بہت زیادہ ہو گئی تھیں اور ان میں کچھ استحکام اس وقت آیا، جب قزاتومپروم کی طرف سے کہا گیا کہ ان مظاہروں کے باعث اس کی پیداوار متاثر نہیں ہوئی۔
سوویت یونین کا زوال اوراس کے بعد وجود میں آنے والی ریاستیں
11 مارچ 1990 کو لیتھوانیا نے سوویت یونین سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ تاہم سویت یونین نے اس جمہوریہ کو طاقت سے دبانے کی کوشش کی۔ اس کا نہایت سخت ردعمل سامنے آیا اور یکے بعد دیگرے سوویت یونین کی 15 ریاستیں الگ ممالک بن گئیں۔
قزاقستان وسطی ایشیا میں تیل پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، جس کی یومیہ پیداوار 1.6 ملین بیرل ہے۔ اس ملک میں خام تیل کے مصدقہ ذخائر کا اندازہ 30 بلین بیرل بنتا ہے، جو دنیا کے 12 ویں سب سے بڑے ذخائر ہیں۔ یہ دنیا کو کوئلہ برآمد کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک بھی ہے، جس نے 2018ء میں 108 ملین ٹن کوئلہ برآمد کیا تھا۔
اس کے علاوہ یورپ یورینیم کی اپنی سالانہ ضروریات کا 20 فیصد اسی ملک کے ذریعے پوری کرتا ہے جبکہ قزاقستان کی خام تیل کی برآمدات کے 80 فیصد کی منزل بھی یورپی یونین کے ممالک ہی ہوتے ہیں۔
اس تناظر میں دنیا کو ایک مستحکم قزاقستان کی ضرورت ہے اور وہاں کی حکومت اس استحکام کی ضمانت دینے کی پوری کوشش کرے گی کیونکہ اربوں ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری اور توانائی کے ذرائع کی برآمد سے ہونے والی آمدنی اس ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔