قزاقستان میں پرتشدد مظاہرے: ایک سو چونسٹھ ہلاکتیں، وزارت صحت
9 جنوری 2022
وسطی ایشیائی جمہوریہ قزاقستان میں حالیہ پرتشدد عوامی مظاہروں اور بدامنی کے واقعات میں ملکی وزارت صحت کے مطابق ایک سو چونسٹھ افراد ہلاک اور دو ہزار دو سو سے زائد زخمی ہوئے۔ ایک سو تین ہلاکتیں صرف الماتی میں ہوئیں۔
اشتہار
سابق سوویت یونین کی اس جمہوریہ میں ملکی وزارت صحت کی طرف سے گزشتہ کئی دنوں کے دوران بدامنی کے واقعات میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں سے متعلق جاری کردہ یہ اعداد و شمار سرکاری نشریاتی ادارے خبر۔24 نے نشر کیے۔ یہ تعداد اب تک کے اندازوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
یہ واضح نہیں کہ آیا ان 164 ہلاکتوں سے مراد صرف شہری اموات ہیں یا ان میں کئی روزہ بدامنی کے دوران مارے جانے والے سکیورٹی اہلکاروں کو بھی شمار کیا گیا ہے۔ قبل ازیں آج ہی اتوار نو جنوری کے روز حکومتی ذرائع نے ایک علیحدہ بیان میں یہ تصدیق بھی کی تھی کہ اس بدامنی میں مجموعی طور پر 16 پولیس اہلکار اور نیشنل گارڈز مارے گئے۔
صرف الماتی میں ایک سو تین ہلاکتیں
قزاقستان میں نئے سال کے آغاز پر ایندھن کی بہت زیادہ قیمتوں کے خلاف عوامی مظاہرے ملک کے سب سے بڑے شہر الماتی میں شروع ہوئے تھے، جو دیکھتے ہی دیکھتے ملک بھر میں پھیل گئے تھے۔ اس احتجاج کے دوران مظاہرین نے الماتی میں میئر کے دفتر کی بلڈنگ سمیت کئی سرکاری عمارات پر قبضہ بھی کر لیا تھا اور چند عمارات کو آگ بھی لگا دی گئی تھی۔
وزارت صحت کے مطابق 164 ہلاکتوں میں سے سب سے زیادہ الماتی میں ہوئیں، جن کی تعداد 103 بنتی ہے۔ اس کے علاوہ ہلاک شدگان میں تین نابالغ افراد بھی شامل ہیں، جن میں سے ایک بچی کی عمر تو صرف چار سال تھی۔
ڈھائی ہزار غیر ملکی فوجی
قزاقستان میں بدامنی اور حکومت مخالف مظاہروں پر قابو پانے کے لیے ملکی صدر توکائیف نے سکیورٹی فورسز کو مظاہرین کو دیکھتے ہی بغیر کسی انتباہ کے گولی مار دینے کا حکم بھی دے دیا تھا۔
تقریباﹰ اسی وقت صورت حال بہت زیادہ خراب ہو جانے پر روس اور سابق سوویت یونین کی چار دیگر ریاستوں نے اپنے تقریباﹰ ڈھائی ہزار امن دستے قزاقستان بھیج دیے تھے تاکہ حالات پر قابو پانے میں قزاقستان کی حکومت کی مدد کی جا سکے۔ ان امن دستوں میں اکثریت روسی فوجیوں کی ہے۔
سوویت یونین کا زوال اوراس کے بعد وجود میں آنے والی ریاستیں
11 مارچ 1990 کو لیتھوانیا نے سوویت یونین سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ تاہم سویت یونین نے اس جمہوریہ کو طاقت سے دبانے کی کوشش کی۔ اس کا نہایت سخت ردعمل سامنے آیا اور یکے بعد دیگرے سوویت یونین کی 15 ریاستیں الگ ممالک بن گئیں۔
ملکی وزارت صحت کے مطابق ان کئی روزہ مظاہروں میں مجموعی طور پر دو ہزار دو سو سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔ وزارت داخلہ کے بیانات کے مطابق ان میں سے تیرہ سو زخمی ملکی سکیورٹی فورسز کے اہلکار ہیں۔
اسی دوران صدر توکائیف کے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ملکی ادارے حالیہ بدامنی میں ملوث ملزمان کی شناخت اور تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس سلسلے میں 125 بڑے واقعات کی چھان بین جاری ہے اور اب تک کی تفتیش کے نتیجے میں مجموعی طور پر پانچ ہزار آٹھ سو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
م م / ع ت (اے پی، روئٹرز)
آگ اور خون: قذاقستان میں پرتشدد مظاہرے، تصویری رپورٹ
قذاقستان میں گیس کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف پر تشدد مظاہروں میں ایک ہزار سے زائد افراد زخمی اور درجنوں ہلاک ہو گئے۔ روسی اتحادی افواج بھی ملک میں داخل ہو چکی ہیں۔ قذاقستان میں ہونے والے واقعات اس تصویری رپورٹ میں
تصویر: Valery Sharifulin/TASS/imago images
مظاہروں کی وجہ قدرتی گیس کی قیمتوں میں اضافہ
قزاقستان میں مائع قدرتی گیس کی قیمتوں میں اضافے کے بعد بڑے پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے۔ بدھ پانچ جنوری کو الماتی میں مظاہرین نے صدارتی رہائش گاہ اور میونسپل عمارت پر دھاوا بول دیا اور دونوں عمارتوں کو آگ لگا دی۔ حالیہ دنوں میں، پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس، سٹن گرینیڈ، واٹر کینن اور یہاں تک کہ براہ راست فائرنگ کا بھی استعمال کیا۔
تصویر: Valery Sharifulin/TASS/imago images
روسی دستے قذاقستان میں
پرتشدد مظاہروں کے بعد قازق صدر قاسم جومارت توکائیوف نے روس کی قیادت میں قائم اجتماعی سلامتی کے معاہدے کی تنظیم (CSTO) سے مدد کی اپیل کی۔ روس کی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا کی طرف سے جمعرات کو ایک بیان میں تنظیم کے سیکرٹریٹ نے کہا کہ مجموعی سلامتی معاہدہ تنظیم (CSTO) کے امن دستوں کو ایک محدود وقت کے لیے جمہوریہ قذاقستان بھیج دیا گیا ہے تاکہ حالات کو مستحکم اور معمول پر لایا جا سکے۔
جنوب مغربی قازق شہر جاناؤزن میں اتوار دو جنوری کو پر تشدد مظاہرے پھوٹ پڑے، جو طویل عرصے سے حکومت مخالف مظاہروں کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ منگل کو دارالحکومت نور سلطان اور قذاقستان کے سب سے بڑے شہر الماتی میں بڑے پیمانے پر احتجاج کے ساتھ احتجاج تیزی سے دوسرے شہروں تک پھیل گیا۔
تصویر: Zhanbyrbaevkz/TASS/dpa/picture alliancev
فوجی دستوں اور بکتر بند گاڑیوں کا استعمال
گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین سے نمٹنے کے لیے فوجی دستوں اور بکتر بند گاڑیوں کا بھی استعمال کیا گیا۔
تصویر: REUTERS
مظاہرین کی طرف سے سرکاری عمارات نذر آتش
مظاہرے تشدد کی شکل اختیار کر گئے۔ کئی سرکاری گاڑیوں اور سرکاری عمارتوں کو آگ لگا دی گئی۔
تصویر: Vladimir Tretyakov/AP/picture alliance
مظاہرین پر فائرنگ
مظاہروں کے دوران سکیورٹی فورسز کی طرف سے مظاہرین پر براہ راست فائرنگ بھی کی گئی۔
مظاہروں کے عروج پر وزیر اعظم عسکر مامن اور ان کی کابینہ نے استعفیٰ دے دیا۔ قذاقستان کے صدر قاسم جومارت توکائیوف نے بدھ کی صبح کابینہ کا استعفیٰ منظور کرنے کے بعد کہا کہ وہ احتجاج کو روکنے کے لیے فیصلہ کن کارروائی کریں گے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے چیئرمین کریم ماسیموف کو بھی معزول کر دیا گیا۔
تصویر: Andrei Pokumeiko/BelTA/TASS/dpa/picture alliance
با اوجگیری اعتراضها وضعیت فوقالعاده در قزاقستان اعلام شد. همزمان دسترسی به سایتهای خبری قطع شد و به گزارش سازمان دیدهبان فضای مجازی "شبکه اینترنت در قزاقستان کاملا قطع شده است".
تصویر: REUTERS
فوج کو کارروائی کرنے کی ہدایت
جمعرات چھ جنوری کی صبح، قازق صدر نے اعلان کیا کہ انہوں نے فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ ’’دہشت گردی‘‘ کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کے لیے کارروائی کرے۔
تصویر: Vladimir Tretyakov/AP Photo/picture alliance
ایک ہزار سے زائد افراد زخمی
قذاقستان کی وزارت صحت نے جمعرات کو اعلان کیا کہ بدامنی میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ قزاقستان کے نائب وزیر صحت اظہر گنیت کے مطابق، ’’ان میں سے تقریباً 400 ہسپتال میں داخل ہیں اور 62 انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں ہیں۔‘‘
تصویر: Vladimir Tretyakov/AP/picture alliance
قانون شکنی کرنے والوں کو انتباہ
قذاقستان کے صدر قاسم جومارت توکائیوف نے بدھ کو ایک ٹیلی ویژن تقریر میں کہا، ’’ہم قانون شکنی کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹیں گے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی وعدہ کیا کہ وہ جلد ہی دور رس سیاسی اصلاحات کریں گے اور جب تک بدامنی جاری رہے گی وہ ذاتی طور پر قومی سلامتی کونسل کی سربراہی کریں گے۔
تصویر: PAVEL MIKHEYEV/REUTERS
درجنوں ہلاکتیں
حکومتی ذرائع نے بتایا کہ مظاہرین میں سے کچھ مسلح بھی تھے۔ قذاقستان کی وزارت داخلہ نے بدھ کو اعلان کیا تھا کہ پولیس افسران اور نیشنل گارڈز کے 18 ارکان ہلاک ہوئے۔ الماتی پولیس نے جمعرات کو کہا کہ سرکاری عمارتوں پر حملوں کے دوران جھڑپوں میں ’’درجنوں افراد‘‘ مارے گئے۔