سائیکل چلانا میرا پجپن کا شوق ہے- کوئی بھی نئی جگہ گھومنے کے لیے یہ بہترین سواری ہے۔ میں نے امریکا میں سائیکل چلائی، بیروت اور برطانیہ میں، حتیٰ کہ افغانستان میں بھی۔
اشتہار
کچھ سال پہلے جب لندن سے واپس کراچی منتقل ہوا تو اپنی نارنجی رنگ والی سائیکل ساتھ لے آیا۔ لیکن جب کبھی اتوار کے روز سائیکل لے کر کلفٹن کی گلیوں میں نکلا، تو ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر جگہ جگہ گند کچرا آڑے آیا تو کبھی آوارہ کتے پیچھے لگ گئے۔مجبوراً سائیکل کو اسٹور روم میں رکھوا دیا-
جرمنی پہنچا تو یہاں میری مالک مکان ایک اسّی سالہ خاتون نکلیں۔وہ دوسری منزل پر اپنے فلیٹ میں تنہا رہتی ہیں۔شاید عمر کا تقاضا ہے کہ انہیں سائیکل چلانے میں کبھی کبھی چکر آتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے اپنی اعلیٰ معیار کی جرمن سائیکل میرے حوالے کر دی اور کہا " پڑے پڑے خراب ہو رہی ہے، شاید آپ کے کام آجائے۔''
ایسا نہیں کہ ڈاکٹر ہیلگا کوئی ضعیف خاتون ہیں۔ وہ دیکھنے میں ساٹھ برس کے لگ بھگ لگتی ہوں گی لیکن فٹ فاٹ ایسی کہ لفٹ کی بجائے سیڑھیاں چڑھنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ اپنے سارے کام خود کرتی ہیں۔ ہر ہفتے کئی کئی گھنٹے آس پاس کی سرسبز پہاڑیوں میں پیدل گھومتی ہیں۔وہاں سے طرح طرح کی بیریز چن کر لاتی ہیں اور ان کا مربہ بناتی ہیں۔
میں مزے سے ان کی دی ہوئی سائیکل چلاتا درختوں کے بیچ پگڈنڈیوں اور پھر بون شہر کی صاف ستھری سڑکوں سے ہوتا بارہ پندرہ منٹ میں دریائے رائن پر واقع دفتر پہنچ جاتا ہوں۔
راستے میں سوچتا ہوں کہ کہاں روزانہ کراچی کے ٹریفک کا دھواں اور شور، اور کہاں اس ہرے بھرے علاقے کا سناٹا۔ جسم یہاں ہے، لیکن دل و دماغ پھر بھی وہاں۔ اس کیفیت کو کلچر شاک کہتے ہیں، جس سے زندگی میں کئی بار گذر چکا ہوں۔ تھک کر طے کیا کہ بس اب کافی دنیا گھوم لی، اب اپنے ملک میں ہی رہنا ہے۔ لیکن قسمت کو کچھ اور منظور تھا، اٹھا کر یہاں لے آئی۔
سائیکل کا پیڈل چلتا رہے اور ٹائر گھومتا رہے، اسی میں بہتری ہے۔ خواہش بس اتنی سی تھی کہ کاش یہی کچھ کرنے کی گنجائش اپنے ملک میں ہوتی تو آج کراچی میں میری سائیکل زنگ نہ پکڑ رہی ہوتی۔
وہ شہر جہاں سائیکلنگ کا لطف اٹھایا جا سکتا ہے
سائیکلنگ ماحول دوست، صحت مندانہ اور سستا شوق ہے۔ کئی یورپی شہر اپنی ’سائیکل دوستی‘ پر لاکھوں یورو خرچ کر رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gentsch
کوپن ہیگن
ڈنمارک کے دارالحکومت میں سائیکل سواری کے لیے ساڑھے تین سو کلومیٹر طویل نیٹ ورک موجود ہے۔ ٹریفک سگنلز پر سائیکل سواروں کے لیے ترجیحی اشارے موجود ہیں۔ سگنلز پر سبز اشارے کے انتظار کے لیے ’فٹ ریسٹ‘ بھی بنائے گئے ہیں۔ انگریزی میں ایک لفظ ’کوپین ہیگینائز‘ ماحول دوست شہروں کے لیے متعارف ہو چکا ہے۔
ہالینڈ کا شہر ایمسٹرڈم بھی یورپ میں سائیکل دوستی کے لیے شہرت رکھتا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ایمسٹرڈم میں سائیکل سوار تقریباً بیس لاکھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہیں۔ اس شہر کی میدانی سطح بھی سائیکلنگ کے لیے مناسب ہے۔ ہالینڈ کے ایک اور شہر اتریخت میں سائیکلیں کھڑی کرنے کا سب سے بڑا گیراج موجود ہے۔ اس میں ساڑھے بارہ ہزار سائیکلیں کھڑی کرنے کی گنجائش ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/N. Economou
اینٹویرپ
بیلجیم کے شہر اینٹورپ میں سائیکلیں کھڑی کرنے کے بے شمار مقامات ہیں۔ اس شہر کو بھی ’کوپن ہیگینائزڈ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ کرائے پر سائیکل حاصل کرنے کے نظام کو وسعت دینے کے علاوہ ساحل تک سائیکلنگ ٹریک کو توسیع دی جائے گی۔ پیدل چلنے والوں کے لیے بھی مختلف سڑکوں پر پل بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کے باوجود شہر کی سڑکیں ٹریفک سے بھری رہتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Arco Images/P. Schickert
پیرس
پیرس کی شہری انتظامیہ بتدریج سائیکل نیٹ ورک کو توسیع دینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اتوار کے دن تو کئی سڑکیں ٹریفک کے لیے بند اور سائیکل سواروں کے لیے کھلی ہوتی ہیں۔ بطور سیاح پیرس میں سائیکلنگ آسان ہے۔ کرائے پر سائیکل حاصل کرنے میں دشواری نہیں ہوتی۔ سائیکل دوستی ایک اور فرانسیسی شہر اسٹراسبرگ میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ پورے فرانس میں پیرس کو سب سے زیادہ سائیکل دوست شہر قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/robertharding/S. Dee
مالمو
سویڈن کے شہر مالمو کی شہری انتظامیہ سائیکلنگ کے فروغ کے لیے کثیر رقوم خرچ کر رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے پانچ سو کلومیٹر طویل نیٹ ورک دستیاب ہے۔ راستے میں سائیکل میں ہوا بھرنے کی سہولت بھی فراہم کر دی گئی ہے۔ مالمو اور کوپن ہیگن کے درمیان ’بائیک فیری‘ بھی سیاحت کو فروع دینے کا سبب بن رہی ہے۔ مالمو میں بائیسکل ہوٹل بھی ہیں اور اپنی سائیکل ہوٹل کے کمرے کے باہر بھی کھڑی کی جا سکتی ہے۔
تصویر: Ohboy
ٹرونڈ ہائم
ناروے کے پہاڑی شہر ٹرونڈہائم میں لفٹ کے ذریعے پہاڑی حصے پر سائیکل سواروں کو پہنچایا جاتا ہے۔ شہر کے پہاڑی حصے میں 130 کلومیٹر لمبا سائیکل ٹریک موجود ہے اور اس پر تین سو افراد بیک وقت سائیکلنگ کر سکتے ہیں۔
تصویر: public domain
میونسٹر
جرمنی میں میونسٹر ایک ایسا شہر ہے، جہاں آبادی سے زیادہ سائیکلیں ہیں۔ یہ ویسٹ فیلیا نامی علاقے میں واقع ہے۔ اسی لیے یہ جرمنی کا وہ شہر بھی ہے، جہاں سائیکلوں کی چوری بھی بہت زیادہ ہے۔ ان چوریوں سے بھی مقامی شہری حوصلہ نہیں ہارے اور ہر چوری کے بعد نئی سائیکل خرید لیتے ہیں۔ شہر میں سائیکل چلانا آسان ہے۔ اونچ نیچ کے بغیر کھلے میدانی راستے میونسٹر کے سائیکل سواروں کو بہت پسند ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
بارسلونا
سن 2002 سے ہسپانوی شہر بارسلونا میں سائیکل کرائے پر بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس شہر میں ڈیڑھ سو کلومیٹر سے بھی طویل سائیکل ٹریک نیٹ ورک ہے۔ شہر سائیکل سواروں کے لیے محفوظ قرار دیا جاتا ہے۔ سیاحوں کو بھی کرائے کی سائیکلیں لے کر ساحل اور دوسرے تاریخی مقامات تک جانے میں آسانی ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/G. Guarino
بازل
سوئٹزرلینڈ کا شہر بازل بھی ایک وسیع میدانی علاقے میں واقع ہے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ تک جانے کے لیے فاصلے بھی زیادہ نہیں ہیں۔ اسی لیے یہ سائیکلنگ کے لیے بھی ایک آسان شہر ہے۔ گلیوں میں بھیڑ ہوتی ہے اور سائیکل سواروں کو بھی احتیاط کرنا پڑتی ہے۔ گرمیوں میں کئی سائیکل سوار سوئٹزرلینڈ کے مختلف شہروں میں سائیکل چلاتے ہوئے خوبصورت جھیلوں تک جانے کو ایک پرکشش تفریح سمجھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/M. Dr. Schulte-Kellinghaus