افغان تارکین وطن کی اجتماعی ملک بدری کا سلسلے کے تحت جرمنی سے چودہ مہاجرین پر مشتمل ایک اور گروہ کو واپس افغانستان بھیجنے پر تنقید کی جا رہی ہے۔ جرمن حکام کے مطابق ان میں سے گیارہ سزا یافتہ مجرم تھے۔
اشتہار
افغان حکام نے تصدیق کر دی ہے کہ افغان مہاجرین کا ایک اور گروہ بدھ کے دن کابل پہنچ گیا۔ افغان بارڈر فورس کے ترجمان اجمل فیضی نے ڈی پی اے سے گفتگو میں کہا کہ مشرقی جرمن شہر لائپزگ کے ہوائی اڈے سے ایک پرواز کے ذریعے ان افغان مہاجرین کو واپس روانہ کیا گیا۔
جرمنی: افغان مہاجرین کی اجتماعی ملک بدری پھر سے شروع
01:33
جرمن وزارت دفاع کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جن چودہ افراد کو افغانستان واپس روانہ کیا گیا، ان میں گیارہ سزا یافتہ مجرم تھے جبکہ باقی تین نے جرمنی میں پناہ کی درخواست جمع کراتے ہوئے غلط بیانی کی تھی۔ اس بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ افغان باشندے جرمنی کے مختلف سات صوبوں میں قیام پذیر تھے۔
دسمبر سن 2016 میں افغان تارکین وطن کی اجتماعی ملک بدری کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اس سلسلے کے تحت یہ افغان مہاجرین کا ساتواں گروپ تھا، جسے واپس افغانستان روانہ کیا گیا ہے۔ جرمن حکام کے مطابق اب تک مجموعی طور پر 128 افغان باشندوں کو وطن واپس روانہ کیا جا چکا ہے۔
جرمن اور افغان حکومتوں کے مابین گزشتہ برس اکتوبر میں طے پانی والی ایک ڈٰیل کے تحت ایسے افغان مہاجرین کو وطن واپس روانہ کیا جا رہا ہے، جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔ یہ پیش رفت ایک ایسے وقت پر شروع کی گئی تھی، جب جرمن حکومت پر دباؤ میں اضافہ ہو چکا ہے کہ وہ مسترد شدہ پناہ کے متلاشی افراد کی ملک بدری کے عمل میں تیزی لائے۔
بدھ کے دن کابل پہنچنے پر اکیس سالہ افغان مہاجر تیمور نے کہا کہ افغان حکومت کی وجہ سے انہیں جرمنی بدر کیا گیا ہے۔ افغان صوبے پروان کے رہائشی تیمور نے کہا کہ افغان صدر اشرف غنی نے جرمنی سے ڈیل کرتے ہوئے برلن حکومت کو اجازت دی ہے کہ جرمنی سے افغان مہاجرین کو ملک بدر کرتے ہوئے دوبارہ ایک خطرناک ملک بھیج دیا جائے۔ جرمن حکومت نے تیمور کی پناہ کی درخواست دو مرتبہ مسترد کی تھی۔ تیمور کے مطابق حرمن حکومت کے مطابق وہ یہ ظاہر کرنے میں ناکام ہو گئے تھے کہ افغانستان میں ان کی زندگی خطرے میں ہے۔
جب افغان تارکین وطن کو ملک واپسی کی خاطر لائپزگ کے ہوائی اڈے لے جایا جا رہا تھا تو جرمن اور افغان مہاجرین نے وہاں ایک مظاہرہ بھی کیا تھا۔ ان مظاہرین کا کہنا تھا کہ ان مہاجرین کو واپس نہ بھیجا جائے کیونکہ افغانستان محفوظ ملک نہیں ہے۔ کئی انسانی حقوق کے کارکن بھی زور دیتے ہیں کہ افغان تارکین وطن کو اس صورتحال میں واپس افغانستان روانہ نہیں کرنا چاہیے، جب وہاں طالبان کے حملوں میں اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے۔ صرف گزشتہ ہفتے کے دوران ہی افغان دارالحکومت کابل میں ہوئے متعدد دہشت گردانہ حملوں کے نتیجے میں 74 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری
سن دو ہزار سولہ کے وسط میں جرمن حکومت نے چونتیس افغان تارکین وطن کو ملک بدر کیا تھا۔ رواں برس مئی میں افغان مہاجرین کی ملک بدری عارضی طور پر روکے جانے کے بعد یہ سلسلہ اب دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
کابل کی طرف پرواز
رواں برس مئی میں کابل میں جرمن سفارت خانے پر دہشت گردانہ حملے کے بعد پہلی مرتبہ بارہ ستمبر کو پندرہ ایسے افغان تارکین وطن کی ایک پرواز کابل روانہ ہوئی جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی تھیں۔ جرمن سیاسی جماعتوں ’دی لنکے‘ اور ’گرین‘ نے ملک بدری کے سلسلے کے دوبارہ آغاز پر حکومت کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
مہلت حاصل کرنے کی جد وجہد
امسال مارچ میں جرمن شہر کوٹبس کے ایک اسکول کے طلبہ نے اپنے تین افغان ساتھیوں کی ملک بدری کے احکامات جاری ہونے کے بعد مظاہرے کیے اور ان کی ملک بدری رکوانے کے لیے چندہ جمع کرتے ہوئے ایک مہم بھی شروع کی تاکہ کسی طرح ان افغان مہاجر ساتھیوں کو جرمنی ہی میں رکھا جا سکے۔
تصویر: DW/S.Petersmann
’کابل محفوظ نہیں‘
’جان لیوا خطرے کی جانب روانگی‘ یہ پوسٹر افغان مہاجرین کی جرمنی بدری کے خلاف فروری میں میونخ کے ہوائی اڈے پر ایک مظاہرے کے دوران استعمال کیا گیا۔ تارکین وطن ایسے مظاہرے عموماﹰ اُن ہوائی اڈوں پر کرتے ہیں جہاں سے ملک بدر مہاجرین کے جہاز نے پرواز کرنا ہوتا ہے۔ جنوری سے مئی سن دو ہزار سترہ تک ایسی کئی پروازیں کابل روانہ کی گئیں۔ امسال اب تک برلن حکومت دو سو اکسٹھ مہاجرین افغانستان واپس بھیج چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
وورزبرگ سے کابل تک
تیس سالہ بادام حیدری نے رواں برس جنوری میں ملک بدر ہونے سے پہلے جرمنی میں سات سال کا عرصہ گزارا۔ حیدری نے افغانستان میں امریکی ادارے یو ایس ایڈ کے ساتھ کام کیا تھا اور وہ طالبان کے خوف سے جرمنی فرار ہوئے تھے۔ اُنہیں اب بھی امید ہے کہ وہ کسی طرح دوبارہ جرمنی پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
اقلیتوں پر مظالم
جنوری ہی میں جرمن حکومت نے افغان ہندو سمیر نارنگ کو بھی افغانستان واپس بھیج دیا تھا۔ نارنگ اپنے خاندان کے ساتھ جرمن شہر ہیمبرگ میں چار سال سے پناہ گزین تھا۔ نارنگ نے ایک جرمن پبلک ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلم اکثریت والا ملک افغانستان مذہبی اقلیتوں کے لیے محفوظ نہیں۔ سمیر کے مطابق یہ ملک بدریاں زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Wiedl
نہ چاہتے ہوئے بھی جانا ہو گا
ملک بدر کیے جانے والے افغان تارکین وطن کو بیس یورو فی کس دیے جاتے ہیں۔ بعد میں وہ عالمی ادارہ مہاجرت سے معاونت حاصل کرنے کے لیے رجوع کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی سائیکولوجیکل تنظیم کے ارکان واپس جانے والے مہاجرین کو مشورے دیتے ہیں۔ آئی پی ایس او نامی اس تنظیم کو جرمن وزارت خارجہ فنڈز فراہم کرتی ہے۔