قطب جنوبی کی برف پگھلنے کی رفتار تین گنا بڑھ چکی ہے
14 جون 2018
ماہرین کی ایک تازہ ریسرچ کے مطابق براعظم انٹارکٹیکا کی برف کے پانی بننے سے سمندری کی سطح مسلسل بلند ہو رہی ہے۔ سن 1992 کے بعد اب چھبیس برس بعد سمندری سطح میں سات ملی میٹر سے زائد کا اضافہ ہو چکا ہے۔
اشتہار
بین الاقوامی ماہرین کی ٹیم نے یہ ریسرچ چوبیس مختلف فضائی سیٹلائٹس سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کی بنیاد پر مکمل کی ہے۔ ان ماہرین کی رپورٹ جمعرات چودہ جون کو سائنسی تحقیق کے معتبر جریدے ’نیچر‘ میں شائع کی گئی ہے۔ اس انٹرنیشنل ٹیم میں چوراسی سائنسدان شامل تھے، جن کا تعلق چوالیس مختلف ماحولیاتی تبدیلیوں کی تنظیموں سے تھا۔
محققین کی ٹیم کے سربراہ اور برطانیہ کی لیڈز یونیورسٹی کے پروفیسر اینڈریو شیپرڈ کا کہنا ہے کہ پہلے سے اندازہ لگایا جا چکا ہے کہ زمین کی ماحولیاتی تبدیلیاں یقینی طور پر قطبین کی برفانی چادر کو کمزور کرنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔ شیپرڈ کے مطابق سمندری سطح کا بلند ہونا مختلف ممالک کی حکومتوں کے لیے باعث تشویش ہو سکتا ہے کیونکہ ساحلی پٹی پر آباد انسانی آبادیوں کو اب شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
محققین کے مطابق سن 1992 کے بعد بحر قطب جنوبی کی پگھل جانے والے برف کا حجم تین ٹریلن ٹن کے قریب ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران اس وسیع برفانی علاقے کی برف پگھلنے کی رفتار ماضی کے مقابلے میں تین گنا سے زائد ہو گئی ہے۔ اس برف کے پگھلنے سے سمندری سطح مجموعی طور پر 7.6 ملی میٹر بلند ہو گئی ہے۔ سن 2012 کے بعد تقریباً تین میٹر سمندری سطح بلند ہوئی ہے۔
ریسرچر نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ براعظم انٹارکٹکا سن 2012 تک سالانہ بنیاد پر چھہتر بلین ٹن برف سے محروم ہو رہا تھا۔ اس برف کے مائع بننے سے اوسطاً سالانہ بنیاد پر 0.2 ملی میٹر سمندر کی سطح بلند ہو رہی تھی لیکن گزشتہ چھ برسوں میں مجموعی صورت حال کلی طور پر تبدیل ہو کر رہ گئی ہے۔
سن 2012 کے بعد سے اِس برفانی براعظم میں برف پگھلنے کی رفتار میں تین گنا اضافہ ہوا اور سالانہ بنیاد پر پگھلنے والی برف کا حجم 219 بلین ٹن ہو گیا ہے۔ اتنی کثیر مقدار میں پگھلنے والی برف سے سمندری سطح 0.6 فیصد سالانہ بنیاد پر بلند ہو چکی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ قطب جنوبی پر پھیلی ہوئی برفانی چادر کے سطح میں پائی جانے والی کمی ایک طرح سے ماحولیات کی تبدیلی کا پیمانہ بن چکی ہے۔
انٹارکٹک میں کام
نقطہء انجماد سے 55 درجے نیچے اور سال کا طویل حصہ اندھیرے میں۔ انٹارکٹیک خطے میں تحقیق کرنے والوں کے لیے چیلنجز بے شمار ہوتے ہیں۔ مگر بہت سی مثبت چیزیں بھی ان کے سامنے ہوتی ہیں۔
تصویر: British Antarctic Survey
آگے بڑھتی سائنس
جب ہیلی ششم پہلی بار انٹارکٹک پہنچایا گیا، تو یہ یہاں دنیا کی پہلی تجربہ گاہ تھا۔ یہاں رہائش کی بہتر سہولیات اور بہترین تجربہ گاہوں کے قیام اپنی جگہ، مگر یہ بڑی بڑی تنصیبات اپنی جگہ چھوڑنے میں دیر نہیں لگاتیں۔
تصویر: British Antarctic Survey
تبدیلی کے واضح اشارے
ہیلی ششم برف میں پڑنے والی بڑی دراڑ کی وجہ سے جگہ تبدیل کرنے پر مجبور ہے۔ یہ دراڑ مسلسل بڑی ہو رہی ہے۔ فی الحال اس اڈے کو خطرہ نہیں، مگر خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ یہ برفیلی چٹان مزید ٹوٹے گی۔
تصویر: British Antarctic Survey
خلائی موسمیاتی اسٹیشن
انٹارکٹیک میں ہیلی ششم کا کام مختلف انواع کی معلومات فراہم کرنا ہے، جن میں اوزون کی تہہ کا معاملہ، قطبی ماحول کی کیمسٹری اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا معاملہ شامل ہے۔ یہ پہلی تحقیق گاہ ہے، جس نے اوزون کی تہہ میں سوراخوں کا پتا چلایا تھا۔
اس تجربہ گاہ کے بیچوں بیچ یہ بڑا سرخ کنٹینر سائنس دانوں کی بیٹھک ہے۔ یہاں موسم گرما میں قریب 70 جب کہ موسم سرما میں قریب 16 محقق موجود ہوتے ہیں۔ دنیا کے اس دور افتادہ مقام پر یہ جگہ ان سائنس دانوں کو کام ایک طرف رکھ کر مل بیٹھ کر گفت گو کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
تصویر: British Antarctic Survey
تنصیب کی بہترین نشستیں
سال میں 105 دن ایسے ہوتے ہیں، جب یہاں مکمل اندھیرا ہوتا ہے، جب کہ ہیلی ششم اس وقت بھی 24 گھنٹے کام کرتا ہے۔ دنیا سے بالکل الگ تھلگ ہونے کے باوجود ایسا نہیں کہ یہاں زندگی کی چہل قدمی سنائی نہیں دیتی۔
تصویر: British Antarctic Survey
مربوط سرگرمیاں
یہ تجربہ گاہ آٹھ حصوں پر مبنی ہے۔ یہ تمام حصے خصوصی ہائیڈرولک ٹانگوں پر کھڑے ہیں۔ جب اسے تنصیب کو حرکت دینا ہو، تو ہر حصے کو الگ الگ کھینچا جا سکتا ہے۔ اس طرح باآسانی یہ تجربہ گاہ براعظم بھر میں کھسکائی جا سکتی ہے۔
تصویر: British Antarctic Survey
انتہائی سرد موسم
خوب صورت نظارے اور دلچسپ تحقیق ایک طرف مگر یہاں کا ماحول انسانی زندگی کے لیے انتہائی خطرناک بھی ہے۔ موسم سرما میں یہاں عمومی درجہ حرارت منفی بیس ہوتا ہے اور کبھی کبھی منفی 55 تک پہنچا جاتا ہے، جب کہ آس پاس کا سمندر منجمد ہو جاتا ہے۔