قطرکا سفارتی تنازعہ و ناکہ بندی، معاشی ترقی بدستور جاری
عابد حسین
25 جنوری 2018
سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں نے کئی ماہ سے اپنی ہمسایہ ریاست قطر کی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ اس ناکہ بندی کے باوجود قطری معیشت میں مسلسل بہتری دیکھی جا رہی ہے۔
اشتہار
قطر کو سعودی عرب اور دوسری خلیجی ریاستوں کی ناکہ بندی سے جو نقصان پہنچا ہے، وہ اُس کے سیاحتی شعبے میں واضح طور پر دیکھا گیا ہے۔ سیاحت کے شوقین حضرات نے گزشتہ برس جون سے شروع ہونے والے سعودی قظری تنازعے کے بعد اِس خلیجی ریاست کا رخ سابقہ برسوں کے مقابلے میں کم کیا۔
ایک اور قطری شعبہ جو متاثر ہوا ہے، وہ ہے ریئل اسٹیٹ کا کاروبار اور اس میں خاص طور پر غیر ملکی افراد نے اپارٹمنٹس کی خریداری میں دلچسپی کا اظہار محدود کر دیا ہے۔ قطر کی ناکہ بندی کرنے والوں میں سعودی عرب کے ساتھ متحدہ عرب امارات، بحرین، اور مصر شامل ہیں۔
لندن میں قائم بین الاقوامی اقتصادی صورت حال پر نگاہ رکھنے والے تھنک ٹینگ کیپیٹل اکنامکس کی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ سفارتی بحران کے بعد ایسا امکان پیدا ہوا تھا کہ قطری ریاست کو شدید معاشی مشکلات کا سامنا ہو سکے گا لیکن دوحہ حکومت کساد بازاری کے خطرے کو زائل کرنے میں پوری طرح کامیاب رہی ہے۔
کیپیٹپل اکنامکس کی رپورٹ کے مطابق قدرتی گیس کی دولت سے مالا مال خلیجی ریاست کی اقصادیات نے گزشتہ برس کی آخری چوتھائی میں 1.9 کی شرح سے ترقی کی ہے۔ یہ شرح سن 2017 کی دوسری چوتھائی کے مقابلے میں 0.3 فیصد زیادہ رہی۔ اسی طرح قطر کا ہائیڈرو کاربن سیکٹر بھی مندی کا شکار نہیں ہوا اور اس کی شرح بدستور بہتر رہی۔
کیپیٹل اکنامکس کے مطابق گزشتہ برس شروع ہونے والی ناکہ بندی کے سات مہینوں کے دوران قطری بینکوں کی بین الاقوامی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوا۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق ذمہ داریوں میں اضافے سے معلوم ہوتا ہے کہ قطری معیشت متحرک ہے۔
کیپیٹل اکنامکس کے مطابق گزشتہ برس نومبر کے بعد سے قطر کی سیاحتی شعبے کو بیس فیصد کی کمی دیکھنا پڑی۔ اس باعث دوحہ حکومت کو چھ سو ملین ڈالر کے مساوی نقصان کا سامنا رہا۔ اسی طرح قطری ہوائی کمپنی کو بھی ناکہ بندی نے شدید انداز میں متاثر کیا۔ اس تنازعے نے قطر ایئر لائن کو کسی حد تک مسشکل میں ڈال رکھا ہے۔ اس کے مسافروں کی کمی پچیس فیصد تک رہی ہے۔
قطر اور گلف تعاون کونسل، سالوں پر پھیلے اختلافات
حالیہ قطری بحران، خلیجی ریاستوں اور دوحہ حکومت کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ کی پہلی مثال نہیں۔ ڈی ڈبلیو نے تصاویر کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں علاقائی کشیدگی کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی ہے۔
تصویر: Picture alliance/AP Photo/K. Jebreili
کشیدہ تعلقات اور کرچی کرچی اعتماد
رواں برس پانچ جون کو سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت اور اپنے حریف ایران سے تعلقات کے فروغ کا الزام عائد کرتے ہوئے دوحہ سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ دوحہ حکومت نے ان تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے نہ صرف قطر پر پابندیاں عائد کیں بلکہ تعلقات کی بحالی کے لیے تیرہ مطالبات بھی پیش کیے۔ کویت فریقین کے درمیان ثالثی کی کوشش کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/STRINGER
خلیج تعاون کونسل بھی علاقائی عدم استحکام سے متاثر
پانچ مارچ سن 2014 میں بھی سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمون کے ساتھ تعاون پر قطر سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ اخوان المسلمون کو بعض ممالک کے نزدیک دہشت گرد تنظیم خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Elfiqi
عرب اسپرنگ اور خلیجی تعاون کونسل
سن 2011 میں تیونس سے شروع ہونے والی انقلابی تحریک کے بعد ایسی تحریکیں کئی عرب ممالک میں پھیل گئی تھیں تاہم’عرب بہار‘ نے جی سی سی رکن ریاستوں میں بغاوتوں کی قیادت نہیں کی تھی۔ سوائے بحرین کے جس نے سعودی فوجی مدد سے ملک میں ہونے والے شیعہ مظاہروں کو کچل ڈالا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh
سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام
قطر پر سن 2013 میں ہونے والے خلیجی تعاون کونسل کے سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے آٹھ ماہ کے شدید تناؤ کے بعد قطر میں اپنے سفارتخانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/J. Ernst
پائپ لائن تنازعہ
سعودی عرب اور قطر کے درمیان تعلقات اُس وقت کم ترین سطح پر پہنچ گئے جب ریاض حکومت نے قطر کے کویت کے لیے ایک گیس پائپ لائن منصوبے کو نا منظور کر دیا۔ اسی سال سعودی حکومت نے قطری گیس اومان اور متحدہ عرب امارات لے جانے والے پہلے سے ایک طے شدہ پائپ لائن منصوبے پر بھی احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
سرحدی جھڑپ
سن 1992 میں سعودی عرب اور قطر کے مابین ایک سرحدی جھڑپ میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ قطر نے دعوی کیا کہ ریاض نے خفوس کے مقام پر ایک سرحدی چوکی کو نشانہ بنایا۔ دوسر طرف سعودی عرب کا کہنا تھا کہ قطر نے اُس کے سرحدی علاقے پر حملہ کیا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
سرحدوں کے تنازعات
سن 1965 میں سعودی عرب اور قطر کے درمیان ان کی سرحدی حد بندی کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا تھا تاہم یہ معاملہ کئی برس بعد بھی مکمل طور پر طے نہیں ہو سکا تھا۔ سن 1996 میں دونوں ممالک نے اس حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کیے تاہم اس کے مکمل نفاذ میں مزید ایک عشرے سے زیادہ کا عرصہ لگا۔
علاقائی تنازعات
سن 1991 میں دوحہ ہوار جزائر سے متعلق بحرین کے ساتھ ایک تنازعے کو اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے گیا۔ سن 1986 میں بھی دونوں ممالک کے درمیان سعودی عرب کی مداخلت کے باعث عسکری تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا۔ بعد میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بحرین کے حق میں فیصلہ دیا تھا جبکہ قطر کو جینن جزائر کی ملکیت دی گئی تھی۔