قطری بحران: جنوبی ایشیائی محنت کشوں کا مستقبل کیا ہو گا؟
شمشیر حیدر AFP
15 جون 2017
قطر اور ہمسایہ ممالک کے مابین جاری تنازعے کے سیاسی پہلوؤں پر تو بات کی جا رہی ہے لیکن موجودہ صورت حال میں سب سے زیادہ مسائل کا سامنا قطر میں کام کرنے والے مزدور پیشہ غیر ملکیوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔
اشتہار
بھارتی شہری اجیت نے قطر میں سات ماہ قبل ہی الیکٹریشن کے طور پر کام کرنا شروع کیا تھا۔ خطے کی موجودہ صورت حال نے دیگر غیر ملکی مزدوروں کی طرح اجیت کو بھی پریشان کر رکھا ہے۔
اجیت کو صرف یہ فکر ہی نہیں ہے کہ مستقبل میں اس کی ملازمت کا کیا بنے گا، بلکہ سردست اسے خوراک کی قیمتوں نے بھی پریشان کر رکھا ہے۔ اے ایف پی سے کی گئی اپنی ایک گفت گو میں اجیت نے کہا، ’’صورت حال یوں ہی جاری رہی تو ہم جیسے ورکرز کی پریشانی میں اضافہ ہو جائے گا۔ خوراک کی قیمتیں زیادہ ہو جائیں گی اور نوکریاں بھی ختم ہو جائیں گی۔‘‘
اجیت ماہانہ ایک ہزار ریال کما رہا تھا، جن میں سے چھ سو ریال وہ اپنے اہل خانہ کو بھیج دیتا تھا۔ لیکن اب اسے خدشہ ہے کہ وہ اس سلسلے کو جاری نہیں رکھ پائے گا۔ اس کا کہنا تھا، ’’کچھ سپر مارکیٹوں میں چاول، ٹماٹر اور پیاز وغیرہ کی قیمتیں بڑھ چکی ہیں۔ پہلے جو چیز ایک ریال میں ملتی تھی، اب وہ دو ریال میں مل رہی ہے۔‘‘ اجیت نے اس مسئلے کا فی الوقت حل یہ ڈھونڈا ہے کہ اب وہ دن میں کھانا ہی ایک مرتبہ کھا رہا ہے۔
قطر کی سپر مارکیٹوں میں شہریوں کا رش
00:59
قطر اور پڑوسی ممالک کے مابین سفارتی کشیدگی کے بارے میں عام طور پر علاقائی سیاست اور سکیورٹی حالات زیر بحث رہتے ہیں۔ لیکن دنیا کے امیر ترین ممالک کے مابین جاری حالیہ کشیدگی کے اثرات روزگار کی تلاش میں ان ممالک کا رخ کرنے والے غیر ملکی مزدوروں پر کیسے مرتب ہو رہے ہیں، اس پہلو پر زیادہ بات نہیں کی جا رہی۔
تاہم طاقت کے ایوانوں سے باہر نکل کر قطر کے طول و عرض میں موجود مزدوری پیشہ افراد ہی، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ممالک سے ہے، موجودہ بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
قطر سن 2022 کے فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی بھی کرے گا، جس کے لیے ملک بھر میں متعدد تعمیراتی منصوبے جاری ہیں۔ بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والا بتیس سالہ انیل بھی ایسے ہی ایک منصوبے پر کام کرنے والا ایک مزدور ہے۔ اڑتالیس ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں مزدوری کرنے والا انیل کہنے لگا، ’’ہر کوئی اسی بحران کے بارے میں بات کر رہا ہے، کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہمیں واپس بھیج دیا جائے گا۔‘‘
قطری حکام اب تک پر اعتماد ہیں کہ پڑوسیوں کی جانب سے تنہا کر دیے جانے کے منفی معاشی اثرات زیادہ نہیں ہوں گے۔ لیکن تعمیراتی منصوبوں پر کام کرنے والے مزدوروں کی سوچ قطری حکام سے مختلف دکھائی دے رہی ہے۔
آبادی اور رقبے کے لحاظ سے ایک چھوٹی سی خلیجی ریاست قطر کے چند خاص پہلو ان تصاویر میں دیکھیے۔
تصویر: Reuters
تیل اور گیس
قطر دنیا میں سب سے زیادہ ’مائع قدرتی گیس‘ پیدا کرنے والا ملک ہے اور دنیا میں قدرتی گیس کے تیسرے بڑے ذخائر کا مالک ہے۔ یہ خلیجی ریاست تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔
تصویر: imago/Photoshot/Construction Photography
بڑی بین الاقوامی کمپنیوں میں حصہ داری
یہ ملک جرمن کار ساز ادارے فوکس ویگن کمپنی کے 17 فیصد اور نیو یارک کی امپائراسٹیٹ بلڈنگ کے دس فیصد حصص کا مالک ہے۔ قطر نے گزشتہ چند برسوں میں برطانیہ میں 40 ارب پاؤنڈز کی سرمایہ کاری کی ہے جس میں برطانیہ کے نامور اسٹورز ’ہیروڈز‘ اور ’سینز بری‘کی خریداری بھی شامل ہے
تصویر: Getty Images
ثالث کا کردار
قطر نے سوڈان حکومت اور دارفور قبائل کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری کشیدگی ختم کرانے میں ثالث کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ فلسطینی دھڑوں الفتح اور حماس کے درمیان مفاہمت اور افغان طالبان سے امن مذاکرات کے قیام میں بھی قطر کا کردار اہم رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Runnacles
الجزیرہ نیٹ ورک
دوحہ حکومت نے سن انیس سو چھیانوے میں ’الجزیرہ‘ کے نام سے ایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک بنایا جس نے عرب دنیا میں خبروں کی کوریج اور نشریات کے انداز کو بدل کر رکھ دیا۔ آج الجزیرہ نیٹ ورک نہ صرف عرب خطے میں بلکہ دنیا بھر میں اپنی ساکھ بنا چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Ulmer
قطر ایئر لائن
قطر کی سرکاری ایئر لائن ’قطر ایئر ویز‘ دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں شمار ہوتی ہے۔ اس کے پاس 192 طیارے ہیں اور یہ دنیا کے ایک سو اکیاون شہروں میں فعال ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Probst
فٹ بال ورلڈ کپ
سن 2022 میں فٹ بال ورلڈ کپ کے مقابلے قطر میں منعقد کیے جائیں گے۔ یہ عرب دنیا کا پہلا ملک ہے جو فٹ بال کے عالمی کپ کی میزبانی کر رہا ہے۔ یہ خلیجی ریاست فٹ بال کپ کے موقع پر بنیادی ڈھانے کی تعمیر پر 177.9 ارب یورو کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
تصویر: Getty Images
قطر کی آبادی
قطر کی کُل آبادی چوبیس لاکھ ہے جس میں سے نوے فیصد آبادی غیرملکیوں پر مشتمل ہے۔ تیل جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال خلیجی ریاست قطر میں سالانہ فی کس آمدنی لگ بھگ ایک لاکھ تئیس ہزار یورو ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Wire/S. Babbar
برطانیہ کے زیر انتظام
اس ملک کے انتظامی امور سن 1971 تک برطانیہ کے ماتحت رہے۔ برطانیہ کے زیر انتظام رہنے کی کُل مدت 55 برس تھی۔ تاہم سن 1971 میں قطر نے متحدہ عرب امارات کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور ایک خود مختار ملک کے طور پر ابھرا۔
تصویر: Reuters
بادشاہی نظام
قطر میں انیسویں صدی سے بادشاہی نطام رائج ہے اور تب سے ہی یہاں الثانی خاندان بر سراقتدار ہے۔ قطر کے حالیہ امیر، شیخ تمیم بن حماد الثانی نے سن 2013 میں ملک کی قیادت اُس وقت سنبھالی تھی جب اُن کے والد شیخ حماد بن خلیفہ الثانی اپنے عہدے سے دستبردار ہو گئے تھے۔