قطری ردعمل پر افسوس، مگر نئی پابندیوں سے گریز
6 جولائی 2017سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر کے وزرائے خارجہ نے بدھ پانچ جولائی کو قاہرہ میں ہونے والی ملاقات کے بعد اعلان کیا کہ خلیجی ریاست قطر کے خلاف بائیکاٹ جاری رہے گا۔ ان عرب ریاستوں نے قطر کو 13 نکاتی ایک فہرست فراہم کی تھی اور کہا تھا کہ اگر دوحہ حکومت ان مطالبات پر عمل کرتی ہے تو اس خلیجی ریاست کے ساتھ تعلقات بحال ہو سکتے ہیں۔ دوحہ حکومت کی طرف سے ان مطالبات پر ردعمل کے بعد قاہرہ میں یہ ملاقات ہوئی۔
توقع کی جا رہی تھی کہ اس ملاقات میں قطر کے خلاف مزید پابندیاں عائد کرنے پر غور ہو گا تاہم اس حوالے سے کوئی نیا اعلان سامنے نہیں آیا۔ ملاقات کے بعد مصری وزیر خارجہ سامح شُکری نے مشترکہ بیان پڑھ کر سناتے ہوئے کہا، ’’جو جواب ان چار ریاستوں کو موصول ہوا وہ بطور مجموعی منفی ہے اور مبہم ہے۔ ہمیں اس میں ایسا کوئی اشارہ نہیں کہ قطر اپنی پالیسیوں سے پیچھے ہٹنے کو تیار ہے۔‘‘
سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے ملاقات کے بعد صحافیوں کو بتایا، ’’جب تک قطر اپنی پالیسیوں میں بہتری نہیں لاتا اُس وقت تک سیاسی اور معاشی بائیکاٹ جاری رہے گا۔‘‘
ان چار عرب ریاستوں کی طرف سے قطر کو جن 13 مطالبات کی فہرست فراہم کی گئی تھی اس میں اخوان المسلمون کے ساتھ تعاون میں کمی، الجزیرہ ٹیلی وژن نیٹ ورک کی بندش، قطر میں موجود ترک ملٹری بیس کی بندش اور ایران کے ساتھ تعلقات میں کمی لانا بھی شامل تھے۔ قطر کی طرف سے ان مطالبات پر کیا جواب دیا گیا ہے اسے عام نہیں کیا گیا۔
قطر کے خلاف پابندیاں ’کھلی جارحیت‘ ہے، دوحہ
چار عرب ریاستوں کی قاہرہ میں ملاقات سے قبل گزشتہ روز ہی قطر کی طرف سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر پر الزام عائد کیا کہ وہ قطر کے خلاف ’واضح جارحیت‘ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ دوحہ حکومت کے مطابق اس کے خلاف ایک ماہ قبل جو الزامات عائد کرتے ہوئے پابندیاں لگائی گئی تھیں ’’ان کا واضح طور پر مقصد مغرب میں دوحہ مخالف جذبات پیدا کرنا تھا‘‘۔
سعودی سربراہی میں قطر کی چار ہمسایہ ریاستوں سمیت متعدد دیگر ممالک نے دوحہ حکومت پر یہ الزام عائد کرتے ہوئے پانچ جون کو تعلقات منقطع کر لیے تھے کہ وہ دہشت گردی کی حمایت کر رہی ہے۔ تاہم دوحہ حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔