خلیجی بحران کے خاتمے اور اپنی پوزیشن کو عالمی سطح پر واضح کرنے کی خاطر قطر کی سفارتی کوششیں ابھی تک جاری ہیں۔
اشتہار
اسی تناظر میں قطر کے امیر تمیم بن حمد الثانی نے اپنے دورے کے دوران جمعے کے روز برلن میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل سے بات چیت کی۔ ان کے اس دورے کے بارے میں تین سوالات اور ان کے جوابات
سوال: قطر کے امیر نے جرمن چانسلر سے کن موضوعات پر گفتگو کی؟
سب سے اہم موضوع تو موجودہ خلیجی بحران ہی رہا۔ دونوں رہنماؤں نے اپنی ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں زور دیا کہ اس تنازعے کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے واضح طور پر کہا کہ انہیں افسوس ہے کہ ابھی تک اس بحران کا کوئی حل نظر نہیں آ رہا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ برلن حکومت اس حوالے سے امریکا اور کویت کی کوششوں کی حمایت کرتی ہے۔
جرمن حکومت زور دیتی ہے کہ تمام تر تنازعات کو پرامن طریقے سے مذاکرات اور سفارتی ذارئع سے حل کیا جائے اور قطر کے اس بحران پر بھی برلن کا یہی موقف ہے۔ اسی لیے قطری امیر نے برلن جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ اس تنازعے کے حل کی خاطر سعودی اتحاد کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر بھی تیار ہیں۔
سوال: جمعرات کے دن ہی قطری امیر نے انقرہ میں ترک صدر سے بھی ملاقات کی تھی۔ ترکی اس بارے میں کیا کہتا ہے؟
قطری امیر نے جرمنی آنے سے قبل انقرہ میں ترک صدر سے ملاقات کی تھی۔ اور وہ جرمن چانسلر سے ملاقات کے بعد فرانس چلے گئے، جہاں وہ فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں سے بھی ملے۔
دراصل قطری قیادت اس طرح اپنے ہمسایہ ممالک پر عالمی دباؤ بڑھانے کی کوشش میں ہے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے تو پھر کہہ دیا ہے کہ وہ ترکی کے دوحہ کے ساتھ تعلقات کو مزید بہتر بنائیں گے۔
اس تنازعے میں ترکی، قطر کا ایک اہم حلیف ملک ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ قطر میں ترک افواج بھی تعینات ہیں اور سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک ان ترک افواج کا انخلاء بھی چاہتے ہیں۔ اس صورتحال میں واضح ہے کہ ترکی قطر کی حمایت ترک نہیں کرے گا۔
سوال: قطر کی یہ بین الاقوامی سفارتکاری کس طرح فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے؟
سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک، جن میں مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین بھی شامل ہیں، کا الزام ہے کہ قطر علاقائی سطح پر دہشت گردوں کی مالی معاونت کرتا ہے۔ اور اگر قطر ان الزامات کو رد کرنے میں عالمی برادری کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے، تو یہ بات اسٹیبلش ہو جائے گی۔
ابھی تک تو سعودی اتحادی ممالک نے ہی قطر پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور صورت حال یہ ہے کہ قطر ان پابندیوں کا خاتمہ چاہتا ہے جبکہ متعلقہ عرب ریاستیں ابھی تک اپنے عائد کردہ الزامات کو دہراتے ہوئے اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہیں۔
دوسری طرف عالمی سفارتکاری سے بعض اوقات تنازعات حل نہیں بھی ہوتے لیکن فریقین اپنے اپنے موقف عالمی منظر نامے پر پیش بہرحال کرتے ہیں اور جو فریق زیادہ بہتر سفارتی کاری کرتا ہے اسی کا انٹرنیشنل امیج بھی زیادہ اچھا ہو جاتا ہے۔ تو فی الحال قطر کی بھی یہی کوشش ہے کہ وہ اپنے موقف کو بین الاقوامی سطح پر بہتر طور پر پیش کر سکے۔
قطر اور گلف تعاون کونسل، سالوں پر پھیلے اختلافات
حالیہ قطری بحران، خلیجی ریاستوں اور دوحہ حکومت کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ کی پہلی مثال نہیں۔ ڈی ڈبلیو نے تصاویر کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں علاقائی کشیدگی کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی ہے۔
تصویر: Picture alliance/AP Photo/K. Jebreili
کشیدہ تعلقات اور کرچی کرچی اعتماد
رواں برس پانچ جون کو سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت اور اپنے حریف ایران سے تعلقات کے فروغ کا الزام عائد کرتے ہوئے دوحہ سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ دوحہ حکومت نے ان تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے نہ صرف قطر پر پابندیاں عائد کیں بلکہ تعلقات کی بحالی کے لیے تیرہ مطالبات بھی پیش کیے۔ کویت فریقین کے درمیان ثالثی کی کوشش کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/STRINGER
خلیج تعاون کونسل بھی علاقائی عدم استحکام سے متاثر
پانچ مارچ سن 2014 میں بھی سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمون کے ساتھ تعاون پر قطر سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ اخوان المسلمون کو بعض ممالک کے نزدیک دہشت گرد تنظیم خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Elfiqi
عرب اسپرنگ اور خلیجی تعاون کونسل
سن 2011 میں تیونس سے شروع ہونے والی انقلابی تحریک کے بعد ایسی تحریکیں کئی عرب ممالک میں پھیل گئی تھیں تاہم’عرب بہار‘ نے جی سی سی رکن ریاستوں میں بغاوتوں کی قیادت نہیں کی تھی۔ سوائے بحرین کے جس نے سعودی فوجی مدد سے ملک میں ہونے والے شیعہ مظاہروں کو کچل ڈالا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh
سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام
قطر پر سن 2013 میں ہونے والے خلیجی تعاون کونسل کے سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے آٹھ ماہ کے شدید تناؤ کے بعد قطر میں اپنے سفارتخانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/J. Ernst
پائپ لائن تنازعہ
سعودی عرب اور قطر کے درمیان تعلقات اُس وقت کم ترین سطح پر پہنچ گئے جب ریاض حکومت نے قطر کے کویت کے لیے ایک گیس پائپ لائن منصوبے کو نا منظور کر دیا۔ اسی سال سعودی حکومت نے قطری گیس اومان اور متحدہ عرب امارات لے جانے والے پہلے سے ایک طے شدہ پائپ لائن منصوبے پر بھی احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
سرحدی جھڑپ
سن 1992 میں سعودی عرب اور قطر کے مابین ایک سرحدی جھڑپ میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ قطر نے دعوی کیا کہ ریاض نے خفوس کے مقام پر ایک سرحدی چوکی کو نشانہ بنایا۔ دوسر طرف سعودی عرب کا کہنا تھا کہ قطر نے اُس کے سرحدی علاقے پر حملہ کیا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
سرحدوں کے تنازعات
سن 1965 میں سعودی عرب اور قطر کے درمیان ان کی سرحدی حد بندی کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا تھا تاہم یہ معاملہ کئی برس بعد بھی مکمل طور پر طے نہیں ہو سکا تھا۔ سن 1996 میں دونوں ممالک نے اس حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کیے تاہم اس کے مکمل نفاذ میں مزید ایک عشرے سے زیادہ کا عرصہ لگا۔
علاقائی تنازعات
سن 1991 میں دوحہ ہوار جزائر سے متعلق بحرین کے ساتھ ایک تنازعے کو اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے گیا۔ سن 1986 میں بھی دونوں ممالک کے درمیان سعودی عرب کی مداخلت کے باعث عسکری تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا۔ بعد میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بحرین کے حق میں فیصلہ دیا تھا جبکہ قطر کو جینن جزائر کی ملکیت دی گئی تھی۔