1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قطر اور ترکی زائرین کی رہائی کے لیے مدد کریں، ایران

5 اگست 2012

تہران حکام نے قطر اور ترکی سے اپیل کی ہے کہ وہ دمشق سے اغوا کیے گئے ایرانی زائرین کی رہائی کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ باغیوں کا کہنا ہے کہ ان شہریوں میں پاسدرانِ انقلاب کے اہلکار بھی شامل ہیں۔

تصویر: picture-alliance/dpa

باغیوں نے ایک ویڈیو بھی جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اغوا کیے گئے ایرانی شہریوں میں پاسدران انقلاب (Revolutionary Guards) کے اہلکار بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایرانی جاسوسی کے لیے شام میں موجود تھے۔ ایرانی شہریوں کو شام کے دارالحکومت دمشق کے نواحی علاقے غوطہ سے اغوا کیا گیا تھا۔

عرب ٹیلی وژن چینل العراقیہ نے بھی ایک ویڈیو جاری کی ہے، جس میں وردی میں ملبوس فری سیریئن آرمی کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ مغویوں سے برآمد ہونے والی دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ پاسدران انقلاب کے اہلکار ہیں۔ ان ایرانی شہریوں کے ساتھ ان کا افغان مترجم بھی ہے۔ العراقیہ ٹیلی وژن نے البراہ بریگیڈ کے جس اہلکار کے ساتھ انٹرویو کیا ہے، اس کا نام عبدالناصر شمیر بتایا گیا۔

باغیوں نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ دستیاب معلومات کے تناظر میں زیارتوں کی غرض سے آنے والے مزید ایرانیوں کو مستقبل میں اغوا کیا جا سکتا ہے۔ اغوا کاروں کا تعلق فری سیریئن آرمی کے ساتھ شریک البراہ بریگیڈ سے بتایا گیا ہے۔ ویڈیو میں ایک باغی کو کچھ دستاویزات کی جانب اشارہ کرتے دکھایا گیا ہے۔ ایک دستاویز کے حوالے سے باغی کا کہنا تھا کہ ایرانی شہری کو ہتھیاروں کے ساتھ سفر کرنے کی بھی اجازت ہے۔ اس ویڈیو میں ایرانی شہریوں کو زمین پر بیٹھے دکھایا گیا ہے جبکہ ان کے پیچھے ایک مسلح شخص شام کے پرچم کے ساتھ کھڑا ہے۔

دمشق حکومت نے حلب میں مزید فوجی تعینات کر دیے ہیںتصویر: Reuters

ایران نے اترکی اور قطر سے اپیل کی ہے کہ وہ زائرین کی رہائی کے لیے تعاون کریں۔ ایرانی وزیر خارجہ علی اکبر صالحی نے شہریوں کی محفوظ رہائی کے لیے ترکی کے وزیر خارجہ احمد داود اوگلو اور قطر کے اپنے ہم منصب شیخ حمد بن جاسم بن جابر الثانی کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت میں انہیں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کے لیے کہا ہے۔

دوسری جانب شام کے شہر حلب میں اتوار کو مزید فوجی پہنچ گئے ہیں جبکہ وہاں جنگ کے طول پکڑنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ وہاں پہنچنے والے نئے فوجیوں کو شہر کے مختلف علاقوں میں تعینات کیا گیا ہے۔

شام کے ایک اعلیٰ سکیورٹی اہلکار نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ حَلب میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ محض آغاز ہے اور جنگ ہونا تو ابھی باقی ہے۔

اس سکیورٹی اہلکار کے مطابق وہاں بیس ہزار فوجی تعینات ہیں۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ باغیوں کے ساتھ بھی نئے لشکری شامل ہو گئے ہیں۔ باغی دعویٰ کر رہے ہیں کہ حَلب کے پچاس فیصد حصے کا کنٹرول انہیں حاصل ہے۔

حلب میں پرتشدد کارروائیاں بدستور جاری ہیں۔ فری سیریئن آرمی کے ایک کمانڈر عبد الجبار نے بتایا ہے کہ حلب کے علاقے صلاح الدین پر حکومتی فورسز نے اب تک کا شدید حملہ کیا ہے۔

دوسری جانب فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ دارالحکومت دمشق اب مکمل طور پر سرکاری دستوں کے کنٹرول میں ہے۔ فوج کے ایک جنرل نے ہفتے کی شب دمشق کے علاقے التضامن میں صحافیوں کو بتایا کہ باغیوں کے زیر اثر شہر کا یہ آخری علاقہ بھی اب فوج کے کنٹرول میں ہے۔

ah/ng (AFP)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں