قطر اور سعودی عرب کی کتنی دولت امریکا میں ہے؟
2 جولائی 2017خلیجی ممالک کے بحران میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب کے ساتھ ہیں لیکن قطر امریکی معیشت میں زیادہ حصص خرید رہا ہے تاکہ سیاسی تبدیلی کی صورت میں امریکا بھی اس کے اثرات محسوس کیے بغیر نہ رہ سکے۔
نیویارک کی ایک سو دو منزلہ ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ کو ارغوانی اور سفید رنگ کی روشنی سے اس وجہ سے نہلایا گیا ہے کہ قطر کے ملکی پرچم کے لوگو والی قطر ایئرویز کمپنی امریکا میں اپنی پروازوں کے دس برس مکمل ہونے پر شاندار جشن منانا چاہتی ہے۔
ایک برس پہلے تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال قطر نے 622 ملین ڈالر کی خطیر رقم خرچ کرتے ہوئے آل امریکن بلڈنگ کپمنی کا دس فیصد حصہ خرید لیا تھا جسے ایک مرتبہ ٹرمپ بھی اسے اپنے خریدنے کی ناکام کوشش کر چکے ہیں۔
گزشتہ ماہ بھی قطر نےامریکن ایئر لائن کو اس وقت حیران کر دیا تھا، جب اس نے دنیا کی اس سب سے بڑی تجارتی ہوائی کیریئر کے 10 فیصد حصص حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے سعودی عرب کے ساتھ 110 بلین ڈالر مالیت کے ہتھیار خریدنے کے معاہدے اور قطر پر دہشت گردی کی حمایت کرنے کے الزام کے بعد بھی دوحہ حکومت نے امریکا کے ساتھ 12 ارب ڈالر کے جنگی طیارے خریدنے کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کی ایک پروفیسر راندا سلِم کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’حیران کن بات یہ ہے کہ ان کے خیمے ہر جگہ لگے ہوئے ہیں۔‘‘قطر سعودی عرب کی امریکا میں ’سرمایہ کاری کی پالیسی یا حکمت عملی‘ کی نقل جاری رکھے ہوئے ہے۔
ٹویٹر میں سعودی پرنس کی 300 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری
قطر کا سب سے بڑا بین الاقوامی اثاثہ اپنی سرزمین پر خطے کی سب سے بڑی امریکی فوجی بیس ہی ہے۔ دوحہ میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی اور بروکنگز انسٹی ٹیوٹ جیسے معتبر اداروں کے دفاتر بھی موجود ہیں، جن کا شمار واشنگٹن کے بہترین تھنک ٹینکس میں ہوتا ہے۔ قطری حکام کے مطابق ان اداروں کو سہولیات فراہم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ دنیا بھر کے میڈیا اور خاص طور پر امریکا میں قطر کا ’روشن چہرہ‘ پیش کریں۔
رئیل اسٹیٹ ٹائیکون سے صدر بننے والے ٹرمپ کی طرح قطر کے رئیل اسٹیٹ سرمایہ کار بھی چاروں براعظموں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ واشنگٹن، شکاگو اور لندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ جیسے اہم منصوبوں میں ان کی سرمایہ کاری ہے۔
پروفیسر راندا سلِم کا کہنا ہے کہ یہ امریکی بیس ہی ہے، جس کی وجہ سے امریکا قطر کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اسی بیس کو استعمال کرتے ہوئے امریکا شام، افغانستان، عراق اور یمن میں کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ جس وقت امریکی صدر ٹوئٹر پر قطر کے خلاف دہشت گردی کی حمایت کرنے کا الزام عائد کر رہے تھے، اسی وقت امریکی محکمہ دفاع قطر کو اس کے لیے اپنی حمایت جاری رکھنے کا یقین دلا رہا تھا۔
پروفیسر راندا سلِم کا کہنا تھا، ’’ظاہر ہے وائٹ ہاؤس سعودی عرب کی طرفداری کر رہا ہے لیکن اس کے مقابلے میں امریکی طاقتور ایجنسیاں ہیں، جو فی الحال کسی نہ کسی طرح قطر کا ساتھ دے رہی ہیں۔‘‘
لیکن راندا سلم کہتی ہیں، جو بھی ہو، امریکا میں قطر کے مقابلے میں سعودی عرب کی مضبوط حیثیت برقرار رہے گی کیوں کہ یہ ملک امریکا کو خام تیل فراہم کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے، ایک طویل عرصے سے امریکی پالیسی کا حامی ہے اور بڑی امریکی کارپوریشنز کی حمایت بھی کرتا ہے۔
قطر کے مقابلے میں سعودی عرب کی امریکا میں سرمایہ کاری کئی گنا زیادہ ہے۔ ابھی ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب کے دورے کی تیاری ہی کر رہے تھے کہ ریاض حکومت نے بلیک اسٹون نامی فرم میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر دی تھی۔ اس کمپنی کے چیئرمین اسٹیفن شوارسمین ہیں، جو ٹرمپ کی بڑے حمایتیوں میں سے ایک ہیں۔
ہتھیار خریدنے کے حالیہ معاہدے کے علاوہ سعودی عرب نے جنرل الیکٹرک اور لاک ہیڈ مارٹن سے بھی اربوں ڈالر کے معاہدے کیے گئے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی اپنے اپارٹمنٹس خریدنے کی وجہ سے سعودی سرمایہ کاروں کی تعریف کی تھی۔ مبینہ طور پر ٹرمپ سعودی عرب میں بھی کئی کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری قائم کر چکے ہیں۔
اس کے مقابلے میں قطر کے ٹرمپ خاندان کے ساتھ تجارتی روابط نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ قطر ایسا کرنا نہیں چاہتا۔ انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے مڈل ایسٹ پروگرام کے قائم مقام ڈائریکٹر رابرٹ بلچ کہتے ہیں، ’’جغرافیائی اور مالی دونوں لحاظ سے قطر سعودی عرب کا مقابلہ نہیں کر سکتا لیکن یہ اتنا بھی کمزور نہیں ہے کہ یہ مالی اور تجارتی معاہدے نہیں کر سکتا، جو کہ فیصلہ کن عنصر ثابت ہوتے ہیں۔‘‘
مشرق وسطی میں ایک طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والے امریکی سفارتکار اور صدر جارج ڈبلیو بش کے سابق ڈپٹی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جیمز جیفری کا کہنا ہے کہ عام طور پر جیوپولیٹیکل سیاست میں سرمایہ کاری کا زیادہ عمل دخل نہیں ہوتا لیکن اب وائٹ ہاؤس یہ پیغام بھیج رہا ہے کہ بزنس کا کردار اہم ہوتا ہے، ’’موجودہ انتظامیہ ایسے کئی اشارے دے چکی ہے کہ کام کرنے کا یہی راستہ ہے۔‘‘