قطر اور سعودی عرب کے درمیان پہلا رابطہ بحال ہوتے ہی معطل
عابد حسین
9 ستمبر 2017
خلیجی ریاست قطر اور سعودی عرب کے رہنماؤں نے رواں برس پانچ جون کے بعد پہلی مرتبہ ٹیلی فون کے ذریعے بات چیت کی ہے۔ اس گفتگو کی تفصیلات عام نہیں کی گئی ہیں۔
اشتہار
اس رابطے سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی سے ٹیلی فون پر بات کی تھی۔ وائٹ ہاؤس نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ امریکی صدر نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے بھی رابطہ کیا ہے۔ قطری بحران کے حل کے لیے صدر ٹرمپ بھی ثالثی کرتے ہوئے اپنے حلیفوں میں صلح کرانے کی کوشش میں ہیں۔ اُن کے وزیر خارجہ بھی خلیجی خطے کے دورے کر چکے ہیں۔
قطر کی سرکاری نیوز ایجنسی نے اس ٹیلی فونک رابطے کے تناظر میں کہا ہے کہ ریاض اور مناما کی حکومتوں نے رابطے کے دوران طے کیا ہے کہ تنازعے کے حل کے لیے خصوصی ایلچی روانہ کیے جائیں گے۔ قطر نے بھی صدر ٹرمپ کے ٹیلی فون کی تصدیق کی ہے۔ قطری نیوز ایجنسی نے یہ بھی بتایا کہ سعودی اور قطری رہنماؤں نے تنازعے کو حل کرنے کے لیے مکالمت کو اہم قرار دیا۔
سعودی عرب کی نیوز ایجنسی نے ان تفصیلات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قطر کی جانب سے جاری ہونے والی تفصیلات میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ سعودی عرب کے اِس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ اس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ قطر کی قیادت صورت حال کی بہتری میں سنجیدہ نہیں ہے۔ ریاض حکومت نے قطری بیان کے بعد اُس مذاکراتی عمل کو معطل کر دیا ہے، جو ابھی شروع بھی نہیں ہوا تھا۔
اس دوسرے بیان سے قبل سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی نے تصدیق کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ شہزادہ محمد بن سلمان قطر کے ٹیلی فونک رابطے کے حوالے سے اپنے اتحادیوں متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر سے بات کریں گے۔ سعودی ولی عہد کے رابطوں کے بعد تفصیلات جاری کی جائیں گی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق قطری بحران کے حل کی جانب یہ ایک معمولی سا قدم تھا لیکن اُسے بھی ضائع کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب کویت کے امیر نے دو روز قبل امریکی صدر کے ساتھ ملاقات کی تھی اور اُس میں بھی بات چیت کے دوران قطری بحران حل کرنے کو غیرمعمولی اہمیت حاصل رہی تھی۔ کویتی ریاست کے امیر بھی قطری تنازعے میں ثالثی کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔
قطر اور گلف تعاون کونسل، سالوں پر پھیلے اختلافات
حالیہ قطری بحران، خلیجی ریاستوں اور دوحہ حکومت کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ کی پہلی مثال نہیں۔ ڈی ڈبلیو نے تصاویر کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں علاقائی کشیدگی کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی ہے۔
تصویر: Picture alliance/AP Photo/K. Jebreili
کشیدہ تعلقات اور کرچی کرچی اعتماد
رواں برس پانچ جون کو سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت اور اپنے حریف ایران سے تعلقات کے فروغ کا الزام عائد کرتے ہوئے دوحہ سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ دوحہ حکومت نے ان تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے نہ صرف قطر پر پابندیاں عائد کیں بلکہ تعلقات کی بحالی کے لیے تیرہ مطالبات بھی پیش کیے۔ کویت فریقین کے درمیان ثالثی کی کوشش کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/STRINGER
خلیج تعاون کونسل بھی علاقائی عدم استحکام سے متاثر
پانچ مارچ سن 2014 میں بھی سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمون کے ساتھ تعاون پر قطر سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ اخوان المسلمون کو بعض ممالک کے نزدیک دہشت گرد تنظیم خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Elfiqi
عرب اسپرنگ اور خلیجی تعاون کونسل
سن 2011 میں تیونس سے شروع ہونے والی انقلابی تحریک کے بعد ایسی تحریکیں کئی عرب ممالک میں پھیل گئی تھیں تاہم’عرب بہار‘ نے جی سی سی رکن ریاستوں میں بغاوتوں کی قیادت نہیں کی تھی۔ سوائے بحرین کے جس نے سعودی فوجی مدد سے ملک میں ہونے والے شیعہ مظاہروں کو کچل ڈالا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh
سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام
قطر پر سن 2013 میں ہونے والے خلیجی تعاون کونسل کے سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے آٹھ ماہ کے شدید تناؤ کے بعد قطر میں اپنے سفارتخانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/J. Ernst
پائپ لائن تنازعہ
سعودی عرب اور قطر کے درمیان تعلقات اُس وقت کم ترین سطح پر پہنچ گئے جب ریاض حکومت نے قطر کے کویت کے لیے ایک گیس پائپ لائن منصوبے کو نا منظور کر دیا۔ اسی سال سعودی حکومت نے قطری گیس اومان اور متحدہ عرب امارات لے جانے والے پہلے سے ایک طے شدہ پائپ لائن منصوبے پر بھی احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
سرحدی جھڑپ
سن 1992 میں سعودی عرب اور قطر کے مابین ایک سرحدی جھڑپ میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ قطر نے دعوی کیا کہ ریاض نے خفوس کے مقام پر ایک سرحدی چوکی کو نشانہ بنایا۔ دوسر طرف سعودی عرب کا کہنا تھا کہ قطر نے اُس کے سرحدی علاقے پر حملہ کیا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
سرحدوں کے تنازعات
سن 1965 میں سعودی عرب اور قطر کے درمیان ان کی سرحدی حد بندی کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا تھا تاہم یہ معاملہ کئی برس بعد بھی مکمل طور پر طے نہیں ہو سکا تھا۔ سن 1996 میں دونوں ممالک نے اس حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کیے تاہم اس کے مکمل نفاذ میں مزید ایک عشرے سے زیادہ کا عرصہ لگا۔
علاقائی تنازعات
سن 1991 میں دوحہ ہوار جزائر سے متعلق بحرین کے ساتھ ایک تنازعے کو اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے گیا۔ سن 1986 میں بھی دونوں ممالک کے درمیان سعودی عرب کی مداخلت کے باعث عسکری تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا۔ بعد میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بحرین کے حق میں فیصلہ دیا تھا جبکہ قطر کو جینن جزائر کی ملکیت دی گئی تھی۔