متحدہ عرب امارات اور قطر کی جانب سے ایک دوسرے پر تازہ الزامات سے بحران کے جلد حل کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔
اشتہار
قطر اور گلف تعاون کونسل، سالوں پر پھیلے اختلافات
حالیہ قطری بحران، خلیجی ریاستوں اور دوحہ حکومت کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ کی پہلی مثال نہیں۔ ڈی ڈبلیو نے تصاویر کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں علاقائی کشیدگی کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی ہے۔
تصویر: Picture alliance/AP Photo/K. Jebreili
کشیدہ تعلقات اور کرچی کرچی اعتماد
رواں برس پانچ جون کو سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت اور اپنے حریف ایران سے تعلقات کے فروغ کا الزام عائد کرتے ہوئے دوحہ سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ دوحہ حکومت نے ان تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے نہ صرف قطر پر پابندیاں عائد کیں بلکہ تعلقات کی بحالی کے لیے تیرہ مطالبات بھی پیش کیے۔ کویت فریقین کے درمیان ثالثی کی کوشش کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/STRINGER
خلیج تعاون کونسل بھی علاقائی عدم استحکام سے متاثر
پانچ مارچ سن 2014 میں بھی سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمون کے ساتھ تعاون پر قطر سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ اخوان المسلمون کو بعض ممالک کے نزدیک دہشت گرد تنظیم خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Elfiqi
عرب اسپرنگ اور خلیجی تعاون کونسل
سن 2011 میں تیونس سے شروع ہونے والی انقلابی تحریک کے بعد ایسی تحریکیں کئی عرب ممالک میں پھیل گئی تھیں تاہم’عرب بہار‘ نے جی سی سی رکن ریاستوں میں بغاوتوں کی قیادت نہیں کی تھی۔ سوائے بحرین کے جس نے سعودی فوجی مدد سے ملک میں ہونے والے شیعہ مظاہروں کو کچل ڈالا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh
سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام
قطر پر سن 2013 میں ہونے والے خلیجی تعاون کونسل کے سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے آٹھ ماہ کے شدید تناؤ کے بعد قطر میں اپنے سفارتخانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/J. Ernst
پائپ لائن تنازعہ
سعودی عرب اور قطر کے درمیان تعلقات اُس وقت کم ترین سطح پر پہنچ گئے جب ریاض حکومت نے قطر کے کویت کے لیے ایک گیس پائپ لائن منصوبے کو نا منظور کر دیا۔ اسی سال سعودی حکومت نے قطری گیس اومان اور متحدہ عرب امارات لے جانے والے پہلے سے ایک طے شدہ پائپ لائن منصوبے پر بھی احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
سرحدی جھڑپ
سن 1992 میں سعودی عرب اور قطر کے مابین ایک سرحدی جھڑپ میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ قطر نے دعوی کیا کہ ریاض نے خفوس کے مقام پر ایک سرحدی چوکی کو نشانہ بنایا۔ دوسر طرف سعودی عرب کا کہنا تھا کہ قطر نے اُس کے سرحدی علاقے پر حملہ کیا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
سرحدوں کے تنازعات
سن 1965 میں سعودی عرب اور قطر کے درمیان ان کی سرحدی حد بندی کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا تھا تاہم یہ معاملہ کئی برس بعد بھی مکمل طور پر طے نہیں ہو سکا تھا۔ سن 1996 میں دونوں ممالک نے اس حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کیے تاہم اس کے مکمل نفاذ میں مزید ایک عشرے سے زیادہ کا عرصہ لگا۔
علاقائی تنازعات
سن 1991 میں دوحہ ہوار جزائر سے متعلق بحرین کے ساتھ ایک تنازعے کو اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے گیا۔ سن 1986 میں بھی دونوں ممالک کے درمیان سعودی عرب کی مداخلت کے باعث عسکری تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا۔ بعد میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بحرین کے حق میں فیصلہ دیا تھا جبکہ قطر کو جینن جزائر کی ملکیت دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AA/ C. Ozdel
8 تصاویر1 | 8
قطر اور خلیجی ممالک کی باہمی تلخی میں کے خاتمے کے لیے جاری کوششوں کا تاحال ثمر حالات میں مزید ابتری سے گریز دکھائی دیتا ہے۔ جون سے اب تک قطر سے ہمسایہ عرب ممالک کے مطالبات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر کے قطر سے تجارتی، سفارتی، سیاسی اور دفاعی تمام تعلقات منقطع ہیں۔ حتٰی کہ دسمبر 22 کو قطرمیں منعقد ہونے والے خلیجی کپ ٹورنامنٹ کو ہمسایہ ممالک کے دباﺅ کے باعث کویت منتقل کردیا گیا لیکن قطر کی شمولیت پر اعتراض نہیں کیا گیا۔ دوسری جانب متحدہ عرب امارت کی طرح سعودی عرب نے بھی قطر سے کسی قسم کی آمدورفت پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور قطر کا زمینی سرحدی راستہ بھی دسمبر کے وسط سے بند کردیا گیا ہے۔
نئی تلخیاں مصالحتی عمل میں نئی رکاوٹ
تاہم حالیہ دنوں میں دو نئے معاملات تلخی کا باعث بنتے جارہے ہیں۔ قطری شاہی خاندان کے رکن عبداللہ الثانی کی متحدہ عرب امارات سے جاری کردہ ایک ویڈیو حالات پر اثر انداز ہورہی ہے۔ قطری شہزادے نے اپنے اس ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ اگرچہ وہ متحدہ عرب امارات کے مہمان کی حیثیت سے وہاں گئے تھے مگر اب وہ وہاں محصور کردیے گئے ہیں۔ ان کی سماجی ویب سائٹس پر جاری کردہ اس ویڈیو سے یہ واضح ہے کہ وہ ابوظہبی ایئرپورٹ پر موجود ہیں۔ عبداللہ الثانی پہلے ہی متنازع شخصیت ہیں جنہیں چار ہمسایہ ممالک نے بحران کے ابتداء سے ہی قطری قائد حزب اختلاف کے طور پر پیش کیا مگر اب ان کے بقول انہیں اپنی دو صاحبزادیوں کے ہمراہ ابوظہبی سے کویت سفر کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
عبداللہ الثانی نے اپنے ویڈیو پیغام میں یہ خدشہ ظاہر کیا کہ وہ امارات میں آزاد نہیں اور اگر ان کو کچھ ہوا تواس کا الزام قطر پر ڈالے جانے کا خطرہ ہے۔ وہ ویڈیو پیغام میں کافی مضحمل دکھائی دے رہے ہیں۔
عبداللہ الثانی کو دو روز تک امارات میں روکے رکھے جانے کے بعد بالآخر آج بدھ 17 جنوری کو انہیں کویت جانے کی اجازت دے دی گئی ہے جہاں انہیں علاج کی غرض سے ہسپتال میں داخل ہونا ہے۔ تاہم اب دیکھنا یہ ہو گا قطری شاہی خاندان کی یہ متنازعہ شخصیت دوحہ کب واپس لوٹتے ہیں۔
قطر اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے ایک دوسرے پر الزامات
دوسری توجہ طلب خبر میں متحدہ عرب امارات اور قطر کی جانب سے مبینہ طور پر ایک دوسرے کی سویلین ہوا بازی میں مداخلت ہے۔ تفصیل کچھ یوں ہے کہ گزشتہ ہفتے قطر کی جانب سے اماراتی جنگی ہوائی جہازوں کی جانب سے دو مرتبہ اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی شکایت سامنے آئی۔ اب گزشتہ دو ایام سے متحدہ عرب امارات کی ائیرلائنیں قطری فضائی حدود میں لڑاکا جہازوں کی فضا میں موجودگی اور سول ہوا بازی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوششوں کی شکایت کر رہی ہیں۔ جب قطر نے اماراتی جہازوں کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کا الزام لگایا تھا تو ابوظہبی نے اس کو غلط قرار دیا۔ اب اماراتی الزام پر قطر نے کسی مبینہ مداخلت سے انکار کردیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ فضائی حدود سے متعلق الزام تراشی کی وجہ عبداللہ الثانی کے پیغام کا رد عمل ہے۔
تاحال متحدہ عرب امارات کی طرف سے اس کے مسافر بردار ہوائی جہازوں کو ہراساں کیے جانے کی کوئی تصاویر جاری کی گئی ہیں اور نہ ہی باقاعدہ شکایت کا اندراج کرایا گیا ہے۔ البتہ قطر نے اقوام متحدہ میں ابوظہبی کے جنگی طیاروں کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی شکایت ضرور درج کروائی ہے۔
دریں اثناء قطری وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق دوحہ عالمی مصالحتی اداروں سے فضائی اور زمینی بندش کے خلاف رجوع کر رہا ہے۔ عالمی اداروں میں شکایت دائر کرنے کا واضح مطلب ہے کہ بحران کے جلد حل کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔ عالمی ادارے ایسے مسائل پر فیصلہ کرنے میں سالوں گزار دیتے ہیں۔ بہرحال کویت دسمبر میں خلیجی تعاون کونسل کے ناکام اجلاس کے باوجود مصالحتی کوششوں میں مصروف ہے۔ منگل 16 جنوری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی قطری راہنما سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔
قطر میں ایسا خاص کیا ہے؟
آبادی اور رقبے کے لحاظ سے ایک چھوٹی سی خلیجی ریاست قطر کے چند خاص پہلو ان تصاویر میں دیکھیے۔
تصویر: Reuters
تیل اور گیس
قطر دنیا میں سب سے زیادہ ’مائع قدرتی گیس‘ پیدا کرنے والا ملک ہے اور دنیا میں قدرتی گیس کے تیسرے بڑے ذخائر کا مالک ہے۔ یہ خلیجی ریاست تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔
تصویر: imago/Photoshot/Construction Photography
بڑی بین الاقوامی کمپنیوں میں حصہ داری
یہ ملک جرمن کار ساز ادارے فوکس ویگن کمپنی کے 17 فیصد اور نیو یارک کی امپائراسٹیٹ بلڈنگ کے دس فیصد حصص کا مالک ہے۔ قطر نے گزشتہ چند برسوں میں برطانیہ میں 40 ارب پاؤنڈز کی سرمایہ کاری کی ہے جس میں برطانیہ کے نامور اسٹورز ’ہیروڈز‘ اور ’سینز بری‘کی خریداری بھی شامل ہے
تصویر: Getty Images
ثالث کا کردار
قطر نے سوڈان حکومت اور دارفور قبائل کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری کشیدگی ختم کرانے میں ثالث کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ فلسطینی دھڑوں الفتح اور حماس کے درمیان مفاہمت اور افغان طالبان سے امن مذاکرات کے قیام میں بھی قطر کا کردار اہم رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Runnacles
الجزیرہ نیٹ ورک
دوحہ حکومت نے سن انیس سو چھیانوے میں ’الجزیرہ‘ کے نام سے ایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک بنایا جس نے عرب دنیا میں خبروں کی کوریج اور نشریات کے انداز کو بدل کر رکھ دیا۔ آج الجزیرہ نیٹ ورک نہ صرف عرب خطے میں بلکہ دنیا بھر میں اپنی ساکھ بنا چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Ulmer
قطر ایئر لائن
قطر کی سرکاری ایئر لائن ’قطر ایئر ویز‘ دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں شمار ہوتی ہے۔ اس کے پاس 192 طیارے ہیں اور یہ دنیا کے ایک سو اکیاون شہروں میں فعال ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Probst
فٹ بال ورلڈ کپ
سن 2022 میں فٹ بال ورلڈ کپ کے مقابلے قطر میں منعقد کیے جائیں گے۔ یہ عرب دنیا کا پہلا ملک ہے جو فٹ بال کے عالمی کپ کی میزبانی کر رہا ہے۔ یہ خلیجی ریاست فٹ بال کپ کے موقع پر بنیادی ڈھانے کی تعمیر پر 177.9 ارب یورو کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
تصویر: Getty Images
قطر کی آبادی
قطر کی کُل آبادی چوبیس لاکھ ہے جس میں سے نوے فیصد آبادی غیرملکیوں پر مشتمل ہے۔ تیل جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال خلیجی ریاست قطر میں سالانہ فی کس آمدنی لگ بھگ ایک لاکھ تئیس ہزار یورو ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Wire/S. Babbar
برطانیہ کے زیر انتظام
اس ملک کے انتظامی امور سن 1971 تک برطانیہ کے ماتحت رہے۔ برطانیہ کے زیر انتظام رہنے کی کُل مدت 55 برس تھی۔ تاہم سن 1971 میں قطر نے متحدہ عرب امارات کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور ایک خود مختار ملک کے طور پر ابھرا۔
تصویر: Reuters
بادشاہی نظام
قطر میں انیسویں صدی سے بادشاہی نطام رائج ہے اور تب سے ہی یہاں الثانی خاندان بر سراقتدار ہے۔ قطر کے حالیہ امیر، شیخ تمیم بن حماد الثانی نے سن 2013 میں ملک کی قیادت اُس وقت سنبھالی تھی جب اُن کے والد شیخ حماد بن خلیفہ الثانی اپنے عہدے سے دستبردار ہو گئے تھے۔
تصویر: Reuters
9 تصاویر1 | 9
خلیجی بحران کے حوالے سے جاری صورتحال اور سامنے آنے والی حالیہ پیشرفت کے حقیقت پسندانہ تجزیے سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں۔
1۔ قطر اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات میں کشیدگی حالات میں بہتری میں بڑی رکاوٹ رہی ہے اور یہ کشیدگی فی الحال قائم رہنے کا امکان ہے۔ دوسری جانب قطر اور مصر کے خفیہ مذاکرات جاری تو ہیں مگر قاہرہ اور ابوظہبی کے دیرینہ تعلقات کے باعث مثبت پیش رفت اتنی آسان دکھائی نہیں دیتی۔ سعودی عرب اپنے حلیفوں کے اتفاق کے بغیر قطر سے تعلقات معمول پر لانے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب خلیجی تعاون کی انجمن کا اگلا اجلاس کب اور کہاں ہوتا ہے اور امریکی حکومت کسی حد تک حالات میں مثبت دلچسپی لیتی ہے؟ قطر کہاں تک بحران کے خاتمے کے لیے سمجھوتہ کرنے کو تیار ہے؟
2۔ قطری معیشت خصوصاً ہوا بازی اور مہمان نوازی کے شعبے کافی حد تک متاثر بھی ہوئے ہیں۔ البتہ قطر ورلڈ کپ 2022ءکی تیاریوں میں بلا خلل مشغول ہے جس سے روزگار کی فراہمی برقرار ہے اور معیشت میں زرمبادلہ کا تبادلہ بھی جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ قطر مزید کتنے عرصے تک معاشی اور سفارتی بندش کی بھاری قیمت اداکرتا رہے گا۔ حالیہ پیداواری صلاحیت برقرار رکھتے ہوئے قطر 137 برس تک گیس نکال کر فروخت کرسکتا ہے لیکن عالمی معیشت میں گیس کی ضرورت سے زیادہ فروخت ناممکن ہوگی۔ ہمسایہ ممالک جانتے ہیں کہ قطر پر سب سے مؤثر دباﺅ معاشی اور تجارتی ہی ہے اور رہے گا۔ یہ بات طے ہے کہ بحران کے خاتمے کی صورت میں بھی قطر خود انحصاری کی پالیسی پر قائم رہے گا اور عالمی کمپنیوں اور اداروں سے دبئی اور ابوظہبی کے بجائے براہ راست تجارت کو ترجیح دے گا۔
3۔ عبداللہ الثانی کو اکسانے کی ناکام کوشش کے بعد یہ امر واضح ہے کہ ہمسایہ ممالک قطر کو اندرونی خلفشار سے دوچار نہیں کرسکتے۔ قطری شاہی خاندان کے لیے یہ اتفاق ملک میں عزت اور توقیر کا باعث ہے۔ قطری قیادت سیاسی قوت ارادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملکی سالمیت اور وقار کا سمجھوتہ کرتی دکھائی نہیں دیتی۔
4۔ بحران کی طوالت قطر میں غیر ملکی افرادی قوت کے لیے منفی اثرات کی حامل ہے۔ اگرچہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے برعکس قطر نے ملک میں پانچ فیصد ٹیکس کا نفاذ نہیں کیا پھر بھی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں قدرے اضافے کے باعث قطر میں مقیم غیر ملکی افراد میں تشویش بڑھ رہی ہے۔
قطر اور گلف تعاون کونسل، سالوں پر پھیلے اختلافات
حالیہ قطری بحران، خلیجی ریاستوں اور دوحہ حکومت کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ کی پہلی مثال نہیں۔ ڈی ڈبلیو نے تصاویر کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں علاقائی کشیدگی کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی ہے۔
تصویر: Picture alliance/AP Photo/K. Jebreili
کشیدہ تعلقات اور کرچی کرچی اعتماد
رواں برس پانچ جون کو سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت اور اپنے حریف ایران سے تعلقات کے فروغ کا الزام عائد کرتے ہوئے دوحہ سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ دوحہ حکومت نے ان تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے نہ صرف قطر پر پابندیاں عائد کیں بلکہ تعلقات کی بحالی کے لیے تیرہ مطالبات بھی پیش کیے۔ کویت فریقین کے درمیان ثالثی کی کوشش کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/STRINGER
خلیج تعاون کونسل بھی علاقائی عدم استحکام سے متاثر
پانچ مارچ سن 2014 میں بھی سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمون کے ساتھ تعاون پر قطر سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ اخوان المسلمون کو بعض ممالک کے نزدیک دہشت گرد تنظیم خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Elfiqi
عرب اسپرنگ اور خلیجی تعاون کونسل
سن 2011 میں تیونس سے شروع ہونے والی انقلابی تحریک کے بعد ایسی تحریکیں کئی عرب ممالک میں پھیل گئی تھیں تاہم’عرب بہار‘ نے جی سی سی رکن ریاستوں میں بغاوتوں کی قیادت نہیں کی تھی۔ سوائے بحرین کے جس نے سعودی فوجی مدد سے ملک میں ہونے والے شیعہ مظاہروں کو کچل ڈالا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh
سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام
قطر پر سن 2013 میں ہونے والے خلیجی تعاون کونسل کے سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے آٹھ ماہ کے شدید تناؤ کے بعد قطر میں اپنے سفارتخانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/J. Ernst
پائپ لائن تنازعہ
سعودی عرب اور قطر کے درمیان تعلقات اُس وقت کم ترین سطح پر پہنچ گئے جب ریاض حکومت نے قطر کے کویت کے لیے ایک گیس پائپ لائن منصوبے کو نا منظور کر دیا۔ اسی سال سعودی حکومت نے قطری گیس اومان اور متحدہ عرب امارات لے جانے والے پہلے سے ایک طے شدہ پائپ لائن منصوبے پر بھی احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
سرحدی جھڑپ
سن 1992 میں سعودی عرب اور قطر کے مابین ایک سرحدی جھڑپ میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ قطر نے دعوی کیا کہ ریاض نے خفوس کے مقام پر ایک سرحدی چوکی کو نشانہ بنایا۔ دوسر طرف سعودی عرب کا کہنا تھا کہ قطر نے اُس کے سرحدی علاقے پر حملہ کیا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
سرحدوں کے تنازعات
سن 1965 میں سعودی عرب اور قطر کے درمیان ان کی سرحدی حد بندی کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا تھا تاہم یہ معاملہ کئی برس بعد بھی مکمل طور پر طے نہیں ہو سکا تھا۔ سن 1996 میں دونوں ممالک نے اس حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کیے تاہم اس کے مکمل نفاذ میں مزید ایک عشرے سے زیادہ کا عرصہ لگا۔
علاقائی تنازعات
سن 1991 میں دوحہ ہوار جزائر سے متعلق بحرین کے ساتھ ایک تنازعے کو اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے گیا۔ سن 1986 میں بھی دونوں ممالک کے درمیان سعودی عرب کی مداخلت کے باعث عسکری تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا۔ بعد میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بحرین کے حق میں فیصلہ دیا تھا جبکہ قطر کو جینن جزائر کی ملکیت دی گئی تھی۔