قطر میں افغان طالبان کے نمائندہ دفتر کا قیام
18 جون 2013قطر میں قائم الجزیرہ ٹیلی وژن چینل نے اپنے ذرائع کے حوالے سے اس خبر کی تصدیق کی ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کابل میں ان کے نمائندے نے طالبان کے ایک نمائندے سے رابطہ کیا مگر اُس نے تازہ پیشرفت کے حوالے سے لاعلمی ظاہر کی۔ افغان حکومتی ذرائع نے اس خبر کی نا تردید کی ہے اور نہ ہی تائید کی ہے۔
ابھی حال ہی میں افغان صدر حامد کرزئی نے قطر کا دورہ کیا تھا۔ صدر کرزئی رواں برس اپریل میں کہہ چکے ہیں کہ قطر میں طالبان کا نمائندہ دفتر امن عمل کے سلسلے میں مددگار ثابت ہوگا۔ انہوں نے یہ بات بھی عرب ٹیلی وژن چینل الجزیرہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی تھی۔ افغان ذرائع ابلاغ نے امن شوریٰ کے ترجمان مولی شہزادہ شاہد کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ طالبان کے امن دفتر کا معاملہ حتمی مرحلے میں ہے۔
کابل حکومت کا موقف رہا ہے کہ ان کی حمایت کے بغیر اس دفتر کا قیام کوئی معنی نہیں رکھتا۔ افغانستان میں طالبان عسکریت پسند صدر حامد کرزئی کی حکومت سے براہ راست مذاکرات سے انکاری ہیں اور وہ صدر کرزئی کو امریکا کی کٹھ پتلی قرار دیتے ہیں۔ مغربی اقوام کی کوشش ہے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان کسی طور مذاکراتی عمل شروع ہو جائے۔ شورش زدہ افغانستان میں متعین غیر ملکی فوجی اگلے برس نکل جائیں گے اور سلامتی کی ذمہ داریاں مقامی دستوں کے حوالے کر دی جائیں گی۔
اس تناظر میں امن عمل کی اہمیت بہت خاصی بڑھ جاتی ہے۔ اگرچہ طالبان کے نمائندہ دفتر کے قیام کی کابل یا واشنگٹن حکام کی جانب سے تصدیق سامنے نہیں آئی ہے تاہم خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امن عمل کے آغاز سے قبل کئی منزلیں طے کرنا ہوں گی چونکہ افغانستان میں کوئی ایک منظم یا متحدہ حکومت مخالف قوت نہیں بلکہ مختلف گروہ لڑ رہے ہیں تو امن عمل میں کون سا گروہ ان سب کی نمائندگی کرے گا۔ اس کے علاوہ طالبان کے مطالبات کے برعکس افغان صدر چاہتے ہیں کہ ان کے نمائندے ہر قسم کے مذاکراتی عمل میں موجود رہیں۔
افغان امور کے ماہر نبی مصداق کے بقول طالبان گزشتہ ایک برس سے قطر میں فعال تھے اور اب افغان صدر حامد کرزئی اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے مابین تفصیلی مشاورت سے بالآخر اس نمائندہ دفتر کے قیام پر اتفاق ہوا ہے۔ ان کے مطابق واشنگٹن حکومت افغانستان میں اپنے فوجی اڈوں کا قیام چاہتی ہے اور اس کے لیے طالبان کے ساتھ اب گیارہ برس سے بھی زائد عرصے کی جنگ کے بعد مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جارہا ہے۔
(sks/ah(AFP