قطر میں تارکین وطن کے لیے کم از کم اجرت کا نیا قانون نافذ
20 مارچ 2021
خلیجی عرب ریاست قطر میں دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے لاکھوں تارکین وطن کارکنوں کے لیے کم از کم ایک ہزار ریال کی لازمی ماہانہ اجرت کا نیا قانون آج ہفتہ بیس مارچ سے باقاعدہ نافذ العمل ہو گیا ہے۔
اشتہار
تیل اور قدرتی گیس سے مالا مال خلیج فارس کی اس ریاست میں یہ نیا قانون روزگار کی ملکی منڈی میں وسیع تر اصلاحات کے پروگرام کے ایک حصے کے طور پر منظور کیا گیا تھا، جو آج سے مؤثر ہو گیا ہے۔
مساوی حقوق تمام تارکین وطن کے لیے
سرکاری خبر رساں ادارے قطر نیوز ایجنسی نے ترقیاتی امور، روزگار اور سماجی بہبود کی ملکی وزارت کے ایک اعلان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اس قانون کا اطلاق ملک میں مقیم تمام غیر قطری قومیتوں کے افراد پر ہو گا اور ایسے غیر ملکی کارکنوں میں گھروں میں کام کرنے والے ملازمین بھی شامل ہوں گے۔
یہ کم از کم لازمی ماہانہ تنخواہ 1000 قطری ریال (تقریباﹰ 275 امریکی ڈالر) رکھی گئی ہے۔ اس قانون کے نفاذ کے ساتھ ہی قطر خطے کا وہ پہلا ملک بن گیا ہے، جس نے اپنے ہاں کسی بھی ملک کے شہریوں کے ساتھ کوئی امتیازی رویہ روا رکھنے کے بجائے تمام غیر ملکیوں کے لیے مساوی بنیادوں پر کم از کم لازمی ماہانہ اجرت کا نظام اپنا لیا ہے۔
اس قانون کے تحت قطری آجرین کو اس امر کو بھی یقینی بنانا ہو گا کہ ان کے تمام ملازمین کو نا صرف ہر ماہ لازمی طور پر کم از کم طے شدہ تنخواہ ضرور ملے بلکہ ساتھ ہی ان کو رہائش اور خوراک کی مناسب سہولیات کی فراہمی بھی لازمی کر دی گئی ہے۔
جن کارکنوں کو اب رہائش اور خوراک ان کے آجرین خود مہیا نہیں کریں گے، ان کو ہر ماہ تنخواہ کے علاوہ خوراک کے لیے کم از کم 300 ریال اور رہائش کے لیے 500 ریال کی نقد ادائیگیاں بھی لازمی ہوں گی۔
اشتہار
کفالت کے نظام کا خاتمہ
دوحہ حکومت نے گزشتہ برس اگست میں یہ اعلان کیا تھا کہ وہ ملک میں تارکین وطن کارکنوں کے لیے کم از کم لازمی اجرت کا نظام متعارف کرانا چاہتی ہے، جس کے ذریعے عملاﹰ کسی نا کسی کفیل والے اس روایتی نظام کفالت کا خاتمہ کرنا بھی مقصود تھا، جس کے تحت بین الاقوامی ناقدین کے مطابق مقامی آجر بہت سے واقعات میں تارکین وطن کے مالی اور سماجی استحصال کے مرتکب ہوتے تھے۔
آبادی اور رقبے کے لحاظ سے ایک چھوٹی سی خلیجی ریاست قطر کے چند خاص پہلو ان تصاویر میں دیکھیے۔
تصویر: Reuters
تیل اور گیس
قطر دنیا میں سب سے زیادہ ’مائع قدرتی گیس‘ پیدا کرنے والا ملک ہے اور دنیا میں قدرتی گیس کے تیسرے بڑے ذخائر کا مالک ہے۔ یہ خلیجی ریاست تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔
تصویر: imago/Photoshot/Construction Photography
بڑی بین الاقوامی کمپنیوں میں حصہ داری
یہ ملک جرمن کار ساز ادارے فوکس ویگن کمپنی کے 17 فیصد اور نیو یارک کی امپائراسٹیٹ بلڈنگ کے دس فیصد حصص کا مالک ہے۔ قطر نے گزشتہ چند برسوں میں برطانیہ میں 40 ارب پاؤنڈز کی سرمایہ کاری کی ہے جس میں برطانیہ کے نامور اسٹورز ’ہیروڈز‘ اور ’سینز بری‘کی خریداری بھی شامل ہے
تصویر: Getty Images
ثالث کا کردار
قطر نے سوڈان حکومت اور دارفور قبائل کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری کشیدگی ختم کرانے میں ثالث کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ فلسطینی دھڑوں الفتح اور حماس کے درمیان مفاہمت اور افغان طالبان سے امن مذاکرات کے قیام میں بھی قطر کا کردار اہم رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Runnacles
الجزیرہ نیٹ ورک
دوحہ حکومت نے سن انیس سو چھیانوے میں ’الجزیرہ‘ کے نام سے ایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک بنایا جس نے عرب دنیا میں خبروں کی کوریج اور نشریات کے انداز کو بدل کر رکھ دیا۔ آج الجزیرہ نیٹ ورک نہ صرف عرب خطے میں بلکہ دنیا بھر میں اپنی ساکھ بنا چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Ulmer
قطر ایئر لائن
قطر کی سرکاری ایئر لائن ’قطر ایئر ویز‘ دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں شمار ہوتی ہے۔ اس کے پاس 192 طیارے ہیں اور یہ دنیا کے ایک سو اکیاون شہروں میں فعال ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Probst
فٹ بال ورلڈ کپ
سن 2022 میں فٹ بال ورلڈ کپ کے مقابلے قطر میں منعقد کیے جائیں گے۔ یہ عرب دنیا کا پہلا ملک ہے جو فٹ بال کے عالمی کپ کی میزبانی کر رہا ہے۔ یہ خلیجی ریاست فٹ بال کپ کے موقع پر بنیادی ڈھانے کی تعمیر پر 177.9 ارب یورو کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
تصویر: Getty Images
قطر کی آبادی
قطر کی کُل آبادی چوبیس لاکھ ہے جس میں سے نوے فیصد آبادی غیرملکیوں پر مشتمل ہے۔ تیل جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال خلیجی ریاست قطر میں سالانہ فی کس آمدنی لگ بھگ ایک لاکھ تئیس ہزار یورو ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Wire/S. Babbar
برطانیہ کے زیر انتظام
اس ملک کے انتظامی امور سن 1971 تک برطانیہ کے ماتحت رہے۔ برطانیہ کے زیر انتظام رہنے کی کُل مدت 55 برس تھی۔ تاہم سن 1971 میں قطر نے متحدہ عرب امارات کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور ایک خود مختار ملک کے طور پر ابھرا۔
تصویر: Reuters
بادشاہی نظام
قطر میں انیسویں صدی سے بادشاہی نطام رائج ہے اور تب سے ہی یہاں الثانی خاندان بر سراقتدار ہے۔ قطر کے حالیہ امیر، شیخ تمیم بن حماد الثانی نے سن 2013 میں ملک کی قیادت اُس وقت سنبھالی تھی جب اُن کے والد شیخ حماد بن خلیفہ الثانی اپنے عہدے سے دستبردار ہو گئے تھے۔
تصویر: Reuters
9 تصاویر1 | 9
اب نئے قانون کے تحت قطر میں مقیم غیر ملکی کارکنوں کے لیے اپنے آجرین کی اجازت کے بغیر بھی اپنی ملازمت تبدیل کرنا ممکن ہو گیا ہے۔
فیفا ورلڈ کپ
قطری حکومت نے ملک میں روزگار کی منڈی میں یہ اصلاحات ایک ایسے وقت پر نافذ کی ہیں، جب قطر کی طرف سے اگلے برس فٹ بال کے فیفا ورلڈ کپ 2022 کی میزبانی میں بہت زیادہ عرصہ باقی نہیں بچا۔
برطانوی اخبار گارڈیئن نے ابھی گزشتہ ماہ ہی اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ 2010ء میں جب سے قطر کو 2022ء کے فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کے حقوق ملے ہیں، تب سے اب تک اس خلیجی ریاست میں بھارت، پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے تعلق رکھنے والے 6500 سے زائد کارکن ہلاک ہو چکے ہیں۔
قطری حکومت آج کل فن و ثقافت کے شعبے میں بڑی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ اس کی ایک مثال قطر کا نیا قومی عجائب گھر ہے، جسے جمعرات اٹھائیس مارچ کو ایک باقاعدہ تقریب کے ساتھ عوام کے لیے کھول دیا گیا۔
تصویر: AFP/I. Baan
صحرا میں شاندار عمارت
اس میوزیم کی تعمیر اس وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے، جس کے تحت سعودی عرب اور ایران کے درمیان واقع یہ خلیجی عرب ریاست ایک ’ثقافتی سپر طاقت‘ بننے کے راستے پر گامزن ہے۔ قطر کا یہ نوتعمیر شدہ عجائب گھر دیکھنے میں ایسے لگتا ہے جیسے صحرا میں سورج کی بہت تیز دھوپ میں صحرائی گلاب سوکھ کر پتھر ہو گئے ہوں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Babu
منفرد منصوبہ
اس عجائب گھر کا طرز تعمیر بیک وقت اپنے اندر مشرقیت بھی لیے ہوئے ہے اور یہ مستقبل کے تعمیراتی رجحانات کی عکاسی بھی کرتا ہے، جو یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ خلیج کی یہ امارت ثقافتی حوالے سے ایک بڑی طاقت بننے کی نہ صرف خواہش رکھتی ہے بلکہ اس خواہش کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے کوشاں بھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Babu
طرز تعمیر
قطر میں اس انتہائی شاندار میوزیم کی تعمیر یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ اس خلیجی عرب ریاست میں مالی وسائل اہم مقاصد کے حصول کا محض ایک ذریعہ ہیں۔ اس میوزیم میں مستقل اور عارضی نمائش گاہوں کے طور پر دو علیحدہ علیحدہ حصے مختص کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک آڈیٹوریم بھی ہے، جس میں 220 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے اور ایک ایسا فورم بھی، جس میں 70 افراد کی نشست کا اہتمام کیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Babu
تاریخی پہچان
یہ میوزیم دوحہ میں 53 ہزار مربع میٹر رقبے پر انیسویں صدی کے قطر کے امیر شیخ عبداللہ بن جاسم الثانی کے تاریخی محل کے بالکل پہلو میں تعمیر کیا گیا ہے۔ قطر کی تاریخی پہچان قرار دیے جانے والے اس محل کو بھی بڑی بڑی نمائشوں کی ایک مرکزی جگہ میں تبدیل کرتے ہوئے اسی قومی عجائب گھر میں ضم کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Babu
لاگت و تاخیر
قطر میں اس نئے عجائب گھر کی تعمیر پر نصف ارب امریکی ڈالر (500 ملین ڈالر) کے برابر لاگت آئی۔ اس میوزیم کی تعمیر کی منظوری 2011ء میں دی گئی تھی۔ اسے کافی عرصہ پہلے ہی مکمل ہو جانا چاہیے تھا لیکن اس عمل میں کئی وجوہات کے باعث کافی تاخیر ہو گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Babu
5 تصاویر1 | 5
'ہلاکتیں تعداد کے تناسب سے‘
اس اخباری رپورٹ کی اشاعت کے بعد انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے دوحہ حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ اتنی بڑی تعداد میں قطر میں غیر ملکی کارکنوں کی اموات کی باقاعدہ چھان بین کرائے۔
دوسری طرف دوحہ حکومت نے برطانوی جریدے کی اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد اپنے ردعمل میں یہ تو نا کہا کہ اتنے برسوں میں مہمان کارکنوں کی ہلاکتوں کی اتنی بڑی تعداد غلط ہے، تاہم یہ ضرور کہا گیا تھا کہ قطر میں جتنی بڑی تعداد میں غیر ملکی شہری کام کرتے ہیں، ان میں سے 2010ء سے لے کر گزشتہ ماہ فروری تک جتنے تارکین وطن کا انتقال ہوا، ان کی تعداد پورے ملک میں مہمان کارکنوں کی مجموعی تعداد سے متناسب ہے۔
م م / ع س (ڈی پی اے، اے ایف پی)
قطر اور گلف تعاون کونسل، سالوں پر پھیلے اختلافات
حالیہ قطری بحران، خلیجی ریاستوں اور دوحہ حکومت کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ کی پہلی مثال نہیں۔ ڈی ڈبلیو نے تصاویر کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں علاقائی کشیدگی کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی ہے۔
تصویر: Picture alliance/AP Photo/K. Jebreili
کشیدہ تعلقات اور کرچی کرچی اعتماد
رواں برس پانچ جون کو سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت اور اپنے حریف ایران سے تعلقات کے فروغ کا الزام عائد کرتے ہوئے دوحہ سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ دوحہ حکومت نے ان تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے نہ صرف قطر پر پابندیاں عائد کیں بلکہ تعلقات کی بحالی کے لیے تیرہ مطالبات بھی پیش کیے۔ کویت فریقین کے درمیان ثالثی کی کوشش کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/STRINGER
خلیج تعاون کونسل بھی علاقائی عدم استحکام سے متاثر
پانچ مارچ سن 2014 میں بھی سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمون کے ساتھ تعاون پر قطر سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ اخوان المسلمون کو بعض ممالک کے نزدیک دہشت گرد تنظیم خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Elfiqi
عرب اسپرنگ اور خلیجی تعاون کونسل
سن 2011 میں تیونس سے شروع ہونے والی انقلابی تحریک کے بعد ایسی تحریکیں کئی عرب ممالک میں پھیل گئی تھیں تاہم’عرب بہار‘ نے جی سی سی رکن ریاستوں میں بغاوتوں کی قیادت نہیں کی تھی۔ سوائے بحرین کے جس نے سعودی فوجی مدد سے ملک میں ہونے والے شیعہ مظاہروں کو کچل ڈالا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh
سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام
قطر پر سن 2013 میں ہونے والے خلیجی تعاون کونسل کے سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے آٹھ ماہ کے شدید تناؤ کے بعد قطر میں اپنے سفارتخانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/J. Ernst
پائپ لائن تنازعہ
سعودی عرب اور قطر کے درمیان تعلقات اُس وقت کم ترین سطح پر پہنچ گئے جب ریاض حکومت نے قطر کے کویت کے لیے ایک گیس پائپ لائن منصوبے کو نا منظور کر دیا۔ اسی سال سعودی حکومت نے قطری گیس اومان اور متحدہ عرب امارات لے جانے والے پہلے سے ایک طے شدہ پائپ لائن منصوبے پر بھی احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
سرحدی جھڑپ
سن 1992 میں سعودی عرب اور قطر کے مابین ایک سرحدی جھڑپ میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ قطر نے دعوی کیا کہ ریاض نے خفوس کے مقام پر ایک سرحدی چوکی کو نشانہ بنایا۔ دوسر طرف سعودی عرب کا کہنا تھا کہ قطر نے اُس کے سرحدی علاقے پر حملہ کیا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
سرحدوں کے تنازعات
سن 1965 میں سعودی عرب اور قطر کے درمیان ان کی سرحدی حد بندی کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا تھا تاہم یہ معاملہ کئی برس بعد بھی مکمل طور پر طے نہیں ہو سکا تھا۔ سن 1996 میں دونوں ممالک نے اس حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کیے تاہم اس کے مکمل نفاذ میں مزید ایک عشرے سے زیادہ کا عرصہ لگا۔
علاقائی تنازعات
سن 1991 میں دوحہ ہوار جزائر سے متعلق بحرین کے ساتھ ایک تنازعے کو اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے گیا۔ سن 1986 میں بھی دونوں ممالک کے درمیان سعودی عرب کی مداخلت کے باعث عسکری تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا۔ بعد میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بحرین کے حق میں فیصلہ دیا تھا جبکہ قطر کو جینن جزائر کی ملکیت دی گئی تھی۔